نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم@ - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Islam » Islamic Issues And Topics » نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم@
Islamic Issues And Topics !!! Post Islamic Issues And Topics Here !!!

Advertisement
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#1)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم@ - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:55 AM

رِسالت کی چھاؤں میں
﴿الرحیق المختوم۔ صفحہ 96 تا 103﴾

غارِ حراء کے اندر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب چالیس برس کے قریب ہو چلی اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اب تک کے تاملات نے قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کر دیا تھا.... تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی محبوب ہو گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستو اور پانی لے کر مکہ سے کوئی دو میل دور کوہِ حراء کے ایک غار میں جا رہتے۔ یہ ایک مختصر سا غار ہے جس کا طُول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے۔ یہ نیچے کی جانب گہرا نہیں ہے بلکہ ایک مختصر راستے کےبازو میں اوپر کی چٹانوں کے باہم ملنے سے ایک کوتَل کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب یہاں تشریف لے جاتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جاتیں اور قریب ہی کسی جگہ موجود رہتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان بھر اس غار میں قیام فرماتے۔ آنے جانے والے مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور بقیہ اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے، کائنات کے مشاہد اور اس کے پیچھے کارفرما قدرتِ نادرہ پر غور فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی واضح راستہ، معین طریقہ اور افراط و تفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان و انشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے۔ ﴿۱﴾
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنہائی پسندی بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ایک تدبیر کا حصہ تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے والے کارِ عظیم کے لیے تیار کر رہا تھا۔ درحقیقت جس روح کے لیے بھی یہ مقدر ہو کہ وہ انسانی زندگی کے حقائق پر اثر انداز ہو کر ان کا رُخ بدل ڈالے اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین کے مشاغل، زندگی کے شور اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ہَمّ و غم کی دنیا سے کٹ کر کچھ عرصے کے لیے الگ تھلگ اور خلوت نشین رہے۔
ٹھیک اسی سنت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امانتِ کبریٰ کا بوجھ اٹھانے، روئے زمین کو بدلنے اور خطہِ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار کرنا چاہا تو رسالت کی ذمہ داری عائد کرنے سے تین سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خلوت نشینی مقدر کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خلوت میں ایک ماہ تک کائنات کی آزاد روح کے ساتھ ہم سفر رہتے اور اس وجود کے پیچھے چھپے ہوئے غیب کے اندر تدبر فرماتے تاکہ جب اللہ تعالیٰ کا اذن ہو تو اس غیب کے ساتھ تعامل کے لیے مستعد رہیں۔ ﴿۲﴾
........................................
﴿۱﴾ رحمتہ للعالمین ۴۷/۱ ابنِ ہشام ۲۳۵/۱، ۲۳۶ فی ظلال القرآن پارہ ۱۶۶/۲۹۔
﴿۲﴾ فی ظلال القرآن پارہ ۱۶۶/۲۹، ۱۶۷
........................................

جبریل علیہ السلام وحی لاتے ہیں:
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس برس ہو گئی.... اور یہی سنِ کمال ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے.... تو زندگی کے اُفق کے پار سے آثارِ نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے۔ یہ آثار خواب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ سپیدہ ء صبح کی طرح نمودار ہوتا۔ اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا.... جو مدتِ نبوت کا چھاآلیسواں حصہ ہے اور کل مدتِ نبوت تیئس برس ہے۔ اس کے بعد جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ روئے زمین کے باشندوں پر اس کی رحمت کا فیضان ہو۔ چنانچہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے مشرف کیا اور حضرت جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ ﴿۳﴾
دلائل و قرائن پر ایک جامع نگاہ ڈال کر حضرت جبریل علیہ السلام کی تشریف آوری کے اس واقعے کی تاریخ معین کی جا سکتی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۱ تاریخ کو دو شنبہ کی رات میں پیش آیا۔ اس روز اگست کی ۱۰ تاریخ تھی اور سن ۶۱۰ تھا۔ قمری حساب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن اور شمسی حساب سے ۳۹ سال تین مہینے ۲۲ دن تھی۔ ﴿۴﴾
....................................
﴿۳﴾ حافظ ابنِ حجر کہتے ہیں کہ بہیقی نے یہ حکایت کی ہے کہ خواب کی مدت چھ ماہ تھی، لہٰذا خواب کے ذریعے نبوت کا آغاز چالیس سال کی عمر مکمل ہونے پر ماہِ ربیع الاول میں ہوا جو آپ کی ولادت کا مہینہ ہے لیکن حالتِ بیداری میں آپ کے پاس وحی رمضان شریف میں آئی۔ ﴿فتح الباری ۲۷/۱﴾
................................

