محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیر محمد کرم شاہ الازہری کا ایک خطبہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
برادران اسلام! نہ سعدی کی شوخی ، نہ جامی کا سوز ، نہ غزالی کا ذوق و وجداں، نہ خسرو کا دردِ عشق، نہ رومی کی ژرف نگاہی ، نہ اقبال کی ادائے دلبرانہ اور اندازِ قلندرانہ ، یہ سرا پا نقص اور مدحتِ سید الا نبیاء علیہ اطیب التحیتہ والثناء میں زبان کھولے تو کیسے ؟
وادیٔ ایمن کا یہ نخلِ بلند اور اس پر ہو شربا تجلیات کا جھُرمٹ ، یہ بحر کرم اور اس کی بے پناہ فیاضیاں، یہ مہر عالم افروز اوراس کی نور افشاں کرنیں، یہ مرقع حسنِ ازل اور اسکی عالمگیر دلربائیاں ’’ فاطر السمٰوٰت والارض، کا یہ شاہکارِ جمیل جو اپنی شانِ بندگی میں بے مثال اور اپنی شانِ محبوبی میں بے نظیر ۔ جس نے زندگی کو رموزِ زندگی سے آگاہ کیا۔ جس نے انسان کو انسانیت کی خلعت زیبا سے نوازا، ایسے محبوب دلربا کی تعریف اور یہ دل باختہ قلم ! اس جمالِ حقیقی کا بیان اور کج مج زبان ۔ اس پیکر جو دو سخا کی ثنا اور یہ شکستہ دل ، بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔
لیکن اگر اس آئینہ حق نما کی توصیف نہ کریں ، تو کس کی کریں ! اس سراپا زیبائی کا تذکارِ حسن نہ ہو تو کیا ہو؟ اللہ رب العزت کے محبوب بندے کے عشق میں اگر گیت نہ گائیں تو کس کے گائیں۔ اس محسن کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا میں زبان زمزمہ سنج نہ ہو، تو پھرس کا مصرف کیا ہے۔ اگر قلم اس کی مدحت میں نغمہ سرا نہ ہو ، تو آخر وہ کیا کرے ؟ عقل اگر اس کی عظمتوں کو خراجِ عقیدت پیش نہ کرے ، تو کس کی عقیدت کا دم بھرے ۔ دل اگر اس کے عشق کا دیپ روشن نہ کرے اور اس کے درد اور سوز فراق میں نہ جلے تو اس کی ضرورت کیا ہے؟
راز دان طریقت و شریعت حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے ہی سب کے دل کی بات اپنے مخصوص انداز میں کہہ چکے ہیں۔
فَمَن شَائَ فَلیذ کُر جمال بثنیۃٍ
وَمَن شَائَ فَلیغزَ ل بِحُبِّ الزَّیانِب
’’ جس کا جی چاہے وہ بثنیہ کے حسن و جمال کا ذکر کرتا رہے اور جس کا جی چاہے دوسرے محبوبوں کے عشق کے گیت گائے ۔ ‘‘
سَأذ کرُ حُبِّی لِلحَبِیبِ مُحَمَّدٍ
اِذَا وَصَفَ العُشاقُ حُبَّ الحَبائِب
’’دوسرے عشاق اپنے معشوقوں کی توصیف میں رطب اللسان رہا کریں۔ میں تو اپنے حبیب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داستانِ محبت ہی بیان کرتا رہوں گا۔ ‘‘
اب پھر بہار آ رہی ہے ۔عندلیبیں اور قمریاں پھر نواسنج ہونے والی ہیں۔ ربیع الاول کا چاند طلوع ہو رہا ہے۔ کئی حسین یادوں کو تازہ کرے گا۔ ان مبارک لمحوں کا ذکر چھڑے گا جب انسانیت کا بخت خفتہ بیدار ہوا تھا۔ جب مظلوموں کا غمگسار تشریف فرما ہوا تھا۔ جب آمنہ کے کچے کوٹھے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے سمٹ آئے تھے اور ان خزانوں کو باذنِ الٰہی بانٹنے والا بلکہ لٹانے والا بڑی آن بان سے رونق افروز ہوا تھا۔
آئو ! سازِ محبت کو مضرابِ شوق سے چھیڑیں۔