عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - Page 3 - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Islam » Islamic Issues And Topics » عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت
Islamic Issues And Topics !!! Post Islamic Issues And Topics Here !!!

Advertisement
Post New Thread  Closed Thread
 
Thread Tools Display Modes
(#21)
Old
Noor ul huda Noor ul huda is offline
 


Posts: 4,114
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Jan 2010
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-24-2011, 10:12 PM

May ALLAH Guide us All.

Kisi aik Sahabi, Tabaiee ya Taba Tabayiee ki Misaal dien jinhou nay aisa kia hu. I will be very Grateful to you sis.

 

Sponsored Links
(#22)
Old
!~*SOoLi !~*SOoLi is offline
Girl Heart Black!!! .. =D
 


Posts: 12,518
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Feb 2009
Location: Lahore..
Gender: Male
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-25-2011, 11:54 AM

Siddiqa It will be good Kay Agar Ap Aik Aur Thread Banaye Bajaye Isi Main Questioning Kay .. Takay Hum Doosra School of Thought Bhi Read Kar Sakain..

 

(#23)
Old
Noor ul huda Noor ul huda is offline
 


Posts: 4,114
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Jan 2010
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 01:43 AM

Chalien Theek Hay In'shaALLAH!

 

(#24)
Old
Shaam Shaam is offline
Shaam
 


Posts: 5,120
My Photos: ()
Country:
Join Date: Dec 2008
Location: some where near somebody
Gender: Male
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 04:12 AM

well Allah ke nabi ke amad ke din per hi ikhtilaaf hai koi 8 kahta hai koi 9 aur koi 12.

no 2 yah baat sahi hai ke kisi sahabi ne aisa koi din nahi manaya na NABI saw ne apni zindagi me aisa koi amal kia. (saligirah mananey walei bhi is ko samjhein )

ek aur baat yah ke Rasool Saw apne tareef karwaney ke lia nahi aye they unki tareef Allah ne kardi . unke anei ka maqsad kuch aur tha wo samjhein

is ke alawa yah ke Quran ke jo hawalei ya jo references diye gaye hain wo sab mubham hain. koi ek ulma e tafaseeer ka hawala diya jaaye.. ?

phir kia musalmaan sarei hind o pak me rehgaye hain /

Allah ne Quran me musalmano ke lia 2 eid ka kaha hai
us me takhfeef karna bila shuba ghalt hai


Aap saw ki paidaish waqai ek bohat bari naimat hai aur us din Allah ka shukr ada karna chaiye lekin SHUKR ki definition kia hai
?


Allah ki naimato ko paake us ki na farmaani na karna shukr hai,,,


poorei mulk me chori ki bijli sei aur phir jaali khana e kaba ki ko rakh kar tawaf karna shukr hai ?

aur phir jitni lighting aur jitna kapra yaha istimaal hota hai aap saw kuch hotey tou us ko aisey jhandey bananey me zaya kartey yah kahtey ke aaj meri ummat ka yah haal hai ke wo apne bachey bech rahi hai
jaakei yah waha taqseem kardo
yahi meri viladat ka maqsad hai.


Wallah Aalam

 

(#25)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:19 AM

aslam o alikum..
khushi tu is bat ki hai k ap sab ne buhat dil se is ka muta,ala kia
is k liye buhat shukriya..
kuch aur havale se b paish kerne ki ijazat chahti hon...
koi galti ho jaye tu muaaf kijye ga...

.................................................. ............................


عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت

از: سید شاہ تراب الحق قادری رضوی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال ۔ بعض لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اور محافل میلاد منعقد کرنے کو بدعت و حرام کہتے ہیں ۔ قرآن و سنت اور ائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان فرمائیے۔

جواب۔ ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ بارہ ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)

بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

 

(#26)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:19 AM

سی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں

شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟ (ماثبت بالستہ)

 

(#27)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:20 AM

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خ-واب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخ-ل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

 

(#28)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:20 AM

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)
جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129)

امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8)
ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔ اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔

 

