ریاض الصالحین - Page 5 - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Islam » Quran » ریاض الصالحین
Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!!

Advertisement
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#41)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:55 AM

حدیث نمبر اکیس (21)

عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور یہ (عبداللہ) حضرت کعب کے بیٹے تھے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے جب وہ (کعب) نابینا ہو گئے تھے۔ عبداللہ کہتے ہیں ۔ میں نے کعب کو اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی جہاد کیا میں آپ سے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے اگرچہ میں غزوہ بدر میں بھی پیچھے ر ہا تھا لیکن اس میں پیچھے رہ جانے والے کسی ایک پر بھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام قریش کے ایک قافلے کے تعاقب میں نکلے تھے حتٰی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے دشمنوں کو کسی وعدے کے بغیر ہی ایک دو سرے سے ملا دیا۔ میں عقبہ کی رات (منیٰ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم نے سلام پر عہد وفا باندھا تھا۔ اور میں یہ پسند نہیں کر تا کہ میرے لیے اس (عقبہ کی را ت) کی جگہ بدر کی حاضری ہواگر چہ بدر کا چرچا لوگوں میں اس (عقبہ) سے زیادہ ہے۔ جب میں غزوہ تبوک کے مو قع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہا تھا۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ میں اتنا قوی اور خوش حال کبھی نہیں تھا جتنامیں اس غزوے سے پیچھے رہ جانے کے وقت تھا، اللہ کی قسم! میرے پاس اس سے پہلے کبھی بھی دو سواریاں اکٹھی نہیں تھیں حتیٰ کہ اس غزوہ میں میرے پاس دو سواریاں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو اس میں کسی اور سمت کا توریہ فرماتے تھے (یعنی اصل سمت چھپاتے تھے) حتٰی کہ یہ غزوہ تبوک ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ شدید گرمی میں کیا، سفر دور دراز اور ایسے بیابان کا تھا جہاں پانی بھی کم تھا۔ اور مدمقابل بہت بڑا لشکر تھا، اس لیے آپ نے مسلمانوں کے معاملے کو ان کے سامنے واضح کردیا تاکہ وہ اس کے مطابق خوب تیاری کرلیں ۔ آپ نے سمت کا بھی تعین فرما دیا تھا۔ جہاں آپ جانا چاہتے تھے۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں تھے اور کوئی ایسی کتاب یعنی رجسٹر نہیں تھا جس میں ان کے نام لکھ کر محفوظ کیے ہوتے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں ۔ کہ اگر کوئی آدمی غزوے سے غائب رہتا تو وہ یہی گمان کر تا کہ وہ آپ سے مخفی رہے گا جب تک اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت فرمایا جب پھل پک چکے تھے اور ان کا سایہ بھی خوشگوار تھا اور مجھے یہ چیزیں بڑی مرغوب تھیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاری کی، میں بھی صبح کو آتا تا کہ آپ کے ساتھ تیاری کروں لیکن میں کچھ کیے بغیر ہی واپس چلا جا تا اور اپنے دل میں کہتا: میں اس پر پوری طرح قادر ہوں جب چا ہوں گا تیاری کر لوں گا۔ پس میری یہی صور ت حا ل رہی حتیٰ کہ با قی لوگ اپنی تیاری میں مصروف رہے۔ پس ایک روز ایسا ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان آپ کے ساتھ جہا د کے لئے روا نہ ہوگئے اور میں نے اپنی تیاری کے بارے میں کچھ بھی نہ کیا تھا۔ میں پھر صبح کو آیا اور واپس چلا گیا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر پا یا۔ پس یہ کیفیت دراز ہو تی گئی اور صحابہ کرام تیزی سے آگے بڑھتے گئے اور جہا د کا معاملہ بھی آگے بڑھتا گیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی سفر کا آغاز کردوں گا اور انہیں جاملوں گا، کاش! میں ایسا کرلیتا لیکن یہ میرے مقدر میں نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد جب میں لوگوں کی طرف آتا تو مجھے بس وہی لوگ نظر آتے جو اپنے نفاق کی وجہ سے مطعون تھے۔ یا وہ لوگ نظر آتے جو لوگ ضعیف تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور تھے۔ پس یہ صورت حال مجھے محزون ومغموم کردیتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد نہیں فرمایا حتٰی کہ آپ تبوک پہنچ گئے، آپ تبوک میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپ نے فرمایا: "کعب بن مالک نے کیا کیا؟'' بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! اسکی دو چادروں اور اپنے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے نے اسے روک لیا ہے تو معاذ بن جبل نے اسے جواب دیا تم نے برا کہا، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم نے تو اس میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اتنے میں آپ نے ایک سفید پوش شخص کو ریگستان سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: ''ابو خیشمہ ہو۔'' پس وہ ابو خشمہ انصاری ہی تھے، جنھوں نے ایک صاع کھجور صدقہ کیا تو منافقوں نے انہیں طعنہ دیا تھا۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں : "جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لارہے ہیں تو مجھ پر غم طاری ہونے لگا اور میں جھوٹ کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگا اور میں کہتا کہ میں کل آپ کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا؟ میں نے اس بارے میں اپنے گھر کے ہر عقلمند شخص سے مدد کی درخواست کی۔ اور جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لانے والے ہیں تو تمام باطل خیالا ت مجھ سے زائل ہو گئے حتٰی کہ میں سمجھ گیا کہ میں آپ سے اس طر ح کی کسی چیز کے ذریعے بچ نہیں سکوں گا تو پھر میں نے سچ بولنے کا پختہ ارا دہ کرلیا۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپکا یہ معمول تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جا تے اور وہاں دو رکعتیں ادا فرماتے اور پھر لوگوں کیلئے تشریف رکھتے۔ پس جب آپ نے ایسے کرلیا تو منا فق لوگ آپ کے سامنے عذر پیش کرنے لگے اور حلف اٹھا نے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زائد تھے۔ پس آپ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی، ان کے لیے مغفر ت طلب کی اورانکی اندرونی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا، حتٰی کہ میں بھی حاضر خدمت ہوا۔ جب میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے جس طرح کوئی ناراض آدمی مسکراتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: ''آگے آجاؤ۔ '' میں آگے بڑھا حتٰی کہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ''تجھے کس چیز نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری نہیں خریدلی تھی؟ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اہل دنیا کی مجلس میں ہوتا تو میں کسی عذر کے ذریعے اسکی ناراضی سے بچ نکلتا، کیونکہ مجھے فصاحت و بلاغت کا بڑا ملکہ حاصل ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر میں آج کسی جھوٹی بات کے ذریعے سےآپ کو راضی کر لوں تو ممکن ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (صحیح صورت حال بتا کر) مجھ سے ناراض کردے اور اگر آپ سے سچی بات کردوں تو اس وجہ سے آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے اس میں اللہ تعالیٰ کے اچھے انجام کی امید ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں کبھی اتنا طاقتور اور خوشحال نہیں تھا، جتنا اس وقت تھا، جب میں آپ سے پیچھے رہا۔" وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص نے سچ کہا ہے۔ پس تم یہاں سے کھڑے ہو جاؤ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں فیصلہ فرمادے۔ (میں اٹھ کر چلا گیا تو) بنو سلمہ کے کچھ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئے اور انھوں نے مجھے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں معلوم نہیں کہ آپ نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو، تم اس چیز سے عاجز تھے کہ تم بھی غزوے سے پیچھے رہ جانے والوں کی طرح کوئی عذر پیش کردیتے اور تمہارے گناہ کی معافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ کہ ان لوگوں نے مجھے اس قدر شدید ملامت کی کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دربارہ حاضر ہو کر اپنے پہلے بیان کی تکذیب کردوں ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: کہ میرے جیسا معاملہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں اسی طرح کے معاملہ میں تمہارے ساتھ دو آدمی اور بھی ہیں ، انھوں نے بھی ایسے ہی کہا جیسے تم نے کہا اور انہیں بھی وہی کچھ کہا گیا ہے جو تمہیں کہا گیا ہے۔ میں نے کہا وہ دو کون ہیں ؟ انھوں نے کہا: مرارہ بن ربیع العمری اور ہلال بن امیہ الواقفی۔ انھوں نے میرے سامنے جن دو آدمیوں کا ذکر کیا وہ نیک تھے، دونوں بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان دونوں میں میرے لیے نمونہ تھا، پس جب انھوں نے میرے سامنے ان دونوں کا ذکر کیا تو میں اپنے سا بقہ مو قف پر قا ئم رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پیچھے رہ جانے والوں میں سے خصوصاً ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع کردیا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہم سے کنارہ کش ہو گئے یا یوں فرمایا کہ لوگ ہمارے لیے بیگانے سے ہو گئے حتٰی کہ مجھے تو زمین بھی غیر مانوس سی معلوم ہونے لگی اور میرے لیے یہ زمین بھی وہ نہیں رہی تھی۔ جسے میں پہچانتا تھا۔ پس ہم نے اسی کیفیت میں پچاس راتیں گزاریں ۔ میرے جو دوسرے ساتھی تھے وہ تو ہمت ہار بیٹھے اور گھروں میں بیٹھے روتے رہے جبکہ میں ان سے جوان اور قوی تھا۔ پس میں گھر سے باہر نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو تا، بازار وں میں چکر لگاتا لیکن صورت حال یہ تھی کہ مجھ سے کوئی بھی کلام نہ کرتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو تا جب آپ نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے تو آپ کو سلام کر تا اور اپنے دل میں سوچتا کیا آپ سلام کے جواب میں اپنے مبارک لبوں کوحرکت دیتے ہیں یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھتا اور دُزدیدہ نظر وں سے آپ کو دیکھتا، پس جب میں اپنی نماز میں متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف التفات کرتا تو آپ مجھ سے اعراض فرمالیتے حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی بے رخی میرے ساتھ لمبی ہوتی گئی۔ تو میں ایک روز ابو قتادہ کے با غ کی دیوار پھاند کر اندر چلا گیا، وہ میرے چچا زاد اور تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھے، میں نے انہیں سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انھوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا: "اے ابو قتادہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تم میرے بارے میں نہیں جانتے، کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ؟ وہ خاموش رہا، میں نے دوبارہ قسم دے کر پوچھا تو وہ پھر بھی خاموش رہا 'میں نے تیسری بار پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ پس میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، میں واپس مڑا اور دیوار پھاند کر باہر چلا آیا، میں مدینے کے بازار میں جارہا تھا کہ میں نے اہل شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے کے لیے آیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ کعب بن مالک کے بارے میں مجھے کون بتائے گا؟ لوگ میری طرف اشارہ کرنے لگے، حتیٰ کہ وہ میرے پاس آگیا اور شاہِ غسان کا ایک خط مجھے دیا، میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اور اس لیے اسے فوراً پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا: "امابعد! ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم پر ظلم کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں ذلت اورحق تلفی والے گھر میں رہنے کے لیے نہیں بنایا، پس تم ہمارے پاس آجاؤ، ہم تم سے پوری ہمدردی کریں گے۔ میں نے جس وقت اسے پڑھا تو میں نے کہا یہ ایک اور آزمائش ہے۔ میں نے فو راً اسے تنور میں جھونک کر جلا دیا حتیٰ کہ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور (میرے بارے میں ) کوئی وحی بھی نہ آئی تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد آیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اپنی بیوی سے علیحدگی اختیارکرنے کا حکم فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کر وں ؟ اس نے کہا: نہیں ! بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرلو اور اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے ان دونوں ساتھیوں کو بھی آپ نے یہی پیغام بھجوایا۔ پس میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کافیصلہ فرما دے۔ ہلا ل بن امیہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! ہلال تو بہت بو ڑھا آدمی ہے، اس کا کوئی خادم بھی نہیں ، اگر میں ان کی خدمت کروں تو کیا آپ ناپسند فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں ، لیکن وہ تم سے قربت (جماع) نہ کرے۔'' اسکی بیوی نے کہا: "اللہ کی قسم! اس میں تو کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ اور اللہ کی قسم! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج کے دن تک وہ تو رو رہا ہے۔" پس میرے بعض گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر لو جیسا کہ آپ نے ہلا ل بن امیہ کی بیوی کو انکی خدمت کرنے کی اجازت عطا فرما دی ہے۔ میں نے کہا: میں اس بارے میں رسول اللہ سے اجازت طلب نہیں کروں گا معلوم نہیں جب میں آپ سے اجازت طلب کروں توآپ کیا جواب دیں گے، کیونکہ میں تو نوجوان آدمی ہوں

