![]() |
مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا کہ دنیا کے جھمیلوں پر، یہ دل راضی نہیں ہوتا وہ کب تک روٹھتا رہتا اُسے کب تک مناتے ہم؟ اُسے اِس بار جانا تھا تو ہم نے بھی نہیں روکا ہاں سازِ دل شکستہ ہے، مگر یہ بھی غنیمت ہے سُنا ہے خوابِ جاں ٹوٹے تو کچھ باقی نہیں رہتا تری راہوں پہ چلنے سے، جگر کا خون کرنے سے زمانے نے بہت روکا دلِ وحشی نہیں سمجھا یہ کج بحثی کے جو قصے مری نسبت ہیں ، جھوٹے ہیں مرا قاتل گواہ میں نے گناہ تک بھی نہیں پوچھا اجر صبرِ مسلسل کا یہ آنسو کیوں ڈبودے گا؟ نہیں نکلا جو صدیوں سے تو کیا اب بھی نہیں بہتا؟ سخن ور ایک لمحہ لفظوں کا جادو جگاتا ہے مگر مجھ کو شکایت ہے، مرے دل کی نہیں کہتا |
Re: مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
Buht Khoob
|
Re: مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
thanks
|
Re: مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
Kya baat haill.....
|
Re: مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
وہ کب تک روٹھتا رہتا اُسے کب تک مناتے ہم؟
اُسے اِس بار جانا تھا تو ہم نے بھی نہیں روکا Zaberdast....... |
Re: مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
thanka
|
| All times are GMT +5. The time now is 11:34 PM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.