حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا  - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link|
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Islam » Islamic Issues And Topics » حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا 
Islamic Issues And Topics !!! Post Islamic Issues And Topics Here !!!

Advertisement
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#1)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا  - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:25 PM

حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا





غزوہ خیبر (محرّم سنہ 7ھ) کے چند دن بعد کا ذکر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں ایک اجنبی خاتون حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے محوِ گفتگو تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’ یہ بی بی کون ہیں؟‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’یہ اسماء بنت عمیس زوجہ جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہا ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہاں وہ حبش والی(حبشیہ) وہ سمندر والی (بحریہ)؟‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’ہاں وہی‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شاید(ازراہِ خوش طبعی) فرمایا: ’’ہم نے تم سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، اسلئے ہم تم سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مستحق ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو غصہ آگیا، بولیں: ’’جی ہاں آپ نے بجا فرمایا، لیکن حقیقت حال یہ ہے آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے اور جاہلوں کو تعلیم دیتے تھے، لیکن ہمارا حال یہ تھا کہ ہم حبش کی دور ترین، مغبوض ترین، سرزمین میں غریب الوطنی کی خاک چھان رہے تھے، ہم کو ایذا دی جا رہی تھی، ہم خائف رہتے تھے اور یہ سب کچھ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا جوئی کی خاطر تھا۔ خدا کی قسم جو کچھ آپ نے کہا ہے، جب تک اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کر لوں گی، نہ کھاؤنگی نہ پانی پیونگی۔۔۔۔۔ خدا کی قسم، کسی قسم کا جھوٹ نہ بولوں گی، کج روی نہ اختیار کرونگی اور اس واقعہ یں کوئی اضافہ نہ کرونگی۔‘‘
یہی گفتگو ہو رہی تھی کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، عمر یوں کہتے ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تو تم نے انہیں کیا جواب دیا؟‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بولیں: ’’میں نے انہیں یوں اور یوں کہا۔‘‘

 

Reply With Quote Share on facebook
Sponsored Links
(#2)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:25 PM

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بولیں: ’’میں نے انہیں یوں اور یوں کہا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تم سے زیادہ میرے مستحق نہیں ہیں۔ عمر اور ان کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہے اور تم اہل کشتی کی دو ہجرتیں ہیں۔‘‘ (یعنی ایک مکہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری حبشہ سے مدینہ کی جانب)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اس قدر مسرّت ہوئی کہ ان کی زبان بے اختیار تکبیروتہلیل جاری ہو گئی۔ جب اس گفتگو کو چرچا پھیلا تو مہاجرین جوق در جوق حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس آتے، ان سے اس واقعہ کی تفصیل سنتے اور خوش ہوتے تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں حبشہ کے مہاجروں کیلئے دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے بڑھ کر حوصلہ افزا اور مسرّت انگیز کوئی شے نہ تھی۔
یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جن کی فضیلت کی تصدیق ان کے ذوالہجرتین ہونے کی بنا پر خود سیّد الانام فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، قبیلہ خثعم کی چشم چراغ تھیں اور ان جلیل القدر خواتین میں سے تھیں جنہوں نے دعوت حق کے بالکل ابتدائی زمانے میں سخت نامساعد حالات اور مہیب خطرات سے بے پرواہ ہو کرقبول اسلام کی سعادت حاصل کی تھی۔
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے والد عُمَیس کے سلسلہ نسب کے بارے میں مؤرّخین میں سخت اختلاف ہے۔ کسی نے عُمیس کے والد کا نام معبد بن تمیم لکھا ہے اور کسی نے معد بن حارث،والدہ کا نام بالاتفاق ہند(خولہ) بنت عوف تھا۔ امّ المأمنین حضرت میمونہ بنت حارث بھی ان کے بطن سے تھیَ اس نسبت سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، حضرت میمونہ کی اخیافی بہن تھیں۔
علامہ ابن سعد اور ابن ہشام کا بیان ہے کہ جس زمانے میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سعادت اندوز اسلام ہوئیں، اس وقت صرف تین نفوس شرف اسلام سے بہرہ ور ہوئے تھے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں مقیم نہیں ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو ’’السّابقون الاوّلون‘‘ کی مقدس جماعت میں بھی امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اسکے علاوہ تاریخ اسلام میں ان کو اس بنا پر بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کا نکاح یکے بعد دیگرے تین ایسی عظیم المرتبت ہستیوں سے ہوا جو قصر اسلام کے عظیم الشّان ستون تھیں اور رہبر انسانیت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بیحد محبوب تھیں۔

 

