’’اچھی ہوں۔‘‘
’’کبھی چکر لگایئے نا۔‘‘ انوشہ کی آفر پر وہ یکدم خوش ہو گئی۔
’’ہاں، آئوں گی کسی روز۔ انکل کہہ رہے تھے کہ چھوڑ جائیں گے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے آپ رہنے کے لئے آئیں گی؟‘‘ انوشہ اپنی حیرت چھپا نہیں سکی تھی۔
’’ہاں۔ چند روز کے لئے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسی۔ ’’بے چاری گڑیا کو آپ کا کمرہ خالی کرنا پڑے گا۔ ویسے ایلیا! یہاں آپ کے آنے سے کسی کو خوشی نہیں ہو گی۔‘‘
ورہ خطرناک حد تک سچ بولتی تھی۔ یہ بات وہ جانتی تھی لیکن انوشہ کے منہ سے سن کر ایک لمحہ کو جیسے اسے سکتہ سا ہو گیا تھا۔
’’آپ شاید برا مان گئی ہیں؟‘‘ انوشہ کو اپنے سچ کی تلخی کا احساس ہو گیا تھا۔
’’نہیں، مجھے معلوم ہے۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
’’حالانکہ کم از کم ابی جان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا نا آپ کے آنے پر۔ اور انہیں آپ کو یاد بھی کرنا چاہئے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بھی۔۔۔۔۔‘‘
انوشہ وضاحت کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔
’’لیکن میں نے ایک روز آپ کو یاد کیا تھا۔‘‘ وہ شاید اسے خوش کرنا چاہ رہی تھی۔
’’جھوٹ نہیں انوش!‘‘ اس کے لہجے میں ایک دم ہی اس کے لئے پیار امڈ آیا تھا۔
’’رئیلی ایلیا!۔۔۔۔۔ وہ میری فرینڈ ہے نا مومی۔ اس نے مجھے اپنی آپی سے ملایا تو تب اسروز میں نے آپ کو یاد کیا تھا اور مومی کو بھی بتایا تھا آپ کے متعلق۔‘‘
’’اچھا، تھینکس۔‘‘ وہ اتنی سی بات پر ہی خوش ہو گئی تھی۔
’’اوکے، ممی آ رہی ہیں۔ آپ چکر لگانا۔ لیکن رہنے کے لئے نہیں آنا۔ بے چاری گڑیا۔‘‘ وہ زور سے ہنسی تھی اور اس نے ریسیور رکھ دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی تھی۔ یہ انوشہ بھی کتنے مزے سے سب کو ان کے نام لے کر بلاتی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ وہاں رہتی کچھ دن اور انوشہ سے دوستی کر لیتی۔ اس کی چھوٹی سی، پیاری سی بہن۔
اس روز وہ انوشہ کی باتیں سوچ سوچ کر اس کی اس خطرناک حد تک سچ بولنے والی عادت سے محظوظ ہوتی رہی۔ لیکن چاہنے کے باوجود وہ پھر فون نہیں کر سکی تھی۔ ضروری تو نہیں تھا کہ انوشہ ہی ریسیو کرتی۔ اور پھر چاچی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہو پا رہی تھی۔ واکر کے ساتھ چلنے کی کوشش ناکام رہی تھی۔ چند قدم چلنے سے درد اتنا شدید ہونے لگتا کہ برداشت سے باہر ہو جاتا تھا۔ آپریشن سے پہلے اگرچہ درد شدید ہی تھا لیکن اتنا شدید ہرگز نہیں تھا۔
’’لگتا ہے آپریشن صحیح نہیں ہوا۔‘‘ ایک روز اس نے آفتاب ملک سے کہا۔
’’ہاں، شاید۔‘‘
’’آپ ڈاکٹر سے بات کریں نا۔‘‘
’’ڈاکٹر ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں ایک سیمینار میں شرکت کے لئے۔ میں چاہتا ہوں وہ آ جائیں تو انہی سے چیک کروائوں۔‘‘
’’آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں انکل! آپ مجھے تو بتائیں نا، دوسرے ڈاکٹرز نے کیا کہا ہے؟‘‘ وہ کئی دن سے انہیں پریشان دیکھ رہی تھی۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں۔۔۔۔۔ میں تمہاری چاچی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں پتر!‘‘
’’پھر کیوں پریشان ہیں؟‘‘
