MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community - View Single Post - Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema
View Single Post
(#2)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:15 AM

’’ابھی سب سو رہے ہیں۔۔۔۔۔ تم بھی آرام کرو۔ تھکی ہوئی ہو گی۔ اتنی لمبی فلائٹ تھی۔‘‘
ہاں، تھکن تو وہ بے حد محسوس کر رہی تھی۔ جہاز میں بھی باوجود کوشش کے اسے نیند نہیں آ سکی تھی۔
وہ چار سال بعد وطن جا رہی تھی، پتہ نہیں کیسا ہو گا وہاں۔ سب ویسے ہی ہوں گے یا بدل چکے ہوں گے؟۔۔۔۔۔ بوبی اور پنکی تو ذرا بڑے ہو گئے ہوں گے۔ زین کیسا ہو گا، شابی بھابی جیسا یا بھیا جیسا، بوبی تو سارے کا سارا بھیا پر گیا ہے۔
چھوٹی امی کیا اب بھی اتنی ہی سرد مہر ہوں گی یا بدل گئی ہوں گی؟ اب تو خود ان کی بیٹی بڑی ہو گئی ہو گی۔ شاید ان کا دل نرم پڑ گیا ہو۔ وہ نو سال کی تھی جب چھوٹی امی کے ہاں انوشہ پیدا ہوئی تھی اور اب وہ گیارہ سال کی ہو گی۔ اور بدر اس سے ایک سال ہی تو چھوٹا تھا۔ وہ تو دس سال کا ہو گا۔ کتنا کیوٹ سا تھا وہ۔ اور وہ آرب مصطفی، وہ پتہ نہیں ابھی تک ہمارے گھر میں رہتا ہو گا یا چلا گیا ہو گا۔ کس قدر لڑاکا تھا۔ چھوٹی امی کا بھائی جسے وہ اپنے ساتھ ہی لائی تھیں۔ ایک بار شابی بھابی نے اسے بتایا تھا کہ چھوٹی امی نے اسی شرط پر شادی کی ہے ابی سے کہ وہ آرب مصطفی کو ساتھ ہی رکھیں گی۔ کیونکہ ان کے والدین نہیں تھے اور چھوٹی امی ہی اس کے لئے سب کچھ تھیں۔ ابی جان، پتہ نہیں وہ اب بھی اس سے ویسی ہی محبت کرتے ہوں گے جیسے امی جان کی زندگی میں کرتے تھے یا پھر۔۔۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی تو خود کو ماضی کی یادوں سے آزاد نہیں کرا سکی تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ چار سال بعد وطن آ رہی ہے تو سب ہی اسے لینے آئے ہوں گے۔ لیکن صرف بڑے بھیا کو دیکھ کر اسے ازحد مایوسی ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو بے بی؟۔۔۔۔۔۔ ‘‘ بڑے بھیا کے لہجے میں ہمیشہ جیسی نرمی تھی۔ ’’ایاز کیسا ہے؟‘‘
’’ٹھیک۔۔۔۔۔ ہے۔‘‘ اُس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی تھی۔
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ اس نے تو ایک ماہ سے ایاز کو دیکھا تک نہیں تھا۔ ایک ماہ پہلے وہ اسے واشنگٹن سٹی میں نینا عادل کے فلیٹ میں چھوڑ کر ایسا گیا تھا کہ پھر اس سے بات تک نہیں کی تھی۔ اس کا ٹکٹ، اس کی تیاری سب نینا نے ہی کی تھی۔ نینا نے اسے بتایا تھا کہ ایاز نے فون پر اس سے بات کی ہے اور ایسا کرنے کو کہا ہے۔
…٭٭٭…
ایک ماہ پہلے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی کھولتے ہوئے اس نے سوچا تھا، آج کتنی سردی ہے یہاں۔۔۔۔۔ وہاں ماڈل ٹائون کے اس بڑے سارے گھر کے ہر کمرے میں گیس کے ہیٹر جل رہے ہوں گے اور شاید ماڈل ٹائون کی کشادہ سڑکیں کہر میں ڈوبی ہوں گی۔ وہ کتنی ہی یر ماضی میں کھوئی رہی تھی ۔۔۔۔۔ یا پھر سٹنگ روم میں سب بیٹھے مونگ پھلی اور چلغوزے کھا رہے ہوں گے۔ اور شاید کسی نے ایلیا اسفندیار کو یاد بھی نہ کیا ہو۔ ابی جان نے بھی نہیں کہ ان کے پاس انوشہ جو آ گئی ہے اور کیا انوشہ کو پا کر ایلیا اُن کے دل سے اُتر گئی تھی؟
وہ ایلیا اسفندیار جسے وہ اپنی اولادوں میں سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ شاید وہ ان کے دل سے اتر ہی گئی تھی۔ شاید بیٹیاں مائوں کے ہونے سے ہی باپوں کے دلوں میں رہتی ہیں۔ اس کی امی جان بھی تو ایک دن اچانک چلی گئی تھیں۔ رات جب وہ اسے یار کر کے اپنے کمرے میں گئی تھیں تو اچھی بھلی تھیں۔ لیکن صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو چھوٹے بھیانے روتے ہوئے سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے بتایا تھا کہ امی جان کو رات شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔
’’بے بی! تم امی کے لئے دعا کرنا!‘‘
چھوٹے بھیا نے اُسے ناشتہ کروایا تھا۔ حالانکہ اس کا ناشتہ کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن ہر روز کی طرح اس نے ضد نہیں کی تھی اور چپ چاپ ناشتہ کر لیا تھا۔ پھر اسی دوپہر کو امی جان واپس آ گئی تھیں۔۔۔۔۔ خاموش، بند آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ اُس نے کتنا ہی پکارا۔ ہاتھ پکڑ کر، ان کی ناک پر ہاکھ رکھ کر، آنکھوں کو چوم کر۔ لیکن وہ تو بولتی ہی نہیں تھیں۔ بڑے بھیا نے اسے گود میں بھرکر بتایا۔
’’بے بی!ہماری امی جان فوت ہو گئی ہیں اور اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں۔‘‘
’’کیا میں اللہ میاں کے پاس نہیں جا سکتی بھیا؟‘‘
ان دنوں وہ کتنی ضدی ہو گئی تھی۔ ہر وقت روتی اور اللہ میاں کے پاس جانے کی ضد کرتی تھی۔
پھر جس روز اس کی آٹھویں سالگرہ تھی اور بڑے بھیا نے اُسے چاکلیٹ کا پیکٹ گفٹ دیا تھا، اسی روز اسفند یار چھوٹی امی کو لائے تھے۔ اور ان کے ساتھ آرب مصطفی بھی تھا۔ بڑے بھیا کا

 




And Your Lord Never Forget