 

Reply With Quote Share on facebook
Sponsored Links
(#2)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:55 AM

﴿۴﴾ آغازِ وحی کا مہینہ، دن اور تاریخ:
مورخین میں بڑا اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس مہینے میں شرفِ نبوت اور اعزازِ وحی سے سرفراز ہوئے۔ بیشتر سیرت نگار کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا، لیکن ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ رجب کا مہینہ تھا، ﴿دیکھئے مختصر السیرہ از شیخ عبداللہ، ص۷۵﴾ہمارے نزدیک دوسرا قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
شھر رمضان الذي أنزل فيہ القرآن ﴿۱۸۵:۲﴾
’’رمضان کا مہینہ ہی وہ ﴿بابرکت مہینہ ہے﴾ جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔‘‘اور ارشاد ہے انا انزلنا فی لیل القدر ﴿۱:۹۷﴾ یعنی ’’ہم نے قرآن کو لیلتہ القدر میں نازل کیا۔‘‘ اور معلوم ہے کہ لیلتہ القدر رمضان میں ہے، یہی لیلتہ القدر اللہ کے اس ارشاد میں بھی مراد ہے انا انزلنا ه فی لله القدر مبرکة انا کنا منذرین ﴿۳:۴۴﴾ ’’ہم نے قرآن مجید کو ایک بابرکت رات میں اتارا ہم لوگوں کو عذاب کے خطرے سے آگاہ کرنے والے ہیں۔‘‘
....................................
﴿بقیہ نوٹ گزشتہ صفحہ﴾ دوسرے قول کی ترجیح کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حراء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ماہِ رمضان میں ہوا کرتا تھا اور معلوم ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حراء ہی میں تشریف لائے تھے۔
جو لوگ رمضان میں نزول وحی کے آغاز کے قائل ہیں اُن میں پھر اختلاف ہے کہ اس دن رمضان کی کون سی تاریخ تھی۔ بعض سات کہتے ہیں، بعض سترہ اور بعض اٹھارہ ﴿دیکھئے مختصر السیرہ، ص ۷۵۔ رحمتہ اللعالمین ۴۹/۱﴾

 

(#3)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:56 AM

میں نے ۲۱ تاریخ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے.... حالانکہ مجھے اس کا کوئی قائل نظر نہیں آیا کہ بیشتر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ کی بعثت دو شنبہ کے روز ہوئی تھی اور اس کی تائید ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو شنبہ کے دن روزے کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا۔ اور جس میں مجھے پیغمبر بنایا گیا۔ یا جس میں مجھ پر وحی نازل کی گئی۔ ﴿صحیح مسلم ۳۶۸/۱، مسند احمد ۲۹۷/۵، ۲۹۹ بہیقی ۲۸۶/۴، ۳۰۰ حاکم ۶،۲/۶﴾.... اور اس سال رمضان میں دو شنبہ کا دن ۷، ۱۴، ۲۱ اور ۲۸ تاریخوں کو پڑا تھا۔ ادھر صحیح روایات سے یہ بات ثابت اور معین ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور ان ہی طاق راتوں میں منلفر بھی ہوتی رہتی ہے۔ اب ہم ایک طر ف اللہ تعالیٰ کا ارشاد دیکھتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو لیلتہ القدر میں نازل کیا، دوسری طرف ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو شنبہ کے روز مبعوث فرمایا گیا، تیسری طرف تقویم کا حساب دیکھتے ہیں کہ اس سال رمضان میں دو شنبہ کا دن کن کن تاریخوں میں پڑا تھا تو متعین ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اکیسویں رمضان کی رات میں ہوئی۔ اس لیے یہی نزولِ وحی کی پہلی تاریخ ہے۔
................................