(#29)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:21 AM

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کے دلائل




( ١ ) ((و لَقَد ارسلنَا مُوسَیٰ بِاَیَاتِنَآ ان اخرج قَومَکَ مَن الظُّلمَتِ اِلیٰ النُّورِ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ج اِنَّ فی ذَلِکَ لَا یٰاتٍ لَکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ ))

((اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )) سورت ابراہیم ، آیت ٥
( ٢ )(( اَلم تَرَ اِلیٰ الَّذِینَ بَدَّلُوا نَعمَتَ اللَّہِ کُفراً وَ اَحَلُوا قَومَھُم دَارَ البَوَارِ ))

( اے رسول ) کیا تُم نے نہیں ا ُنکو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور ( اِس اِنکار کی وجہ سے ) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتاریا )) سورت ابراہیم کی آیت ٢٨
( ٣ ) ((وَ اَمَا بِنِعمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث))

(( اور جو تمہارے رب کی نعمت ہے اُس کا ذِکر کِیا کرو )) سورت الضُحیٰ ،آیت ١١
( ٤ )(( قَالَ عِیسی ابنُ مَریَمَ اللَّھُمَّ رَبَّنَا اَنزِل عَلِینَا مآئِدۃً مِنَ السَّمَآءِ تَکُونُ لَنَا عِیداً لِّاَوَّلِنَا وَ اخِرِنَا وَ اَیَۃً مِنکَ وَ ارزُقنَا وَ اَنتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ))

(( مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر ، ( اُسکا نازل ہونا ) ہمارے لئیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لئیے عید ہو جائے ، اور تمہارے طرف سے ایک نشانی بھی ، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب بہتر رزق دینے والا ہے )) سورت المائدہ ، آیت ١١٤
( ٥ ) (( قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مما یَجمَعُونَ ُ٥٨ ))

(( ( اے رسول ) کہو ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُسکی رحمت ( سے ہے ) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے ُ ٥٨ )) سورت یونس
( ٦ ) سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ کے متعلق کہتے ہیں کہ اِس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اِسی طرح ''' عید میلاد ''' کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دِلاتے ہیں ۔
( ٧ ) اپنے طور پر اپنے اِس کام کو سُنّت کے مُطابق ثابت کرنے کے لئیے خود کو اور اپنے مریدوں کو دہوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دِن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی ، خود ولادت پر خوشی منانا ہے '''
( ٨ ) کہتے ہیں کہ ''' ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کِیا اور اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے ، پس اِس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعثِ ثواب ہے '''
( ٩ ) کہتے ہیں کہ ''' میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے ، اور یہ کام تو صحابہ بھی کِیا کرتے تھے ، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا ؟ '''
( ١٠ ) کہتے ہیں ''' ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اُن کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مُحبت نہیں '''
ابھی گذشتہ سطور میں جو باتیں آپ نے پڑہی ہیں وہ ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' منانے والوں کے دلائل میں سے سب سے اہم اور طاقتور ہیں ، اب ترتیب وار اُن کے جوابات لکھتا ہوں ،
انشاء اللہ تعالیٰ ایک ایک دلیل کا مفصل اور تحقیقی جواب لکھا جائے گا ، سب پڑہنے والوں سے گذارش ہے کہ تحمل مزاجی ، انصاف پسندی ، اور سکون و غور کے ساتھ پڑہیں اور روایتی مناظرہ بازی سمجھ کر نہیں تحقیق سمجھ کر پڑہیں ، اور سب دلائل کے جوابات پورا ہونے تک بار بار پڑہیں ، اور غور کریں کہ قُران و حدیث کو کسی طرح سمجھا جانا چاہئیے ، اور کس طرح سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ جاننے اور سمجھنے اور ہمت اور دلیری کے ساتھاُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو اُس کے اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہے اور اُسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے ہوں ،

 

(#30)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   06-26-2011, 07:21 AM

:::: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی پہلی دلیل :::::
یہ صاحبان سورت ابراہیم کی آیت ٥ کے ایک حصے کو بطورِ دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''' وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ( اِن کی مراد یہاں عاشوراء کا روزہ ہے یعنی دس محرم کا روزہ ) اور چونکہ حضور پاک اللہ کی نعمت ہیں لہذا ہم حضور پاک کی ولادت کی یاد میں جشن کرتے ہیں '''
::::::: جواب :::::::
مکمل آیت یوں ہے ((( و لَقَد ارسلنَا مُوسَیٰ بِاَیَاتِنَآ ان اخرج قَومَکَ مَن الظُّلمَتِ اِلیٰ النُّورِ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ج اِِنَّ فی ذَلِکَ لَا یٰاتٍ لَکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ )))((( اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ،اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )))
اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اِسکی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو اِن لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہوجاتا ہے
::::: اِمام محمد بن احمد جو اِمام القُرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' میں اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں '''' نعمتوں کو کبھی ایام بھی کہا جاتا ہے ، اور ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور مقاتل ( بن حیان ) نے کہا :: اللہ کی طرف سے سابقہ اُمتوں میں جو واقعات ہوئے ::: اور سعید بن جبیر نے عبداللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبي بن کعب ( رضی اللہ عنہم ) سے روایت کِیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ایک دفعہ موسی اپنی قوم کو اللہ کے دِن یاد کروا رہے تھے ، اور اللہ کے دِن اُسکی طرف سے مصبتیں اور اُسکی نعمتیں ہیں ) ( یہ صحیح مسلم کی حدیث ١٧٢ ، اور ٢٣٨٠ کا حصہ ہے ) اور اِس میں دِل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے ، ایسا واعظ جو ہر قِسم کی بدعت سے خالی ہو ، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو ''''
اِمام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں اِمام مجاہد اور اِمام قتادہ کا قول نقل کِیا کہ اُنہوں نے کہا '''' ( وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہ ) یعنی اِن کو اللہ کی مدد ا ور نعمتیں یاد کرواؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو فرعون کے ظلم سے نجات دِی ، اور اُن کے دشمن سے اُنہیں محفوظ کِیا ، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کِیا ، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کِیا ، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں '''
::::: غور فرمائیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِس آیت میں اللہ کے دِنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں ، کیا کہیں اُنہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ (((یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا تَقدِّمُوا بین یدی اللہِ و رسولَہِ و اَتَقُوا اللہَ اِِن اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ُ، یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا ترفعُوۤا اصواتَکُم فوق َ صوتِ النبي ، و لا تَجھَرُوا لَہ ُ بِالقُولِ کَجَھرِ بَعضُکُم لِبَعض ٍ ان تَحبطَ اعمالُکُم و انتُم لا تشعُرُون ))) (((اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، اللہ اور اُسکے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑہو اور اللہ ( کی ناراضگی ) سے بچو بے شک اللہ سُننے اور عِلم رکھنے والا ہے اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اُسکے ساتھ اُونچی آواز میں بات کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ))) ،
پھر یہ لوگ اِس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں ''' وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ''''
جی ہاں یہ درست ہے کہ بنی اِِسرائیل اُس دِن روزہ رکھا کرتے تھے جِس دِن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرعون سے نجات دی تھی اور وہ ہے دس محرم کا دِن ، اور بنی اِِسرائیل اِس دِن روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟؟؟؟؟ عید مناتے ہوئے یا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کام کرتے تھے جِس کا موسیٰ علیہ السلام نے اُنہوں حُکم دِیا ، ابھی ابھی اِس بات کے آغاز میں یہ لکھا گیا ہے کہ ''' اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
