جب اس نے بالکل ان کے سامنے آ کر انہیں سلام کیا تو انہوں نے نخوت سے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔
’’آئی ہو تم۔۔۔۔۔ کیسی ہو؟‘‘
’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘
چھوٹی امی کے لہجے میں وہی چار سال پہلے والی سرد مہری تھی۔ لگتا تھا جیسے وہ چار سال بعد نہیں آئی بلکہ ابھی ابھی کہیں گئی ہو اور واپس آ گئی ہو۔
اُس نے انوشہ کی طرف دیکھا۔ اس کا جی چاہا وہ اسے گلے سے لگا لے۔ یہ لڑکی اُس کی بہن تھی۔۔۔۔۔ بہن۔
’’انوشہ۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے ہاتھ آگے بڑھائے تھے۔ لیکن انوشہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں آگے کر دی تھیں۔ کیونکہ اس کے دائیں ہاتھ میں ریموٹ تھا۔
’’ہائے۔۔۔۔۔‘‘ وہ چیونگم چبا رہی تھی۔ اور وہ جواباً کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
’’اور سب لوگ کہاں ہیں؟‘‘ کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔
’’کہاں ہونا ہے؟۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی تو اس وقت اپنے آفس میں ہوں گے۔ آتے ہی ہوں گے۔ اور تمہارے ابی کچھ دیر پہلے آئے ہیں، آرام کر رہے ہیں۔‘‘
اُس کے دل کودھچکا سا لگا۔ کیا ابی جان کا جی نہیں چاہا ہو گا کہ وہ فوراً ہی مجھ سے ملیں۔ وہ کتنا تڑپ رہی تھی انہیں دیکھنے کو۔
’’اور تمہاری بھابیاں معہ بچگان کے باہرلان میں بیٹھی ہوں گی اور چغلیاں کھا رہی ہوں گی۔‘‘
اُس نے دیکھا، انوشہ نے برا سا منہ بنایا تھا۔ انوشہ نے جینز پر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور بال کٹے ہوئے تھے، چھوٹے چھوٹے سے۔ گویا ان چار سالوں میں پاکستان میںلوگ کافی ایڈوانس ہو گئے ہیں اور ابی جان بھی۔ ورنہ وہ تو سکول چادر اوڑھ کر جاتی تھی۔
تب ہی کچن کے دروازے سے خیرن بوا آتی دکھائی دیں۔ وہ بے تابانہ ان کی طرف بڑھی تھی۔
’’میری بچی۔۔۔۔۔!‘‘ خیرن بوا نے اسے گلے سے لگا کر اس کی پیشانی پر چٹ چٹ کئی بوسے دے ڈالے تھے۔ اُسے لگا تھا پہلی بار جیسے وہ اپنوں میں آئی ہے۔ اندر دل جیسے پگھلنے لگا تھا۔
’’کیسی ہیں آپ خیرن بوا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ ان سے الگ ہوئی تو آواز بھرا رہی تھی اور آنکھیں نم تھیں۔
’’بہت سوئیں بیٹا!‘‘ خیرن بوا بھی میلے دوپٹے سے اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھیں۔
’’نہیں بوا! میں تو بہت دیر سے جاگ رہی ہوں۔‘‘
’’لو۔۔۔۔۔ بی بی تو کہہ رہی تھیں، ابھی انوشہ گئی تھی تمہارے کمرے میں۔ سو رہی تھیں تم۔‘‘
’’میں خیرن بوا؟۔۔۔۔۔‘‘ انوشہ نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں تو ابھی کراٹے سینٹر سے آئی ہوں۔ اور میں تو نہیں گئی ایلیا کے کمرے میں۔‘‘
’’بڑی بہن ہے تمہاری۔ باجی کہو۔‘‘ چھوٹی امی نے خوامخواہ اسے ڈانٹا۔
’’لیکن مجھے یادہے اس روز آپ کہہ رہی تھیں کہ ایلیا آ رہی ہے۔ کوئی ضرورت نہیں اسے باجی باجی کہہ کر اس کے پیچھے بھاگنے کی۔‘‘
خیرن بوا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن فوراً ہی انہوں نے منہ پھیر کر ایلیا سے کہا۔
’’ایلی بیٹا! تمہیں تو بھوک لگی ہو گی۔ میں کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔‘‘
’’نہیں بوا!۔۔۔۔۔ کھانا اب رات میں ہی کھائوں گی۔ بس چائے کے ساتھ کچھ دے دیجئے۔‘‘
’’پیٹ میں تو چوہے دوڑ رہے ہوں گے۔‘‘ انوشہ نے اب ریموٹ نیچے رکھ دیا تھا اور دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے ایلیا کا دل جو اس کی طرف سے برا ہوا تھا، اب صاف ہو گیا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ خوامخواہ ہنسی۔ ’’لیکن چائے کے ساتھ کچھ کھا لوں گی تو بھوک کو سہارا مل جائے گا۔ آپ سب چائے پی چکے؟‘‘
’’میرا خیال ہے، چائے پی جا چکی ہے۔‘‘ انوشہ نے جواب دیا۔ ’’کیونکہ جب میں آئی تو بوا ٹیبل سے چائے کے برتن اٹھا رہی تھیں۔‘‘
’’نوشی! تم اُٹھو اب یہاں سے۔۔۔۔۔ تمہارا ٹیوٹر آنے والا ہو گا۔‘‘ چھوٹی امی کی پیشانی پر شکنیں تھیں۔
And Your Lord Never Forget