’’بیٹھ جائو۔‘‘ انہوں نے ہاتھ میں پکڑی کتاب بیڈ پر رکھ دی تھی اور بغور اسے دیکھا تھا۔ وہ اس روز انہیں چائے دینے گئی تھی۔ چاچی سو رہی تھیں اور وہ بے اختیار ہی پوچھ بیٹھی تھی۔
’’آجی کا فون آیا؟‘‘ اس کے بیٹھتے ہی انہوں نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہاں۔‘‘ اس نے سٹپٹا کر انہیں دیکھا۔
’’ایک بات کہو نا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ان کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس کی نظریں جھک گئیں۔ پتہ نہیں لوگ کتنی آسانی سے اور کیسے اتنے بڑے بڑے جھوٹ بول لیتے ہیں۔
ShareThis
’’کب آیا تھا؟‘‘ انہوں نے جیسے اس کی مشکل آسان کی۔
’’وہ۔۔۔۔۔ دو تین دن ہوئے۔‘‘ اس نے تھوک نگلا۔
’’ایلیا بیٹا!۔۔۔۔۔ ادھر میری طرف دیکھ کر بات کرو۔‘‘
اسے لگا وہ اتنے شفیق، اتنے معزز شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ نہیں بول سکے گی۔ اس کی نظریں نہ اٹھ سکیں اور لب خشک ہو گئے۔
’’ایلیا بیٹا۔۔۔۔۔!‘‘ انہوں نے ایک گہری سانس لی۔ ’’مجھے نینا نے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘
اُس کی آنکھوں میں یکدم پانی بھر آیا اور وہ آنسو روکنے کی کوشش میں نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے بے دردی سے کاٹنے لگی۔ لیکن آفتاب ملک شاید اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔
’’میں۔۔۔۔۔ میں تم سے شرمندہ ہوں بیٹی!‘‘
’’اس طرح مت کہیں پلیز۔ آپ کا کیا قصور؟ شاید میں ہی۔۔۔۔۔‘‘ اس نے تڑپ کر سر اٹھایا اور پھر آنکھوں میں جمع ہونے والا پانی رخساروں پر بہہ آیا۔
’’میں نے سوچا تھا، ایاز نے کبھی میری بات نہیں ٹالی۔‘‘ وہ ہولے ہولے سے بول رہے تھے۔ ’’وہ ضرور میرا مان رکھے گا۔ میں نے اس سے پوچھے بغیر اس کے ساتھ تمہارا رشتہ طے کر دیاتھا۔‘‘
’’آپ کو ان سے پوچھ لینا چاہئے تھا۔‘‘ بے اختیار ہی اس کے لبوں سے نکلا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ عام حالات میں شاید میں ایسا ہی کرتا۔ میں کوئی روایتی قسم کا باپ نہیں تھا کہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرتا۔ میں نے ہمیشہ اس کی ہر خواہش پوری کی۔ میں اسے امریکہ نہیںبھیجنا چاہتا تھا لیکن اس نے کہا، میں نے مان لیا۔ شادی کے معاملے میں بھی میں نے اسے کہہ رکھا تھا کہ وہ جہاں بھی، کسے بھی پسند کرے ہم دونوں اس کی خوشی پر خوش ہوں گے لیکن۔۔۔۔۔‘‘
انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ وہ دم سادھے سن رہی تھی۔ رخساروں تک بہہ آنے والے آنسو خود ہی خشک ہو گئے تھے۔
’’میں جب لاہور گیا اور اسفند یار نے بتایا کہ اس نے تمہارا رشتہ زریاب خان سے طے کر دیا ہے جو کہ تمہاری چھوٹی امی کا خالہ زاد بھائی تھا، جس کی عمر کم از کم ساٹھ سال تھی اور تم صرف سولہ سال کی تو میں ششدر رہ گیا۔
’’یہ ظلم ہے اسفند یار!‘‘ میں حیرت سے باہر آیا تو کہا۔
تم صرف اسفند یار، میرے عزیز دوست کی ہی بیٹی نہ تھیں بلکہ تمہاری امی کو میں نے بہن بنایا تھا اور بہن کی طرح ہی اسے اپنے گھر سے رخصت کیا تھا۔‘‘
ایلیا نے بے حد حیران ہو کر آفتاب ملک کی طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ کیا اس کی امی کے بہن بھائی، والدین کوئی نہیں تھے؟ اسے اپنے ننھیالی رشتوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ ایک بار اس نے اپنے بڑے بھیا سے پوچھا تھا جب ابی جان چھوٹی امی کو بیاہ کر لائے تھے۔ اور ایک روز نہ جانے کس بات پر چھوٹی امی نے اسے مارا تھا۔ تب اس نے سوچا تھا آخر اس کے نانا، نانی، ماموں، خالہ کوئی تو ہو گا۔ چھوٹی امی کی مار کھانے سے بہتر ہے کہ وہ ان کے گھر چلی جائے۔ اور بڑے بھیا نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
’’مجھے تو معلوم نہیں۔ شاید ابی جان کو پتہ ہو۔‘‘
اور ابی جان سے پوچھنے کی وہ ہمت نہیں کر سکی تھی۔ اس نے خود ہی خود دل میں فرض کر لیا تھا کہ اس کی امی جان کے والدین وفات پا چکے ہوں گے اور وہ اکلوتی ہوں گی۔ لیکن آج آفتاب انکل کے منہ سے یہ سن کر کہ انہوں نے اس کی امی کو اپنے گھر سے رخصت کیا تھا وہ بے اختیار پوچھ بیٹھی۔
’’کیا ان کے والدین نہیں تھے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ ایسا ہی تھا۔‘‘ آفتاب ملک اس کی طرف نہیںدیکھ رہے تھے۔
’’اور بہن بھائی؟‘‘
’’کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔ مجھے اُس نے منہ بولا بھائی بنا رکھا تھا۔ وہ روزِ محشر مجھ سے ضرور شکوہ کرتی کہ بھائی میری ایلیا پر ظلم ہو رہا تھا اور تم نے کچھ نہیں کیا۔ تبھی میں نے اسفند سے احتجاج کیا تو اس نے کہا کہ تمہیں ہمدردی ہے ایلیا سے تو تم کر لو اپنے بیٹے سے اس کی شادی۔
’’تو ابی جان نے۔۔۔۔۔‘‘ وہ آفتاب ملک کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ShareThis
’’میں نے آجی سے نہیں پوچھا اور اسفند سے کہہ دیا، ٹھیک ہے۔ میں ایاز کی شادی ایلیا سے کر لیتا ہوں۔ لیکن پہلے کچھ دیر اپنی بیٹی سے بات کر لوں۔۔۔۔۔ اور یوں۔۔۔۔۔ مجھے بہت مان تھا، مجھے یقین تھا آجی میرا مان رکھے گا۔ لیکن خیر۔‘‘ انہوں نے سر جھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’اب تم۔۔۔۔۔‘‘
’’میں۔۔۔۔۔‘‘ وہ چونکی اور اس نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا۔ خشک آنکھیں لمحوں میں سمندر بن گئیں۔ وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھ ان کے پائوں پر رکھے۔
’’انکل! پلیز۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں سے مت بھیجئے گا۔ میں یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں، آپ کے پاس، چاچی کے پاس۔ ہمیشہ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز انکل!‘‘
’’کیا کر رہی ہو ایلیا بچے!‘‘ انہوں نے گھبرا کر اس کے ہاتھ اپنے پائوں سے ہٹائے۔ ’’تم یہاں ہی رہو۔۔۔۔۔ جب تک دل چاہے۔ ہمیشہ ہمارے پاس۔ کس کی جرأت ہے کہ تمہیں یہاں سے نکالے۔ تم مالک ہو اس گھر کی۔ اور یہ گھر میں تمہارے ہی نام کر دوں گا۔ ذرا تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں۔ اور دیکھو، ابھی اپنی چاچی کو کچھ مت بتانا۔ نہیں تو وہ دل پر لے لے گی۔‘‘
انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ وہ روتے ہوئے یکدم ان کے سینے سے جا لگی۔ وہ ہولے ہولے اسے تھپک رہے تھے اور بائیں ہاتھ سے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بھی صاف کر رہے تھے۔
’’اور وہ ایاز۔۔۔۔۔ اُس سے تو میں ابھی بات ہی نہیں کر رہا۔ روز ہی فون کرتا ہے۔ میں بات کئے بغیر بند کر دیتاہوں۔ لیکن تمہاری خاطر میں بات کروں گا اس سے کسی روز کہ اگر اسے ہماری پرواہ ہے تو وہ تمہیں بھی وہی حقوق دے جو اس گوری میم کو دے رہا ہے۔ چلو، شادی کر لی ہے اس نے لیکن تم بھی اس کی بیوی ہو۔ دوسری صورت میں زندگی بھر ہماری شکل نہ دیکھے۔ بلکہ ہمارے جنازے پر بھی نہ آئے۔
’’نہیں انکل!۔۔۔۔۔ پلیز نہیں۔ میں ایسے ہی خوش ہوں۔ آپ کے سائے میں، آپ کے پاس۔ بس اب مجھے خود سے جدا مت کریں اور میرے لئے ایاز سے ناراض نہ ہوں۔ وہ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے۔ چاچی تو ان کے بغیر۔۔۔۔۔ اور پتہ ہے چاچی ان کو اتنا یاد کرتی ہیں۔ اتنی اداس ہیں ان کے لئے۔‘‘
وہ دونوں ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئی ان کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔
’’تم بہت اچھی ہو ایلیا! وہ کمبخت تمہارے جیسی اچھی لڑکی کے قابل نہیں تھا۔ پچھتائے گا۔ بہت پچھتائے گا وہ۔‘‘ وہ ہولے ہولے کہہ رہے تھے۔
’’انکل پلیز! ایسا نہ کہیں۔ میرا اپنا نصیب۔۔۔۔۔ اُن کا کیا قصور؟ وہ تو بہت پہلے سے کیتھی کو پسند کرتے تھے۔ نینا نے مجھے بتایا تھا۔ میں تو زبردستی۔۔۔۔۔‘‘
’’اچھا، اچھا۔‘‘ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس کا سر تھپتھپایا۔ ’’اب رونے والی بات نہیںہو گی۔ یہ چائے تو ٹھنڈی ہو گئی۔ اب اچھی سی چائے بنا کر لائو۔ اپنے لئے بھی لانا۔ دونوں باپ بیٹی بیٹھیں گے اور باتیں کریں گے۔‘‘
’’انکل! آپ مجھے میری امی کے متعلق بتایئے گا۔۔۔۔۔ مجھے آج تک کبھی کسی نے ان کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ اس نے آنکھیں پونچھ لی تھیں۔
’’تمہاری امی بہت اچھی تھیں۔۔۔۔۔ بالکل تمہارے جیسی، سادہ اورمعصوم سی، مخلص، محبت کرنے والی اور بہت خوب صورت۔‘‘
اُس کی آنکھوں سے جھلکتے اشتیاق کو دیکھ کر وہ ہولے سے مسکرائے۔
’’پہلے چائے، باقی باتیں پھر۔‘‘
اور پھر اس روز کے بعد وہ اکثر ہی ان سے کرید کرید کر امی کی باتیں پوچھتی رہتی تھی۔ ان گزرے دنوں میں اس نے ماڈل ٹائون کے گھر میں گزرے شب و روز بھی ان سے شیئر کئے تھے۔
’’اس گھر میں میری جگہ نہیں ہے انکل! وہاں کسی کو میری چاہ نہیں۔ ابی جان کو بھی میرا خیال نہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ اسفند بہت بدل گیا ہے۔ حالانکہ اسے تمہاری امی سے عشق تھا اور تمہارا تو دیوانہ تھا وہ۔ جس روز تم پیدا ہوئی تھیں تو اتناخوش تھا کہ اس نے ٹوکرے بھر کر مٹھائی ہسپتال میں تقسیم کی تھی اور مجھ سے کہتا تھا۔ یار آفتاب! میرے گھر میں پری اُتری ہے۔ میری اور ثمرین کی محبت کی نشانی۔‘‘ آفتاب ملک اُس کا دکھ سمجھتے تھے۔
’’تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں تو پھر تم کالج میں ایڈمیشن لے لینا۔ یہاں کسی پرائیویٹ کالج میں۔ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا۔ تمہاری امی کو اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے کا دکھ تھا۔ وہ تمہیں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کرنا اس کا خواب تھا اور اب یہ خواب تم پورا کرنا۔ بی اے کر لو تو تمہیں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دوں گا۔‘‘
وہ مستقبل کے خواب بُنتے رہتے تھے۔ اس کے دل سے بہت سا بوجھ اتر گیا تھا۔ ہر لمحے جو ایک خوف سا اسے گھیرے رکھتا تھا وہ اس خوف سے نکل آئی تھی۔
And Your Lord Never Forget