اور پھر نینا عادل نے ہی اس کی بات انکل آفتاب سے کروائی تھی۔
’’اچھا۔۔۔۔۔ اچھا، تم اُداس ہو۔‘‘ وہ ہنسے تھے۔ ’’تو آ جائو۔ لیکن اُس ناہنجار نے تو کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’نہیں انکل!‘‘اس نے بہ مشکل اپنے آنسو پیئے تھے۔ پتہ نہیں انکل آفتاب ہمیشہ ہی ایاز ملک سے بدگمان کیوں رہتے تھے۔ شاید وہ جانتے تھے۔
ٹھیک ایک ماہ بعد نینا عادل نے اس کے ہاتھ میں پاکستان کا ٹکٹ تھمایا تھا۔
’’دو دن بعد تمہاری فلائٹ ہے۔ میں نے آجی کو بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں آ سکتا۔ تمہیں کچھ خریدنا ہو یا اپنے اپارٹمنٹ سے سامان لانا ہو تو حذیفہ کے ساتھ چلی جانا۔‘‘ اس نے اپنے بڑے بیٹے کا نام لیا تھا۔ ’’میں آج بہت بزی ہوں۔ یہ کمبخت پیسہ دیتے ہیں لیکن کام بھی گدھوں کی طرح لیتے ہیں۔‘‘
لیکن اُسے کیاخریدناتھا بھلا۔ اور پھر اس کے پاس رقم بھی کہاں تھی۔ اور اپنا ضروری سامان تو وہ پہلے ہی جا کر لے آئی تھی۔ چند جوڑے کپڑے ہی تو تھے بس۔ زیور کے نام پر دو چوڑیاں ہاتھوں میں تھیں اور ایک لاکٹ سیٹ تھا جو وہ وہاں سے پہن کر آئی تھی۔
’’آجی سے بات کرو گی۔۔۔۔۔؟‘‘ شام کو جب نینا آفس سے آئی تو اس نے پوچھا تھا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ میں بھلا کیا کروں گی؟‘‘ ان چار سالوں میں بھلا کہاں اس نے خود سے ایاز ملک سے بات کی تھی جو اب کرتی۔
’’ایلی۔۔۔۔۔!‘‘ نینا نے اس کے ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا تھا۔ ’’تم جب پاکستان جائو تو سب کچھ بتا دینا اپنے والدین کو اور اپنی زندگی مزید برباد مت کرنا۔ آجی سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ وہ بچپن سے ہی ایسا ہے۔ ضدی اور اکھڑ سا۔ جس بات پر اڑ جائے، اڑ جاتا ہے۔ ورنہ تم میں کیا نہیں ہے۔ اور نہیں تو اپنی امی کو تو بتا سکتی ہو نا سب کچھ۔‘‘ اُسے خاموش دیکھ کر نینا عادل نے کہا تھا۔
’’میری امی، میری اسٹیپ مدر ہے۔‘‘ اس نے پہلی بار نینا عادل کو بتایا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔ تب ہی تو۔‘‘ نینا عادل نے ہونٹ سکیڑے تھے۔ ’’اتنی کم عمری میں تمہیں اس بندھن میں باندھ دیا گیا۔ سولہ سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے شادی کی۔‘‘
’’اُس روز میں اپنے سکول سے رزلٹ کارڈ لینے گئی تھی اپنی فرینڈ کے ساتھ۔ میرے بہت اچھے نمبر تھے۔ اور بڑے بھیا نے کہا تھا وہ مجھے کنیئرڈ کالج میں داخلہ دلوا دیں گے۔ لیکن جب واپس آئی تو بوا خیرن نے کہا، مجھے ابی جان ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں۔‘‘
اُس روز اس نے پہلی بار نینا عادل کو اپنی شادی کا احوال بتایا تھا۔ نینا دھیان سے سن رہی تھی۔
’’اور جب میں ڈرائنگ روم میں آئی تو وہاں میں نے آفتاب انکل کو بھی ابی جان کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ اس سے پہلے میں نے اپنے ہوش میں صرف دو بار انہیں دیکھا تھا۔ ایک بار بڑے بھیا اور ایک بار چھوٹے بھیا کی شادی پر۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میری امی کی ڈیتھ پر وہ ہمارے گھر میں تین چار دن رہے تھے اپنی مسز کے ساتھ۔ لیکن مجھے کچھ یاد نہیں آیا تھا۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے۔ میں سلام کر کے کچھ دیر یوں ہی کھڑی رہی۔ میرے ہاتھ میں میرا رزلٹ کارڈ تھا۔
’’ادھر بیٹھو، میرے پاس آ کر۔‘‘
میں جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی تھی۔ انہوں نے مجھ سے میرا رزلٹ کارڈ لے کر دیکھا تھا۔ مجھے مبارکباد دی اور پانچ سو روپے دیئے۔ پھر ابی جان کی طرف دیکھا تھا۔
’’بہتر تو تھا اسفند! کہ تم اسے کم از کم انٹر کرنے دیتے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ابی جان کے چہرے پر سختی تھی۔ ’’اگر تمہیں انکار ہے تو پھر میں کل ہی اس کا نکاح پڑھا دیتا ہوں زریاب خان سے۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ میں نے انکار کب کیا ہے؟ تم تیاری کرو۔ آج پیر ہے نا۔ آج سے ٹھیک چھ دن بعد میں اتوار کو بارات لے کر آ رہا ہوں۔ بلکہ تیاری بھی کیا کرنا ہے، اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس۔‘‘
’’تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا آفتاب! بعد میں نہ کہنا دوست نے دھوکا دیا۔ میں نے تمہیں ساری بات بتادی ہے اور زریاب کو انکار نہیں۔ وہ تمہاری بھابی کی بات ٹال نہیں سکتا۔‘‘
میں ہونق سی بیٹھی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ تب انکل آفتاب نے ابی جان سے کہاتھا بلکہ درخواست کی تھی۔
’’اسفند! کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں اپنی بیٹی سے کچھ دیر تنہائی میں بات کر لوں؟‘‘ ابی جان اُٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ تم بات کرو۔ میں تمہاری بھابی کو بتا دوں۔ کہیں وہ چلی ہی نہ گئی ہو۔ آج اُسے پنڈی جانا تھا۔‘‘
And Your Lord Never Forget