 

Sponsored Links
(#42)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:55 AM

حدیث نمبر اکیس (21)

عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور یہ (عبداللہ) حضرت کعب کے بیٹے تھے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے جب وہ (کعب) نابینا ہو گئے تھے۔ عبداللہ کہتے ہیں ۔ میں نے کعب کو اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی جہاد کیا میں آپ سے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے اگرچہ میں غزوہ بدر میں بھی پیچھے ر ہا تھا لیکن اس میں پیچھے رہ جانے والے کسی ایک پر بھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام قریش کے ایک قافلے کے تعاقب میں نکلے تھے حتٰی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے دشمنوں کو کسی وعدے کے بغیر ہی ایک دو سرے سے ملا دیا۔ میں عقبہ کی رات (منیٰ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم نے سلام پر عہد وفا باندھا تھا۔ اور میں یہ پسند نہیں کر تا کہ میرے لیے اس (عقبہ کی را ت) کی جگہ بدر کی حاضری ہواگر چہ بدر کا چرچا لوگوں میں اس (عقبہ) سے زیادہ ہے۔ جب میں غزوہ تبوک کے مو قع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہا تھا۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ میں اتنا قوی اور خوش حال کبھی نہیں تھا جتنامیں اس غزوے سے پیچھے رہ جانے کے وقت تھا، اللہ کی قسم! میرے پاس اس سے پہلے کبھی بھی دو سواریاں اکٹھی نہیں تھیں حتیٰ کہ اس غزوہ میں میرے پاس دو سواریاں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو اس میں کسی اور سمت کا توریہ فرماتے تھے (یعنی اصل سمت چھپاتے تھے) حتٰی کہ یہ غزوہ تبوک ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ شدید گرمی میں کیا، سفر دور دراز اور ایسے بیابان کا تھا جہاں پانی بھی کم تھا۔ اور مدمقابل بہت بڑا لشکر تھا، اس لیے آپ نے مسلمانوں کے معاملے کو ان کے سامنے واضح کردیا تاکہ وہ اس کے مطابق خوب تیاری کرلیں ۔ آپ نے سمت کا بھی تعین فرما دیا تھا۔ جہاں آپ جانا چاہتے تھے۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں تھے اور کوئی ایسی کتاب یعنی رجسٹر نہیں تھا جس میں ان کے نام لکھ کر محفوظ کیے ہوتے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں ۔ کہ اگر کوئی آدمی غزوے سے غائب رہتا تو وہ یہی گمان کر تا کہ وہ آپ سے مخفی رہے گا جب تک اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت فرمایا جب پھل پک چکے تھے اور ان کا سایہ بھی خوشگوار تھا اور مجھے یہ چیزیں بڑی مرغوب تھیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاری کی، میں بھی صبح کو آتا تا کہ آپ کے ساتھ تیاری کروں لیکن میں کچھ کیے بغیر ہی واپس چلا جا تا اور اپنے دل میں کہتا: میں اس پر پوری طرح قادر ہوں جب چا ہوں گا تیاری کر لوں گا۔ پس میری یہی صور ت حا ل رہی حتیٰ کہ با قی لوگ اپنی تیاری میں مصروف رہے۔ پس ایک روز ایسا ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان آپ کے ساتھ جہا د کے لئے روا نہ ہوگئے اور میں نے اپنی تیاری کے بارے میں کچھ بھی نہ کیا تھا۔ میں پھر صبح کو آیا اور واپس چلا گیا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر پا یا۔ پس یہ کیفیت دراز ہو تی گئی اور صحابہ کرام تیزی سے آگے بڑھتے گئے اور جہا د کا معاملہ بھی آگے بڑھتا گیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی سفر کا آغاز کردوں گا اور انہیں جاملوں گا، کاش! میں ایسا کرلیتا لیکن یہ میرے مقدر میں نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد جب میں لوگوں کی طرف آتا تو مجھے بس وہی لوگ نظر آتے جو اپنے نفاق کی وجہ سے مطعون تھے۔ یا وہ لوگ نظر آتے جو لوگ ضعیف تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور تھے۔ پس یہ صورت حال مجھے محزون ومغموم کردیتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد نہیں فرمایا حتٰی کہ آپ تبوک پہنچ گئے، آپ تبوک میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپ نے فرمایا: "کعب بن مالک نے کیا کیا؟'' بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! اسکی دو چادروں اور اپنے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے نے اسے روک لیا ہے تو معاذ بن جبل نے اسے جواب دیا تم نے برا کہا، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم نے تو اس میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اتنے میں آپ نے ایک سفید پوش شخص کو ریگستان سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: ''ابو خیشمہ ہو۔'' پس وہ ابو خشمہ انصاری ہی تھے، جنھوں نے ایک صاع کھجور صدقہ کیا تو منافقوں نے انہیں طعنہ دیا تھا۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں : "جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لارہے ہیں تو مجھ پر غم طاری ہونے لگا اور میں جھوٹ کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگا اور میں کہتا کہ میں کل آپ کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا؟ میں نے اس بارے میں اپنے گھر کے ہر عقلمند شخص سے مدد کی درخواست کی۔ اور جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لانے والے ہیں تو تمام باطل خیالا ت مجھ سے زائل ہو گئے حتٰی کہ میں سمجھ گیا کہ میں آپ سے اس طر ح کی کسی چیز کے ذریعے بچ نہیں سکوں گا تو پھر میں نے سچ بولنے کا پختہ ارا دہ کرلیا۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپکا یہ معمول تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جا تے اور وہاں دو رکعتیں ادا فرماتے اور پھر لوگوں کیلئے تشریف رکھتے۔ پس جب آپ نے ایسے کرلیا تو منا فق لوگ آپ کے سامنے عذر پیش کرنے لگے اور حلف اٹھا نے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زائد تھے۔ پس آپ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی، ان کے لیے مغفر ت طلب کی اورانکی اندرونی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا، حتٰی کہ میں بھی حاضر خدمت ہوا۔ جب میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے جس طرح کوئی ناراض آدمی مسکراتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: ''آگے آجاؤ۔ '' میں آگے بڑھا حتٰی کہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ''تجھے کس چیز نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری نہیں خریدلی تھی؟ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اہل دنیا کی مجلس میں ہوتا تو میں کسی عذر کے ذریعے اسکی ناراضی سے بچ نکلتا، کیونکہ مجھے فصاحت و بلاغت کا بڑا ملکہ حاصل ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر میں آج کسی جھوٹی بات کے ذریعے سےآپ کو راضی کر لوں تو ممکن ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (صحیح صورت حال بتا کر) مجھ سے ناراض کردے اور اگر آپ سے سچی بات کردوں تو اس وجہ سے آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے اس میں اللہ تعالیٰ کے اچھے انجام کی امید ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں کبھی اتنا طاقتور اور خوشحال نہیں تھا، جتنا اس وقت تھا، جب میں آپ سے پیچھے رہا۔" وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص نے سچ کہا ہے۔ پس تم یہاں سے کھڑے ہو جاؤ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں فیصلہ فرمادے۔ (میں اٹھ کر چلا گیا تو) بنو سلمہ کے کچھ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئے اور انھوں نے مجھے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں معلوم نہیں کہ آپ نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو، تم اس چیز سے عاجز تھے کہ تم بھی غزوے سے پیچھے رہ جانے والوں کی طرح کوئی عذر پیش کردیتے اور تمہارے گناہ کی معافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ کہ ان لوگوں نے مجھے اس قدر شدید ملامت کی کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دربارہ حاضر ہو کر اپنے پہلے بیان کی تکذیب کردوں ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: کہ میرے جیسا معاملہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں اسی طرح کے معاملہ میں تمہارے ساتھ دو آدمی اور بھی ہیں ، انھوں نے بھی ایسے ہی کہا جیسے تم نے کہا اور انہیں بھی وہی کچھ کہا گیا ہے جو تمہیں کہا گیا ہے۔ میں نے کہا وہ دو کون ہیں ؟ انھوں نے کہا: مرارہ بن ربیع العمری اور ہلال بن امیہ الواقفی۔ انھوں نے میرے سامنے جن دو آدمیوں کا ذکر کیا وہ نیک تھے، دونوں بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان دونوں میں میرے لیے نمونہ تھا، پس جب انھوں نے میرے سامنے ان دونوں کا ذکر کیا تو میں اپنے سا بقہ مو قف پر قا ئم رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پیچھے رہ جانے والوں میں سے خصوصاً ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع کردیا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہم سے کنارہ کش ہو گئے یا یوں فرمایا کہ لوگ ہمارے لیے بیگانے سے ہو گئے حتٰی کہ مجھے تو زمین بھی غیر مانوس سی معلوم ہونے لگی اور میرے لیے یہ زمین بھی وہ نہیں رہی تھی۔ جسے میں پہچانتا تھا۔ پس ہم نے اسی کیفیت میں پچاس راتیں گزاریں ۔ میرے جو دوسرے ساتھی تھے وہ تو ہمت ہار بیٹھے اور گھروں میں بیٹھے روتے رہے جبکہ میں ان سے جوان اور قوی تھا۔ پس میں گھر سے باہر نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو تا، بازار وں میں چکر لگاتا لیکن صورت حال یہ تھی کہ مجھ سے کوئی بھی کلام نہ کرتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو تا جب آپ نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے تو آپ کو سلام کر تا اور اپنے دل میں سوچتا کیا آپ سلام کے جواب میں اپنے مبارک لبوں کوحرکت دیتے ہیں یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھتا اور دُزدیدہ نظر وں سے آپ کو دیکھتا، پس جب میں اپنی نماز میں متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف التفات کرتا تو آپ مجھ سے اعراض فرمالیتے حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی بے رخی میرے ساتھ لمبی ہوتی گئی۔ تو میں ایک روز ابو قتادہ کے با غ کی دیوار پھاند کر اندر چلا گیا، وہ میرے چچا زاد اور تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھے، میں نے انہیں سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انھوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا: "اے ابو قتادہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تم میرے بارے میں نہیں جانتے، کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ؟ وہ خاموش رہا، میں نے دوبارہ قسم دے کر پوچھا تو وہ پھر بھی خاموش رہا 'میں نے تیسری بار پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ پس میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، میں واپس مڑا اور دیوار پھاند کر باہر چلا آیا، میں مدینے کے بازار میں جارہا تھا کہ میں نے اہل شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے کے لیے آیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ کعب بن مالک کے بارے میں مجھے کون بتائے گا؟ لوگ میری طرف اشارہ کرنے لگے، حتیٰ کہ وہ میرے پاس آگیا اور شاہِ غسان کا ایک خط مجھے دیا، میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اور اس لیے اسے فوراً پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا: "امابعد! ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم پر ظلم کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں ذلت اورحق تلفی والے گھر میں رہنے کے لیے نہیں بنایا، پس تم ہمارے پاس آجاؤ، ہم تم سے پوری ہمدردی کریں گے۔ میں نے جس وقت اسے پڑھا تو میں نے کہا یہ ایک اور آزمائش ہے۔ میں نے فو راً اسے تنور میں جھونک کر جلا دیا حتیٰ کہ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور (میرے بارے میں ) کوئی وحی بھی نہ آئی تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد آیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اپنی بیوی سے علیحدگی اختیارکرنے کا حکم فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کر وں ؟ اس نے کہا: نہیں ! بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرلو اور اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے ان دونوں ساتھیوں کو بھی آپ نے یہی پیغام بھجوایا۔ پس میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کافیصلہ فرما دے۔ ہلا ل بن امیہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! ہلال تو بہت بو ڑھا آدمی ہے، اس کا کوئی خادم بھی نہیں ، اگر میں ان کی خدمت کروں تو کیا آپ ناپسند فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں ، لیکن وہ تم سے قربت (جماع) نہ کرے۔'' اسکی بیوی نے کہا: "اللہ کی قسم! اس میں تو کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ اور اللہ کی قسم! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج کے دن تک وہ تو رو رہا ہے۔" پس میرے بعض گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر لو جیسا کہ آپ نے ہلا ل بن امیہ کی بیوی کو انکی خدمت کرنے کی اجازت عطا فرما دی ہے۔ میں نے کہا: میں اس بارے میں رسول اللہ سے اجازت طلب نہیں کروں گا معلوم نہیں جب میں آپ سے اجازت طلب کروں توآپ کیا جواب دیں گے، کیونکہ میں تو نوجوان آدمی ہوں

