 |
|
|
Posts: 16,987
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender:
|
|
م عمر ہی ہو گا۔۔۔۔۔ اور پھر ایاز ملک کی دھاڑ اُسے ماڈل ٹائون کے اس بڑے سارے گھر سے باہر لے آئی تھی۔
’’میں نے تمہیں کافی بنانے کو کہا تھا۔‘‘
جب کھڑکی بند کر کے وہ کافی کا کپ لے کر ایاز ملک کے پاس گئی تھی تو ایاز ملک نے گرما گرم کافی کا کپ اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر دے مارا۔ گرم کافی کے چھینٹے اس کے پائوں پر پڑے تھے۔
’’ایلیا اسفندیار! آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کس جرم کی پاداش میں تم مجھ پر مسلط کی گئی ہو۔‘‘
یہ کتنی عجیب بات تھی کہ شادی کے چار سال بعد بھی وہ ایلیا اسفندیار ہی تھی، ایلیا ایاز ملک نہیں۔۔۔۔۔ اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ پچھلے چار سالوں سے وہ بھی یہی ایک بات سوچ رہی تھی کہ آخر کس جرم کی پاداش میں اسے ایاز ملک جیسے شخص کے حوالے کیا گیا تھا۔ اُس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو بڑی نرمل اور بڑی سیدھی سادھی تھی۔ چھوٹی امی کے آنے پر وہ خود ہی اسفند یار سے دور ہو گئی تھی۔ وہ کبھی ان کے قریب نہیں جاتی تھی کہ چھوٹی امی کو برا لگے گا۔ چھپ چھپ کر اپنے ابی جان کو انوشہ سے لاڈ کرتے دیکھتی تھی۔ اُس نے کبھی اسفندیار تو کجا بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کو بھی نہیں بتایا تھا کہ چھوٹی امی کبھی کبھی اُسے کتنی بے دردی سے مارتی ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ تو روزانہ ہی کرتی ہیں۔ پھر اُسے اس آدمی کے حوالے کر کے کس نامعلوم جرم کی سزا دی گئی تھی۔ یہ سزا ہی تو تھی کہ ان چار سالوں میں ایک بار بھی اسفندیار کا فون نہیں آیا تھا۔ باپ، بیٹیوں کو رخصت کر کے یوں بھول تو نہیں جایا کرتے جس طرح ابی جان نے اسے بھلا دیا تھا۔
’’جی چاہتا ہے تمہیں تین حرف کہہ کر اپنی زندگی سے نکال باہر کروں۔ لیکن میرے ڈیڈ۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے دائیں ہاتھ کا مُکا بنا کر ٹیبل پر مارا تھا اور وہاں پڑی کتابیں اور اخبار اٹھا کر نیچے پھینک دیئے تھے۔ وہ اپنے غصے کا اظہار اس طرح ہی کرتا تھا۔ چیزیں پھینک کر اور توڑ کر۔
’’آپ مجھے پاکستان واپس کیوں نہیں بھیج دیتے؟‘‘ چار سالوں کی خاموشی کے بعد اس نے زبان کھولی تھی۔ اور یہ دراصل وہ نہیں، نینا عادل بول رہی تھی۔ نینا عادل جو ایاز ملک کی سگی تایا زاد تھی لیکن اسے ایلیا اسفندیار سے ہمدردی تھی۔
’’ایلی! تم ایاز سے کیوں نہیں کہتیں کہ وہ تمہیں واپس پاکستان بھجوا دے۔‘‘ اُس نے کئی بار کہا تھا اور آج صبح بھی وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’ایلی! اس طرح تو تم مر جائو گی۔ تم ایاز سے کہو۔ یا پھر میں کہتی ہوں۔ میرے خدا! تم چار سال سے اس اذیت میں ہو۔ کاش میں پہلے یہاں آ جاتی۔‘‘ نینا عادل ورجینیا میں تھی اور کوئی سات ماہ پہلے واشنگٹن سٹی آئی تھی۔
’’پاکستان واپس۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے قہقہہ لگایا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔ چار سال سے تم میرے سر پر مسلط ہو، عذاب بنی ہوئی ہو۔ لیکن اس کے لئے تمہیں خود ڈیڈ سے کہنا ہو گا کہ تم پاکستان آنا چاہتی ہو۔‘‘ اس نے اس کی کلائی کو دائیں ہاتھ کی گرفت میں لے کر تقریباً مروڑ ڈالا تھا۔
’’اور تم کہو گی۔۔۔۔۔ تم ڈیڈ سے کہو گی۔۔۔۔۔ آج ہی۔‘‘
اس نے اس کی کلائی چھوڑ کر اسی وقت نمبر ملایا تھا۔ لیکن ڈیڈ سے اس کی بات نہیں ہو سکی۔
اگلی صبح جب وہ ناشتہ بنا رہی تھی تو نہ جانے کس کا فون آیا تھا کہ ایاز ملک نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور فوراً ہی کہیں جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اٹیچی دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کہیں زیادہ دنوں کے لئے جا رہا ہے۔
’’تم اپنے کچھ کپڑے لے لو۔۔۔۔۔ میں ٹیکساس جا رہا ہوں۔ تمہیں نینا آپی کے پاس چھوڑ جائوں گا۔‘‘
پھر اسے نینا عادل کے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
’آپی! اس کی بات ڈیڈ سے کرا دیجئے گا۔ اور اگر وہ کہیں تو پھر پاکستان کے لئے ٹکٹ وغیرہ لے کر اسے پاکستان روانہ کر دیجئے گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔۔ تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’ٹیکساس جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے زیادہ دن لگ جائیں۔ اور ایلیا اپنی فیملی کے لئے اُداس ہو رہی ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔‘‘ نینا عادل کا اچھا بہت معنی خیز تھا۔ ’’اورٹیکساس میں تمہیں کیا کام ہے؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔‘‘ ایاز نے سر کھجایا۔ ’’دراصل میرا فرینڈ بیمار ہے۔ وہاں ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ کچھ دیر پہلے ہی فون آیا تھا۔‘‘
نینا عادل کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ پھر وہ انہیں لائونج میں چھوڑ کر اندر نینا کے بیڈ روم میں چلی آئی تھی۔ نینا عادل جو ایاز ملک کے سگے تایا کی بیٹی تھی، اس سے بے حد مختلف تھی۔ اس نے
And Your Lord Never Forget
|