![]() |
وہ حرف تھا جس نے ہم پر خوشبو کا دریچہ
سکوتِ شام میں گریہ وہ حرف تھا جس نے ہم پر خوشبو کا دریچہ کھول دیا وہ بات بھی تھی جس نے بہتے دریاوں کے میٹھے پانی میں بِس گھول دیا کس حرف کا چہرہ پیلا ہے؟ کس بات کے ہونٹ لرزتے ہیں؟ کس کاغذ نے انکار کیا؟ پیمان سے اب کیا حاصل ہے، سب حرف ہمارے مجرم ہیں اس شام کے ویراں آنگن میں اک عمر کے بعد تم آئی ہو آئی ہو تو ناگفتہ لفظوں کی سب شمعیں جلنے دویونہی زیرِاماں اک عمر کا پیاسا ابر ابھی گونگی دیوار پر برسے گا چپ چاپ ہم اسے ہم دیکھیں گے اختر حسین جعفری |
Re: وہ حرف تھا جس نے ہم پر خوشبو کا دریچہ
nice...
|
Re: وہ حرف تھا جس نے ہم پر خوشبو کا دریچہ
Very Nice
|
Re: وہ حرف تھا جس نے ہم پر خوشبو کا دریچہ
Thanks
|
All times are GMT +5. The time now is 01:59 PM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.