 

(#43)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:55 AM

پس اس طرح دس راتیں (مزید) گزرگئیں اور جب سے لوگوں کو ہم سے کلام کرنے سے روکا گیا تھا، تب سے اب تک ہماری پچاس راتیں مکمل ہو گئیں پھر میں نے پچاسویں رات کو صبح کے وقت اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز فجر ادا کی، پس ابھی میں اس حال میں بیٹھا تھا جس کا ذکر اللہ نے ہمارے بارے میں فرمایا ہے کہ میرا دل گھٹنے لگا اور زمین فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو چکی تھی۔ کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑی پر چڑھا ہوا بہ واز بلند کہہ رہا تھا: "اے کعب بن ما لک! خو ش ہوجاؤ" میں اسی وقت سجدے میں گر پڑا اور میں سمجھ گیا کہ آزمائش کا وقت ختم ہوگیا اور تکلیف دور ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کو بتایا کہ اللہ عزوجل نے ہماری توبہ قبول فرمالی، پس لوگ ہمیں خوشخبری دینے کیلئے آنا شروع ہوگئے۔ خوشخبری دینے والے میرے ان دو ساتھیوں کی طرف بھی گئے اور ایک شخص تیزی سے گھو ڑا دوڑاتا ہوامیری طرف آیا، اور اسلم قبیلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا میری طرف آیا اور پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا، اسکی آواز گھوڑے سے بھی زیادہ تیز تھی۔ پس جب وہ شخص میرے پاس آیا جس کی زبان سے میں نے خوشخبری سنی تھی تو میں نے خوشخبری سنانے کے بدلے میں اپنے دونوں کپڑے اتارکر اسے پہنا دیے، اللہ کی قسم! اس روز میرے پاس انکے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی، میں نے دوکپڑے اُدھار لیے اور پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا قصد کر کے روانہ ہوا۔ لوگ مجھے جوق در جوق ملے اور میری توبہ کی قبولیت پر مجھے مبارکباد دیتے اور مجھے کہتے مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمالی حتٰی کہ میں مسجد میں داخل ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے، طلحہ بن عبیداللہ جلدی سے لپکے، مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی، اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے علاوہ کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ کعب طلحہ کی اس بات کو کبھی نہیں بھولتے تھے۔ کعب بیان کرتے ہیں ۔ کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا

 

(#44)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:56 AM

اور آپ کا چہرہ مبارک اس وقت خوشی سے دمک رہا تھا: ''تمہیں یہ دن مبارک ہو جو تمہاری زندگی کا بہترین دن ہے، جب سے تمہاری ماں نے تجھے جنم دیا ہے'' میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: '' نہیں ، بلکہ اللہ عزوجل کی طرف سے ہے ''۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بہت زیادہ خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح چمکتا جیسے چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور اس کیفیت سے ہم آپ کی خوشی پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! قبولیت توبہ کی وجہ سے میں چاہتا ہوں ۔ کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کردوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے مال میں سے کچھ اپنے پاس رکھ لے یہ تیرے لیے بہتر ہے۔''میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچائی کی بدولت نجات عطا فرمائی ہے اور یہ بھی میری توبہ کا حصہ ہے کہ (عہد کرتا ہوں ) جب تک زندگی باقی ہے میں ہمیشہ سچ بولوں گا۔ پس اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عہد صدق کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی پر اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کے صلے میں وہ بہتر انعام فرمایا ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا، اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدِ صدق کیا ہے آج تک میں نے جھوٹ نہیں بولا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا۔ (وہ بیان کرتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے (اس موقع پر) یہ آیات نازل فرمائیں :
"یقینا اللہ تعالیٰ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر رجوع فرمایا جنھوں نے تنگی کے وقت میں اس (نبی) کی پیروی کی، بعد اس کے کہ قریب تھا ان میں سے کچھ لوگوں کے دل پھر جائیں ۔ پھر رجوع کیا اللہ تعالیٰ نے ان پر، بے شک وہ بہت شفیق اور نہایت مہربان ہے۔ اور ان تین شخصوں پر بھی رجوع فرمایا۔ جو پیچھے رہ گئے تھے۔ یہاں تک کہ جب ان پر زمین باوجود فراخی کے تنگ ہوگئی اور خود ان کے اپنے نفس بھی ان پر تنگ ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے بچانے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کریں ۔ یقیناً اللہ بہت رجوع کرنے والا نہایت مہربان ہے، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔''
(سورۃ التوبہ آیات : 117،118،119)

 

