خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ
شوقِ گمراہی کو ذوقِ جستجو کہتے ہیں لوگ
دیدہ و دانستہ دیتے ہیں نگاہوں کو فریب
پھول کے چاکِ جگر کو رنگ و بُو کہتے ہیں لوگ
ایک ہم کیا، آپ کی چشمِ کرم کی داستاں
در بہ در، قریہ بہ قریہ، کو بکو کہتے ہیں لوگ
زخمِ دل پر ڈال دیتے ہیں مقدر کی نقاب
چاک پیراہن کو اعجازِ رفو کہتے ہیں لوگ
کوئی چپ رہ کر بھی کب محفوظ ہے تنقید سے
میری خاموشی کو بھی اب گفتگو کہتے ہیں لوگ
اس دیارِ اجنبی میں لٹ چکی، مدّت ہوئی
جس کو خوش فہمی سے اب تک آبرو کہتے ہیں لوگ
اس بیانِ حال سے اقبال اب حاصل بھی کیا
چارہ سازی کے عوض لا تقنطو کہتے ہیں لوگ
**<<~*~*~*~>>**
I'M Not Really A BaD InfLuence
But IN YouR CasE I'LL MaKe n EXCETION