:::::ملاحظہ فرمائیے ، قارئین کرام ، آیت نمبر ٥ کی بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا (((و اِِذ قالَ موسیٰ لِقومِہِ اذکُرُوا نِعمۃَ اللہِ اِِذ اَ نَجٰکُم مِن آلِ فرعونَ یَسُومُونَکُم سُوۤءَ العَذاب ِ و یُذَبِّحُونَ ابنائَکُم و یَستَحیُونَ نِسائِکُم و فی ذ۔لِکُم بَلآءٌ مِّن رَّبِکُم عَظیم ( ٦ ) و اِِذ تَاَذَّنَ رَبُّکُم لَئِن شَکرتُم لَاَزِیدَنَّکُم وَ لَئِن کَفَرتُم اِِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ( ٧ ) وَ قَالَ مُوسیٰ اِِن تَکفُرُوۤا اَنتُم وَ مَن فی الارضَ جَمِیعاً فَاِِنَّ اللَّہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ ( ٨ ) ( اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دِی جو تم لوگوں کی شدید عذاب دیتی تھی کہ وہ لوگ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ( تا کہ اُنہیں لونڈیاں بنا کر رکھیں ) اور اِس عذاب میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا ( ٦ ) اور ( یہ نعمت بھی یاد کرو کہ ) جب تمہارے رب نے تمہیں یہ حُکم دیا کہ اگر تُم لوگ شُکر ادا کرو گے تو میں ضرور تُم لوگوں کو ( جان ، مال و عزت میں ) بڑہاوا دوں گا اور اگر تُم لوگ ( میری باتوں اور احکامت سے ) اِنکار کرو گے تو ( پھر یاد رکو کہ ) بلا شک میرا عذاب بڑا شدید ہے ( ٧ ) اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تُم سب اور جو کوئی بھی زمین پر ہے ، کفر کریں تو بھی یقینا اللہ تعالیٰ ( کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ )غنی اور حمید ہے ( ٨ )))
تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ لوگ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے !!! ''' عید ''' نہیں منایا کرتے تھے ،
اگر یہ لوگ اُن احادیث کا مطالعہ کرتے جو دس محرم کے روزے کے بارے میں تو اِنہیں یہ غلط فہمی نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ وَ ذَ کِّرھُم بِایام اللَّہِ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے رکھا کرتے تھے ::: ::::: ( ١ ) عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ''' جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ( یہ کیا ہے ) تو اُنہیں بتایا گیا کہ '' یہ دِن نیک ہے ، اِس دِن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُنکے دشمن ( فرعون ) سے نجات دِی تھی تو اُنہوں نے روزہ رکھا تھا '' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا ) ''' صحیح البُخاری حدیث٢٠٠٤ ۔
::::: ( ٢ ) ابو موسی رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ''' دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو ) ''' صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٥ ۔
::::: ( ٣ ) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے ''' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اِس دس محرم کے روزے کو کِسی بھی اور دِن کے (نفلی )روزے سے زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہنیے سے زیادہ ( فضیلت والا جانتے تھے ) یعنی رمضان کے مہینے کو ''' صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٦ ۔
::::: ( ٤ ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ’’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِ س دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں گزرے ہوئے ایک سال کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ‘‘‘ صحیح مُسلم حدیث ١١٦٢ ۔
::::: ( ٥ ) اُم المؤمنین عائشہ ، عبداللہ ابنِ عُمر ، عبداللہ ابنِ مسعود اور جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم ءِ عاشورا کے روزے کے بارے میں فرمایا ( اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے تو جوچاہے اِس دِن روزہ رکھے ا ور جو چاہے نہ رکھے ) ( اور رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھا کرتے تھے اور اِسکا حُکم بھی دِیا کرتے تھے ) ( اور اِسکی ترغیب دِیا کرتے تھے ، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ اِسکا حُکم دِیا ، نہ اِسکی ترغیب دِی اور نہ ہی اِس سے منع کیا ) صحیح مُسلم کتاب الصیام ، باب صوم یوم عاشوراء
::::: ( ٦ ) معاویہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سُنا کہ ( یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں ، تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے ) صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٣ ، صحیح مُسلم حدیث ١١٢٩