(#45)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:56 AM

حضرت کعب بیان کرتے ہیں : اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے مجھے جب سے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جتنے بھی انعامات کیے ہیں ان میں سے سب سے بڑا انعام میرے نزدیک یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولا، جھوٹ نہیں بولا، اگر میں بھی جھو ٹ بول دیتا تو میں بھی ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوئے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی تو جس طرح جھوٹ بولنے والوں کا ذکرِ شر کیا ویسے کسی کا بھی نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تم ان کی طرف لوٹ کر آؤ گے تو یہ تمہارے لیے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض کر لو، پس ان سے اعراض فرماؤ یہ پلید ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بسبب اس کے جو یہ کمائی کرتے رہے۔ یہ تمہارے لیے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے را ضی ہو جاؤ پس اگر تم ان سے راضی بھی ہوگئے تو بے شک اللہ تعالیٰ نا فرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوگا۔''
حضرت کعب بیان کرتے ہیں : ہم تینوں ان لوگوں کے معاملے سے مؤخر کردیے گئے تھے جن کی قسموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا تھا، ان سے بیعت لے لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے معاملے کو مؤخر فرمادیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فیصلہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اور ان تین شخصوں پر (بھی رجوع فرمایا) جو پیچھے رہ گئے تھے۔''
(سورۃ التوبہ آیت 118)

 

(#46)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:56 AM

اور یہ جو ہمارے پیچھے رہ جانے کا ذکر ہے، یہ ہمارا غزوے سے پیچھے رہ جانے کے بارے میں نہیں بلکہ یہ تو ہمارے اس معاملے کو ان لوگوں سے مؤخر کرنے کے بارے میں ہے جنھوں نے قسمیں اٹھائیں اور آپ کے سامنے عذر پیش کیے، جنہیں آپ نے قبول فرمالیا تھا۔
(متفق علیہ)

اور ایک دوسر ی روایت میں ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے جمعرات کے روز روانہ ہو ئے تھے اور آپ جمعرات کے روز ہی روانہ ہونا پسند فرماتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ سفر سے چاشت کے وقت واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور پھر وہاں بیٹھ جاتے''۔
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (1138۔116۔ فتح)، و مسلم (2789)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

 

(#47)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:57 AM

حدیث نمبر بائیس (22)

حضرے ابو نجید (نون پر پیش اور جیم پر زبر) عمران بن حصین خزاعی سے روایت ہے کہ جہینہ قبلے کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہ زنا کی وجہ سے حاملہ تھی، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا ہے جس سے حد (سزا) واجب ہوجاتی ہے، لہٰذا آپ اسے مجھ پر قائم فرمادیجیے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو بلایا اور اسے فرمایا: ''اس سے اچھی طرح سلوک کرنا اور جب بچے کو جنم دے لے تو پھر اسے لے آنا''۔ اس نے ایسے ہی کیا (یعنی وہ اسے لے آیا) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اس کے کپڑے اس پر مضبوطی سے باندھ دیے گئے اور آپ کے حکم پر اسے رجم کردیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تو حضرت عمر نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ اس نے تو زنا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''یقیناً اس عورت نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے اہل مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کردیا جائے تو ان کو بھی کافی ہو جا ئے۔ کیا تم نے اس سے بھی کوئی افضل چیز دیکھی ہے کہ اس نے تو اللہ عزوجل کی رضا کے لیے اپنی جان تک قربان کردی؟''

(مسلم)
توثیق الحدیث:اخرجہ مسلم (1696)

 

(#48)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:57 AM

حدیث نمبر تئیس (23)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں ۔ اس کے منہ کو (قبر کی) مٹی ہی بھر ے گی اور اللہ تعالیٰ اس پر رجوع فرماتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے''۔

(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (25311۔فتح)، و مسلم (1049)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

 

(#49)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: ریاض الصالحین - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 04:58 AM

حدیث نمبر چوبیس (24)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ سبحانہ و تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے، ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ (قتل ہو نے والا شخص) اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے۔ اور شہید کردیا جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس (کافر) قاتل پر بھی توجہ فرماتا ہے اور وہ مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتا ہے۔''

(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (396۔فتح)، مسلم (1890)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

 

Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
ریاض

« Previous Thread | Next Thread »

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کی فضیلت ROSE Hadees Shareef 2 07-14-2012 07:14 AM
اولیاء اللہ کون؟ شیخ توصیف الرحمن الراشدی mcitp-it Other's Ulama Bayans 0 05-30-2012 02:46 PM
سیدنا جابر الانصاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت &# ROSE Hadees Shareef 3 02-11-2012 01:57 AM
.............. حضرت ایاس(رضہ) ثعلبہ انصاری .................. ROSE Islamic Issues And Topics 1 09-18-2011 02:01 PM
صحا بی رضی اللہ عنہ کی ٹوٹی پنڈلی حضور صلی ROSE Islamic Issues And Topics 2 06-04-2011 12:05 AM


All times are GMT +5. The time now is 04:32 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG