MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community - View Single Post - Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema
View Single Post
(#8)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:17 AM

ہے کہ تم پاکستان چلی جائو۔ اپنوں میں۔ آجی میری ہر بات مانتا ہے۔ لیکن تمہارے معاملے میں میری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔‘‘
…٭٭٭…
اُس کی فلائٹ لاہور کی تھی۔
آفتاب انکل نے لاہور فون کر کے فلائٹ نمبر وغیرہ بتا دیا تھا۔
’’کچھ دن اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہ لو۔۔۔۔۔ جب ساہیوال آنا ہو، فون کر دینا، لے جائوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
وہ بڑے بھیا کے ساتھ ایئرپورٹ سے گھر آ گئی تھی۔ اور بڑے بھیا نے اسے کمرے میں چھوڑ دیا تھا۔ فرسٹ فلور کا یہ وہی کمرہ تھا جس میں شادی سے پہلے وہ رہتی تھی۔ لیکن اب کس قدر نامانوس لگ رہا تھا۔ کمرے میں دو دروازے تھے۔ ایک باہر لائونج میں کھلتا تھا اور دوسرا ٹیرس پر۔۔۔۔۔ اس وقت وہ ٹیرس میں رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔ نیچے لان سے بچوں کی ہنسی اور شور کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ اُٹھی اور واپس کمرے میں آ گئی۔ لائٹ جلا کر کمرے کا جائزہ لیا، ایک بیڈ، ایک ٹو سیٹر صوفہ، ایک رائٹنگ ٹیبل اور چیئر۔ نہ ٹیبل پر کچھ کتابیں تھیں اور نہ ہی وارڈروب میں کسی کے کپڑے لٹک رہے تھے۔
’پتہ نہیں میرے بعد اس کمرے میں کون رہ رہا تھا۔‘
اُس نے بیگ کھول کر اپنے کپڑے وارڈروب میں لٹکائے۔ یکایک اُس کے پیٹ میں اینٹھن ہوئی۔ بھوک۔۔۔۔۔ ہاں، اُسے بھوک لگ رہی تھی۔ جہاز میں بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بس چائے اور ایک سلائس لیاتھا۔ اور کیا کسی کو خیال نہیں کہ اسے اس گھر میں آئے بارہ گھنٹے ہو گئے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ تھکی ہوئی تھی اور سو گئی تھی۔ لیکن اب اسے جاگے ہوئے بھی چار پانچ گھنٹے ہو گئے تھے۔
’شاید وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں سو رہی ہوں۔ مجھے خود ہی باہر جانا چاہئے۔ آخر یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔۔ میرے باپ کا گھر۔‘
اس گھر سے ان چار سالوں میں کسی نے اُسے فون نہیں کیا تھا۔ سوائے بڑے بھیا کے۔ اور بڑے بھیا نے بھی کتنی بار فون کیا ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ بار۔ کسی نہ کسی عید پر، پنے دوسرے بچے کی پیدائش پر اور بس۔
اُس نے ایک جوڑا نکالا اور واش روم میں گھس گئی۔ یہ جوڑا اُسے نینا عادل نے دیا تھا آتے ہوئے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی دو تین جوڑے دیئے تھے۔ اس کے کپڑے دیکھ کر انہیں تاسف ہوا تھا۔ وہی پاکستان سے لائے ہوئے ریشمی جوڑے، چند شرٹس اور ایک دو جینز۔
’’یہ اتنی لمبی لمبی قمیضوں کا تو اب فیشن ہی نہیں رہا ایلا جان!۔۔۔۔۔۔ افوہ، آجی نے تمہیں کس جرم کی سزا دی ہے۔‘‘ اُنہیں ایاز پر بہت غصہ تھا۔
’’ایک دفعہ ٹیکساس سے آئے تو۔ میں کان کھینچوں گی اس کے۔‘‘
اور اب کیا فائدہ۔ اب تو وہ جا رہی تھی۔
…٭٭٭…
شاور لے کر گیلے بال یونہی پشت پر کھلے چھوڑکر وہ کمرے سے نکلی۔ لائونج میں کوئی نہیںتھا۔ حالانکہ جب وہ پاکستان سے گئی تھی تو بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کے بیڈ رومزاوپر ہی تھے۔ شاید سب نیچے ہیں۔ کمروں کے بنددروازے دیکھ کر وہ ہولے ہولے سے سیڑھیاں اُترنے لگی۔یہ سیڑھیاں گرائونڈ فلور کے ٹی وی لائونج میں جاتی تھیں۔ نیچے سے ٹی وی کی آواز آ رہی تھی۔ شاید کوئی نیچے بیٹھا ہے۔ شاید ابیجان یا پھر کوئی اور۔ بھابیاں تو باہر لان میں تھیں۔
وہ گھبرائی گھبرائی سی نیچے اُتر رہی تھی۔ سامنے ہی صوفے پر چھوٹی امی بیٹھی تھیں اور ان کے ساتھ شاید انوشہ تھی۔ وہ تھی تو گیارہ سال کی لیکن اپنی عمر سے بڑی لگ رہی تھی۔ جب وہ اس گھر سے گئی تھی تو وہ سات سال کی تھی۔
’’السلام علیکم چھوٹی امی!‘‘

 




And Your Lord Never Forget