 

(#4)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:56 AM

آئیے اب ذرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں۔ یہ انوارِ لاہوت کا ایک ایسا شعلہ تھا جس سے کفر و ضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں، یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی محبوب ہو گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروفِ عبادت رہتے۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم توشہ لے جاتے۔ پھر ﴿توشہ ختم ہونے پر﴾ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حق آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو! ۔ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ جکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو!۔ میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا پھر چھوڑ کر کہا اقرأ باسم ربك الذي خلق ، خلق الإنسان من علق ، اقرأ و ربك الأكرم ﴿۵﴾ ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمھارا رب نہایت کریم ہے۔‘‘

 

(#5)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:57 AM

ان آیات کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دَھک دَھک کر رہا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد کے پاس تشریف لائے اور فرمایا، مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا قطعا نہیں۔ بخدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعُزیٰ کے پاس لے گئیں۔ ورقہ دورِ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عبرانی میں لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حسبِ توفیق الٰہی انجیل لکھتے تھے۔ اُس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے کہا: بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرما دیا۔ اس پر ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ کاش میں اس وقت توانا ہوتا۔ کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا، ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمھارا زمانہ پا لیا تو تمھاری زبردست مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے اور وحی رُک گئی۔ ﴿۶﴾
....................................

 

(#6)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:57 AM

﴿۵﴾ آیتیں علم الإنسان ما لم يعلم تک نازل ہوئی تھیں۔ ﴿۵،۱:۹۶﴾
﴿۶﴾ صحیح بخاری باب کیف کان بدالوحی ۳،۲/۱ الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یہ روایت صحیح بخاری کتاب التفسیر اور تعبیر الرویا میں بھی مروی ہے۔
............................
طبری اور ابنِ ہشام کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اچانک وحی کی آمد کے بعد غارِ حراء سے نکلے تو پھر واپس آ کر اپنی بقیہ مدت قیام پوری کی، اس کے بعد مکہ تشریف لائے۔ طبری کی روایت سے آپ کے نکلنے کے سبب پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ روایت یہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کی مخلوق میں شاعر اور پاگل سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی قابلِ نفرت نہ تھا۔ ﴿میں شدتِ نفرت سے﴾ ان کی طرف دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ ﴿اب جو وحی آئی تو﴾ میں نے ﴿اپنے جی میں﴾ کہا کہ یہ ناکارہ.... یعنی خود آپ.... شاعر یا پاگل ہے! میرے بارے میں قریش ایسی بات کبھی نہ کہہ سکیں گے۔ میں پہاڑ کی چوٹی پر جا رہا ہوں وہاں سے اپنے آپ کو نیچے لڑھکا دوں گا اور اپنا خاتمہ کر لوں گا اور ہمیشہ کے لیے راحت پا جاؤں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں یہی سوچ کر نکلا۔ جب بیچ پہاڑ پر پہنچا تو آسمان سے ایک آواز سنائی دی، اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نے آسمان کی طرف اپنا سر اُٹھایا۔ دیکھا تو جبریل علیہ السلام ایک آدمی کی شکل میں اُفق کے اندر پاؤں جمائے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں: اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں وہیں ٹھہر کر جبریل علیہ السلام کو دیکھنے لگا اور اس شغل نے مجھے میرے ارادے سے غافل کر دیا۔ اب میں نہ آگے جا رہا تھا نہ پیچھے۔ البتہ اپنا چہرہ آسمان کے افق میں گھما رہا تھا اور اس کے جس گوشے پر بھی میری نظر پڑتی تھی جبریل اسی طرح دکھائی دیتے تھے۔ میں مسلسل کھڑا رہا۔ نہ آگے بڑھ رہا تھا نہ پیچھے یہاں تک کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میری تلاش میں اپنے قاصد بھیجےاور مکہ تک جا کر پلٹ آئے۔ لیکن میں اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پھر جبریل علیہ السلام چلے گئے اور میں بھی اپنے اہلِ خانہ کی طرف پلٹ آیا اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر ان کی ران کے پاس انہیں پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کہا، ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے؟ بخدا! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آدمی بھیجے اور وہ مکہ تک جا کر واپس آگئے ﴿اس کے جواب میں﴾ میں نے جو کچھ دیکھا تھا انھیں بتا دیا۔ انھوں نے کہا: چچا کے بیٹے! آپ خوش ہو جائیے اور آپ ثابت قدم رہیے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں اُمید کرتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمت کے نبی ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ انھیں ماجرا سنایا۔ انھوں نے کہا قدوس، قدوس، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ورقہ کی جان ہے، ان کے پاس وہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔ یہ اس اُمت کے نبی ہیں۔ ان سے کہو ثابت قدم رہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ کی بات بتائی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حراء میں اپنا قیام پورا کر لیا اور ﴿مکہ﴾ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ نے ملاقات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تفصیلات سن کر کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِس اُمت کے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ ﴿۷﴾

 