::::: ( ٧ ) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت محرم کے روزوں میں ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت رات کی نماز میں ہے ) صحیح مُسلم حدیث ١١٦٣ ۔
اِن احادیث پر غور فرمائیے ، کہیں سے اِشارۃ ً بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کو بنیاد بنا کر یہ روزہ رکھا تھا ، بلکہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس روزے کی ترغیب تک بھی نہیں دی ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں ہے ، بلکہ ہمیں بڑی وضاحت سے اِس بات کا ثبوت مِلتا ہے کہ یہ روزہ ایامِ جاہلیت میں بھی رکھا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے اِس روزہ کو رکھا اور اِسکے رکھنے کا حکم بھی دِیا اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اِسکی ترغیب بھی نہیں دی جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں ہے ، رہا معاملہ اِس روزہ کو موسی علیہ السلام کے یومِ نجات کی خوشی میں رکھنے کا تو درست یہ کہ خوشی نہیں بلکہ شکر کے طور پر رکھا جاتا تھا ، اور اگر خوشی ہی کہا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ کِسی بات پر خوش ہو کر روزہ رکھا جائے ، لہذا اِن کو بھی چاہیئے کہ یہ جِس دِن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن مانتے ہیں ، حالانکہ وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا ، اِس کا ذِکر آگے آئے گا اِنشاء اللہ ، تو اپنی اِس خام خیالی کی بنیاد پر اِن کو چاہیئے کہ یہ لوگ خود اور اِن کے تمام تر مریدان اُس دِن روزہ رکھیں ۔
مندرجہ بالا احادیث پر غور فرمایئے ، خاص طور پر پہلی حدیث پر تو ہمیں بالکل واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جا کر اُنہوں نے یہودیوں کو اِس دِن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ ( یہ کیا ہے ؟ ) ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس سوال سے یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرتِ مدینہ سے پہلے اِس دِن جو روزہ رکھا کرتے تھے وہ موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں نہ تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ دس محرم موسی علیہ السلام کا یومِ نجات تھا ، اور یہ حدیث اِس بات کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم غیب نہیں تھے ، خیر یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے ۔
اور یہ بات بھی بڑی مزیدار ہے کہ یہ صاحبان شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ سورت اِبراہیم مکی سورت ہے سوائے دو اور ایک روایت میں ہے کہ تین آیات کے ، اور وہ ہیں آیت نمبر ٢٨ ، ٢٩ ، ٣٠ ، مزید تفصیل کےلئیے ملاحظہ فرمائیے ، اِمام محمد بن علی الشوکانی کی تفسیر ''' فتح القدیر ''' اور اِمام محمد بن احمد القُرطبی کی تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' ،
تو جِس آیت کو یہ لوگ ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' کی دلیل بنا رہے ہیں اور اِس دلیل کی مضبوطی کےلئیے یوم ءِ عاشورا کے روزے کا معاملہ اِسکے ساتھ جوڑ رہے ہیں ، صحیح احادیث اور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس آیت کا یوم ءِ عاشورا کے روزے سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے اِس دِن کے روزے کو موسی علیہ السلام کی نسبت سے نہ جانتے تھے ، اور اِس آیت کے نزول سے پہلے یہ روزہ قریش ءِ مکہ بھی رکھا کرتے تھے ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں اِس بات کا ذِکر صراحت کے ساتھ ملتا ہے ، فَمَا بَعدَ الحَقِ اِِلَّا الضَّلالِ ،
تو کہاں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کہاں وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ، کیا قُران کی یہ سمجھ اُسے نہ تھی جِس پر نازل ہوا ، صلی اللہ علیہ وسلم ، کَبُرَت کَلمۃً تَخرُج مِن اَفواہہِم ۔

 

Post New Thread  Closed Thread

Bookmarks

Tags
شرعی, عید, کی

« Previous Thread | Next Thread »
Thread Tools
Display Modes

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات   ROSE Health & Care 4 05-28-2013 11:41 PM
ریشے دار غذا طویل العمری کا باعث ROSE Health & Care 5 05-28-2013 11:37 PM
لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات   ROSE Health & Care 5 05-28-2013 11:33 PM
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی  ROSE Quran 8 07-04-2012 01:03 PM
الٰہی تیری مخلوق کا عجب اک تماشا دیکھا Mf Great Power Urdu Writing Poetry 11 10-12-2011 11:32 AM


All times are GMT +5. The time now is 01:57 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG