![]() |
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ Poet: Mohsin Naqvi Post By :King Of Hearts |
Re: قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
Very nice sharing
|
Re: قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
Quote:
|
All times are GMT +5. The time now is 11:40 AM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.