(#7)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:57 AM

وحی کی بندش:
رہی یہ بات کہ وحی کتنے دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعد نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بندش چند دنوں کے لیے تھی اور سارے پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعا صحیح نہیں۔ البتہ یہاں دلائل پر بحث کی گنجائش نہیں۔ ﴿۸﴾
وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم حزین و غمگین رہے اور آپ پر حیرت و استعجاب طاری رہا۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب التعبیر کی روایت ہے کہ:
’’وحی بند ہو گئی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غمگین ہوئے کہ کئی بار بلند و بالا پہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لے گئے کہ وہاں سے لڑھک جائیں لیکن جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے کہ اپنے آپ کو لڑھکا لیں تو حضرت جبریل علیہ السلام نمودار ہوتے اور فرماتے: ’’اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے رسول حق ہیں۔‘‘ اور اس کی وجہ سے آپ کا اضطراب تھم جاتا۔ نفس کو قرار آجاتا اور آپ واپس آجاتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی بندش طول پکڑ جاتی تو آپ پھر اسی جیسے کام کے لیے نکلتے لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبریل علیہ السلام نمودار ہو کر پھر وہی بات دُہراتے۔ ﴿۹﴾
............................
﴿۷﴾ طبری ۲۰۷/۲ ابنِ ہشام ۲۳۷/۱، ۲۳۸، آخر کا تھوڑا سا حصہ ملخص کر دیا گیا ہے ہمیں اس روایت کی بیان کردہ تفصیلات کی صحت کے بار ےمیں قدرے تامل ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کے سیاق اور اس کی متعدد روایات کے تقابل کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مکہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی اور حضرت ورقہ سے ملاقات نزولِ وحی کے بعد اسی دن ہو گئی تھی۔ اور پھر باقی ماندہ قیام حراء کی تکمیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے پلٹ کر کی تھی۔
﴿۸﴾ تھوڑی سی توضیح حاشیہ نمبر ۱۱ میں آرہی ہے۔
﴿۹﴾ صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اول مابدئ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرؤیا الصالحتہ ۱۰۳۴/۲
﴿۱۰﴾ فتح الباری ۲۷/۱۔

 

(#8)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:57 AM

جبریل علیہ السلام دوبارہ وحی لاتے ہیں:
حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ ﴿یعنی وحی کی چند روز بندش﴾ اس لیے تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو خوف طاری ہو گیا تھا وہ رخصت ہو جائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق و انتظار پیدا ہو جائے ﴿۱۰﴾۔ چنانچہ جب حیرت کے سائے سُکڑ گئے، حقیقت کے نقوش پختہ ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے بزرگ و برتر کے نبی ہو چکے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو شخص آیا تھا وہ وحی کا سفیر اور آسمانی خبر کا ناقل ہے اور اس طرح وحی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق و انتظار اس بات کا ضامن ہو گیا کہ آئندہ وحی کی آمد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت قدم رہیں گے اور اس بوجھ کو اُٹھالیں گے، تو حضرت جبریل علیہ السلام دوبارہ تشریف لائے۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بندشِ وحی کا واقعہ سُنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہتے تھے: ’’میں چلا جا رہا تھا کہ مجھے اچانک آسمان سے ایک آواز سنائی دی۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حراء میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اس سے خوف زدہ ہو کر زمین کی طرف جا جھکا۔ پھر میں نے اپنے اہل خانہ کے پاس آکر کہا مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔ انھوں نے چادر اوڑھا دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ’’یایھا المدثر.... والرجز فاھجر‘‘ تک نازل فرمائی پھر ﴿نزول﴾ وحی میں گرمی آگئی اور وہ پیاپے نازل ہونے لگی ﴿۱۱﴾
................................
﴿۱۱﴾ صحیح بخاری کتاب التفسیر باب والرجز فاہجر ۷۳۳/۲
اس روایت کے بعض طرق کے آغاز میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے حراء میں اعتکاف کیا۔ اور جب اپنا اعتکاف پورا کر چکا تو نیچے اُترا۔ پھر جب میں بطن وادی سے گزر رہا تھا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھا، کچھ نظر نہ آیا۔ اوپر نگاہ اُٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ.... الخ اہل سیر کی تمام روایات کے مجموعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے تین سال حراء میں ماہ رمضان کا اعتکاف مکمل کر کے پہلی شوال کو سویرے ہی مکہ آجاتے تھے۔ مذکورہ روایت کے ساتھ اس بات کو جوڑنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’یایھا المدثر‘‘ والی وحی پہلی وحی کے دس دن بعد یکم شوال کو نازل ہوئی تھی۔ یعنی بندش وحی کی کل مدت دس دن تھی۔ واللہ اعلم۔
................................

 

(#9)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:58 AM

وحی کی اقسام:
اب ہم سلسلہ بیان سے ذرا ہٹ کر یعنی رسالت و نبوت کی حیاتِ مبارک کی تفصیلات شروع کرنے سے پہلے وحی کی اقسام ذکر کر دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ رسالت کا مصدراور دعوت کی کمک ہے۔ علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے حسبِ ذیل مراتب ذکر کیے ہیں:
۱۔ سچا خواب: اسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کی ابتدا ہوئی ۔
۲۔ فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دِکھلائی دیے بغیر آپ کے دل میں بات ڈال دیتا تھا، مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ان روح القدس نفث فى روعى ان نفسا لن تموت حتى تستوفى كامل اجلها ورزقها فاتقوا الله واجملوا فى الطلب ولا يحملنكم استبطاء الرزق على ان تطلبوه بمعصية الله فان ماعند الله لاينال الا بطاعته
’’روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی کہ کوئی نفس مر نہیں سکتا یہاں تک کہ اپنا رزق پورا پورا حاصل کر لے۔ پس اللہ سے ڈرو اور طلب میں اچھائی اختیار کرو اور رزق کی تاخیر تمھیں اس بات پر آمدہ نہ کرے کہ تم اُسے اللہ کی معصیت کے ذریعے تلاش کرو، کیونکہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

 

(#10)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں (الرحیق المختوم - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-14-2012, 02:58 AM

۳۔ فرشتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آدمی کی شکل اختیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتا پھر جو کچھ وہ کہتا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر لیتے۔ اس صورت میں کبھی کبھی صحابہ رضی اللہ عنہ بھی فرشتے کو دیکھتے تھے۔
۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی گھنٹی کے ٹن ٹنانے کی طرح آتی تھی۔ وحی کہ یہ سب سے سخت صورت ہوتی تھی۔ اس صورت میں فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تھا اور وحی آتی تھی تو سخت جاڑے کے زمانے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ پڑتا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوتے تو وہ زمین پر بیٹھ جاتی تھی۔ ایک بار اس طرح وحی آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی، تو ان پر اس قدر گراں بار ہوئی کہ معلوم ہوتا تھا ران کُچل جائے گی۔
۵۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتے کو اس کی اصلی اور پیدائشی شکل میں دیکھتے تھے اور اسی حالت میں وہ اللہ تعالیٰ کی حسبِ مشیّت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کرتا تھا۔ یہ صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ پیش آئی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة النجم میں فرمایا ہے۔
۶۔ وہ وحی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر معراج کی رات نماز کی فرضیت وغیرہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرمائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں کے اوپر تھے۔
۷۔ فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجاب میں رہ کر براہِ راست گفتگو جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو فرمائی تھی۔ وحی کی یہ صورت موسیٰ علیہ السلام کے لیے نصِّ قرآنی سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا ثبوت ﴿قرآن کی بجائے﴾ معراج کی حدیث میں ہے۔
بعض لوگوں نے ایک آٹھویں شکل کا بھی اضافہ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ رُو در رُو بغیر حجاب کے گفتگو کرے۔ لیکن یہ ایسی صورت ہے جس کے بارے میں سلف سے لے کر خلف تک اختلاف چلا آیا ہے۔ ﴿۱۲﴾
........................
﴿۱۲﴾زاد المعاد ۱۸/۱ پہلی اور آٹھویں صورت کے بیان میں اصل عبارت کے اندر تھوڑی تلخیص کر دی گئی ہے۔

 

Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
میں, نبوت, و, کی

« Previous Thread | Next Thread »

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
انگور کا استعمال بیماریوں سے محفوظ رکھتا ¬ ROSE Health & Care 3 05-28-2013 11:28 PM
~ چلو اک بار ہم تم بھول جائیں تلخیاں ساری ~ Shaam Urdu Writing Poetry 6 08-11-2012 11:21 PM
تمام انبیاء کرام علیھم السلام اور رسولوں   ROSE Quran 7 06-14-2012 11:23 AM
حرفِ تازہ نئی خُوشبو میں لکھا چاہتا ہے ROSE Great Urdu Poets&Poetry 6 08-25-2011 05:43 PM
طلوعِ سحر بھی آج سوچوں میں اس کا خیال لائی ROSE Miscellaneous/Mix Poetry 6 10-05-2010 04:27 AM


All times are GMT +5. The time now is 12:33 AM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG