![]() |
ہم چراغوں سے دھواں مانگتے ہیں
ہجر کی شب کا نشاں مانگتے ہیں ہم چراغوں سے دھواں مانگتے ہیں کس قدر دھوپ ہے صحرا میں کہ لوگ سائیہ ابرِ رواں مانگتے ہیں جب رگِ گُل کو ہَوا چھیڑتی ہے ہم تیرا لطفِ بیاں مانگتے ہیں شہر والے بھی ہیں سادہ کتنے دشت میں رہ کے مکاں مانگتے ہیں تیرا معیارِ سخاوت معلوم! ہم تجھے تجھ سے کہاں مانگتے ہیں؟ دل سے تسکیں کی طلب ہے ہم کو دشمنِ جاں سے اماں مانگتے ہیں منصفِ شہر ہے برہم اس پر لوگ کیوں اذنِ بیاں مانگتے ہیں صحنِ مقتل سے گواہی لے لو! سرکشیدہ ہی سناں مانگتے ہیں آنکھ سے خونِ جگر کی خواہش؟ ہم بھی کیا جنسِ گراں مانگتے ہیں ہم بگولوں سے بھی اکثر محسنؔ رونقِ ہمسفراں مانگتے ہیں ۔ |
Re: ہم چراغوں سے دھواں مانگتے ہیں
Buht Khoob
|
Re: ہم چراغوں سے دھواں مانگتے ہیں
thanks shayan
|
Re: ہم چراغوں سے دھواں مانگتے ہیں
Very nice
|
All times are GMT +5. The time now is 09:02 AM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.