علماء کے خلاف زہر اگلنے والے در حقیقت.......!!!
(تحریر:شکیل رانا)
---------------------
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے جب اس کائنات کو وجود بخشا تو نظام کائنات کی تسخیر کے لیے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا،اس کے بعد حضرت انسان کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سر بسجود ہوجائیں،رب کائنات کا حکم پاکر تمام فرشتے سجدے میں گر گئے،مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے صاف انکارکردیا اور رب لم یزل کے سامنے حجت بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آدم کے سامنے سجدہ کیسے کروں،حالانکہ آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور میری آگ سے،(مطلب آگ تو مٹی سے بہتر ہے، تو ایک بہتر چیز کم تر چیز کے سامنے سر تسلیم خم کرے یہ تو عقل میں آنے والی بات نہیں)چنانچہ رب کے لافانی حکم کے سامنے اپنی عقل فانی کے گھوڑے دوڑانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو تا قیامت اور بعد القیامت تک کے لیے مردود قرار دے کر دنیا میں بهیج دیا،اور اپنے بندوں کے امتحان کے لیے اس کو قیامت تک کے لیے ڈهیل دے دی..
اس کے بعد ماہ و سال کی گردش کے ساتھ انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ جاری رہا،انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے اور شیطان لوگوں کو راہ راست سے بھٹکانے کی کوششوں میں مگن رہا، تا ایں کہ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں کرہ ارض پر نمودار ہوئی،سرکار کی آمد کے ساتھ ہی سلسلہ نبوت پہ مہر لگ گیااور نبوت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوا..
جب امام الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو نبوت والا کام علماء کرام کے حوالہ کر گئے اور اپنی زبان مبارک سے یہ سند جاری فرمائی کہ "علماء انبیاء کے وارث ہیں"،انبیاء کرام کی یہ وراثت صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین سے ہوتے ہوئے موجودہ دور کے علماء تک منتقل ہوئی،اور ہر دور میں شیطان اور اس کے آلہ کار مختلف حجتوں سے اہل علم کے خلاف سر گرم عمل رہے،مگر ان تمام سازشوں کے باوجود علماء کرام کی قربانیوں کی وجہ سے دین آج بهی اصلی صورت میں موجود ہے...
اب گزشتہ تمام تفصیل کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ جس طرح کا رویہ ابلیس شیطان نے انبیاء کرام کے بارے میں رکها،وہی رویہ اس ابلیس کے پیروکار انبیاء کے ورثاء یعنی علماء کرام کے ساتھ برت رہے ہیں،
شیطان نے کہا تها کہ آدم کی تخلیق مٹی سے اور میری آگ سے،تو میں اپنے سے کم تر کو سجدہ کیوں کروں،بالکل اسی طرح جب آج کل کے کچھ نام نہاد اسکالرز اور روشن خیال طبقے کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ دین کے معاملے میں علماء کرام کی بات مان لو تو وہ شیطانی لہجے میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ،ہم ان ملائوں کی بات کیوں مان لیں،حالانکہ ان لوگوں نے پهٹی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھ کر مفت خوری کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی ہے،جب کہ ہم نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے خوبصورت اور شاندار کمروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل ہے.... مولوی صرف مسجد تک محدود ہیں جب کہ ہم نے سات براعظموں پہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں..
اب نتیجہ ظاہر ہے،جن لوگوں نے انبیاء اور ان کے ورثاء کی بات مان لی،ان کے لیے،اعلی علیین،اور جو ابلیس اور اس کے چیلوں کے نقش قدم پر چلے ان کے لیے اسفل سافلین کا ابدی فیصلہ قرآن مجید کے سینے میں 1400سال سے محفوظ ہے..
"فانتظرو انی معلم من المنتظرین"