|
|
Posts: 32,565
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender:
|
|
۳۵ قول ثابت(مضبوط قول) سے مراد کلمۂ توحید ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کلمۂ توحید کو قبول کر لیتے ہیں یعنی ایمان لاتے ہیں ان کو ایک مضبوط اساس فراہم ہوتی ہے ۔ اس اساس پر ان کے عقائد میں مضبوطی‘ ان کے خیالات اور ان کے کردار میں استحکام پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس طرح اس کار زارِ حیات میں اللہ تعالیٰ انہیں استحکام اور ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور جب وہ قبر یعنی عالمِ برزخ میں پہنچتے ہیں تو وہاں بھی انہیں استقلال حاصل ہوتا ہے ۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ یہی بات ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے ‘ ے ُثبّتُ اللّٰہ۔۔۔۔۔الخ اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں بھی مضبوطی عطاء فرماتا ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘(بخاری کتاب التفسیر)
اسی طرح قیامت کے دن انہیں موقف کی مضبوطی حاصل ہوگی جس کی بدولت وہ ابدی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے ۔
۳۶ واضح رہے کہ اللہ کاچاہتا اس کی حکمت کے مطابق اور اس کے تمام فیصلے حکیمانہ ہوتے ہیں ۔
۳۷ اشارہ قریش کی طرف ہے جنہیں عرب قوم کی قیادت حاصل تھی اور جنہوں نے مشرکانہ طور طریقے رائج کر کے قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔
|