(#3)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:26 PM

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ابن عمّ حضرت جعفر طیّار ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ ان کی شہادت کے بعد دوسرا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ ان کی وفات کے بعد تیسرا نکاح شیر خدا، فاتح خیبر حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور ان کے پہلے شوہر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا زمانہ ایک ہی ہے۔
اوائل سنہ 4 بعد بعثت میں جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ لوگوں کو حق کی طرف بلانا شروع کیا تو مشرکین مکہ فرط غضب سے دیوانے ہو گئے اور انہوں نے دعوت حق قبول کرنے والوں پر بے پناہ ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔ جب یہ مظالم ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو سنہ 5 بعد بعثت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ وہ حبش (ایتھوپیا) کو ہجرت کر جائیں جہاں کا بادشاہ ایک نیک دل اور انصاف پسند عیسائی تھا چنانچہ پہلی بار 11 مردوں اور چار عورتوں کا ایک قافلہ بندرگاہِ شعیبہ سے جہاز میں سوار ہو کر حبش روانہ ہو گیا۔ سنہ 6 بعد بعثت کے آغاز میں 80 سے زیادہ مردوں اور19 خواتین پر مشتمل ایک اور قافلہ مکہ سے نکلا اور حبش کا رخ کیا۔ اس قافلہ میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور کچھ ایسے اصحاب بھی جو پہلی ہجرت کے بعد
حبش سے مکہ آگئے تھے لیکن یہاں کی فضا کو بدستور ناسازگار پا کر دوبارہ ہجرت کرنے پر آمادہ ہو گئے تھےْ قریش مکہ نے ان اصحاب کا سمندر تک تعاقب کیا، لیکن وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کشتیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوچکے تھے۔

 

(#4)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:26 PM

حبش پہنچ کر یہ لوگ امن کی زندگی بسر کرنے لگے لیکن غریب الوطنی آخر غریب الوطنی ہوتی ہے۔ مہاجرین کو طرح طرح کی مصیبتیں پیش آتی تھیں۔(بیماری، تنگدستی وغیرہ)لیکن وہ ان سب کو صبرواستقامت سے برداشت کرتے تھے۔ قریش مکہ کو اتنی دور بیٹھے ہوئے بھی مسلمانوں کا یہ امن چین گوارا نہ تھا۔ انہوں نے نجاشی(شاہ حبشہ)کے پاس ایک وفد تحفے تحائف دے کر اس مقصد کیلئے روانہ کیا کہ وہ بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ملک سے نکال دے۔ اس وفد کی قیادت عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کر رہے تھے جو زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ انہوں نے حبش پہنچ کر نجاشی کے درباریوں کو تحفے تحائف دے کر رام کرلیا اور نے وعدہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے وہ وفد قریش کی حمایت کرینگے۔ اسکے بعد وہ نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تحائف پیش کرکے عرض کیا کہ ہمارے چند سادہ لوح آدمیوں نے ایک نیا مذہب گھڑ لیا ہے جو ہمارے اور آپکے دین کے خلاف ہے۔اس لئے ہماری درخواست ہے کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کیا جائے جو ہمارے پاس سے بھاگ کر آئے ہیں اور اب آپ کے ملک میں گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ بطارقہ اور درباریوں نے وفد قریش کی بھرپور حمایت کی لیکن نجاشی ایک انصاف پسند اور رحم دل بادشاہ تھا، اس نے کہا کہ جب تک میں خود ان لوگوں کو بلا کر تحقیقِ احوال نہ کرلوں، انہیں تمہارے حوالے نہیں کر سکتا چنانچہ اس نے تمام مہاجرین کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔

 

(#5)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:26 PM

دوسرے دن تمام مسلمان نجّاشی کے دربار میں حاضر ہوئے۔ ان سب نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا ترجمان بنایا۔ نجاشی نے ان سے پوچھا: ’’اے لوگو! وہ کون سا مذہب ہے جس کے لیے تم نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ دیا ہے؟‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا:
’’اے بادشاہ ہم سخت جہالت میں مبتلا تھے، بتوں کو پوجتے تھے،مردار کھاتے تھے، اپنی لڑکیاں زندہ دفن کر دیتے تھے، رشتہ داروں اور ہمسایوں کو ستاتے تھے، انسانیت سے عاری تھے، کوئی قاعدہ اور قانون نہ تھا۔ ایسی حالت میں اللہ نے خود ہم میں سے ایک صاحب کو اپنا رسول بنایا جس کے حسب نسب، سچائی، شرافت، دیانتداری اور پاکبازی سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے ہم کو توحید کی دعوت دی۔ سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے، امانت میں خیانت نہ کرنے، بت پرستی ترک کرنے، بدکاری اور فریب سے بچنے، ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، زکواٰۃ دینے کی تعلیم دی۔ہم اس کی تعلیم پر چلے، ایک خدا کی پرستش کی، حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ بیٹھی ہم کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر پھر بت پرستی اور بدکاریوں میں مبتلا کرنا چاہا۔ ہم ان کے ظلم وستم سے تنگ آ کر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔‘‘

 

(#6)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:26 PM

نجاشی یہ تقریر سن کر بہت متاثر ہوا۔ اس نے حضرت جعفر سے کہا: ’’تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس کا کچھ حصہ مجھے سناؤ۔‘‘
حضرت جعفر بڑے نکتہ رس تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ نجاشی اہل کتاب میں سے ہے اور دین عیسوی کا پیرو ہے۔ انہوں نے سورۃ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔ اس کو سن کر نجاشی پر رقّت طاری ہو گئی اور وہ اس قدر رویا کہ اسکی داڑھی تر ہو گئی۔ پھر وہ بےساختہ پکار اٹھا:
’’خدا کی قسم تمہارے نبی کی کتاب اور انجیل مقدس ایک ہی نور کی کرنیں ہیں۔ میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے ہرگز نہ کروں گا۔‘‘
اس کے بعد اس نے قریش کے وفد سے مخاطب ہو کر کہا:
’’واللہ میں ان لوگوں کو کبھی اپنے ملک سے نہیں نکالوں گا اور نہ تمہارے سپردکروں گا۔‘‘
قریش کے وفد نے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ بادشاہ کا دل مسلمانوں سے پھیر دے، چنانچہ دوسرے دن وہ پھر دربار میں گیا اور بادشاہ سے کہا:

 

(#7)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:26 PM

’’اے بادشاہ یہ لوگ آپ کے نبی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے متعلق بہت برا عقیدہ رکھتے ہیں، کیا آپ اس عقیدے کے لوگوں کو پناہ دینگے؟‘‘
نجاشی نے مسلمانوں کو دوبارہ دربار میں طلب کیا اور پوچھا: ’’تمہارا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی نسبت کیا عقیدہ ہے؟‘‘
حضرت جعفر نے جواب دیا: ’’اے بادشاہ ہم عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو خدا کا نبی اور روح اللہ مانتے ہیں۔‘‘
نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا:’’واللہ جو کچھ تم نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں کہا، وہ اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘
غرض قریش کی سفارت بے نیل و مرام واپس ہو گئی۔

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس مجلس میں ہم نے نجاشی کے سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کیا، اسی میں نجاشی نے سوال و جواب کے بعد ہم سے پوچھا:’’کیا میرے ملک میں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دیتا؟‘‘
ہم نے کہا: ’’ہاں یہاں کے لوگ ہمیں ستاتے ہیں۔‘‘
اس پر بادشاہ نے منادی کرادی کہ ’’جو شخص ان لوگوں میں سے کسی کو ستائے گا، اس پر چار درہم جرمانہ کیا جائیگا۔‘‘
پھر نجاشی نے ہم سے دریافت کیا: ’’کیا یہ جرمانہ کافی ہے؟‘‘

 

(#8)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:26 PM

ہم نے کہا نہیں۔ اس پر اس نے جرمانہ دگنا کر دیا۔ (ابن عساکر اور طبرانی)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفارت کے آنے سے پہلے مہاجرین حبشہ بالکل مامون و محفوظ نہیں تھےاور حبش کے لوگ ان کو ستاتے رہتے تھے۔
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، ان کے شوہر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور بہت سے دوسرے مہاجرین حبش میں چودہ برس تک غرین الوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ اس دوران میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور بدر، اُحد، خندق اور خیبر کے معرکے گزر چکے۔ محرم سنہ 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا، تو سارے مسلمان حبش سے مدینہ آ گئے۔ ان میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ خیبر کی فتح سے مسلمان پہلے ہی خوش تھے، اپنے بھائیوں کی آمد سے ان کو دوہری خوشی ہوئی۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو گلے لگایا ان کی پیشانی چومی اور فرمایا:
’’میں نہیں جانتا مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا خیبر کی فتح سے۔‘‘

 

(#9)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:27 PM

اسی زمانے میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے ان کے گھر گئیں جہاں وہ واقعہ پیش آیا جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔ اس وقت بعض صحابہ کا خیال تھا کہ حقیقی مہاجرین اوّلین وہی ہیں ، جنہوں نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمادی کہ جن اصحاب نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، ان کو دو ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا اور اس اعتبار سے مہاجرین مدینہ کو مہاجرین حبشہ پر فضیلت نہیں دی جا سکتی۔ چونکہ یہ وضاحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے استفسار پر فرمائی تھی اسلیے مہاجرینِ حبشہ بار بار ان کے پاس آتے تھے اور یہ حدیث سن کر مسرور ہوتے تھے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نامدار کو مدینہ آئے ہوئے ایک ہی سال گزرا تھا کہ ایک بار پھر ان کی آزمائش کا وقت آ گیا۔

 

(#10)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا& - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-21-2012, 09:27 PM

سنہ 8 ہجری میں شام کے ایک قصبہ موتہ کے رئیس شرجیل بن عمرو غسانی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت حارث بن عمیر ازدی کو شہید کر دیا جو حضور صلی اللہ علیہ وسل کا نامہ مبارک لے کر حاکم بُصریٰ حارث بن شمر غسانی کو پہنچانے جا رہے تھے۔ شرجیل کی یہ حرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کیلئے تین ہزار مجاہدین کا ایک لشکر مُوتہ کی جانب روانہ کیا۔ اس لشکر کہ قیادت حِبّ النّبی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر رہے تھے اور اس میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو رخصت کرتے وقت فرمایا:’’ اگر لڑائی میں زید شہید ہو جائیں تو جعفر امیر ہونگے، اگر جعفر بھی شہادت پا جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ان کی جگہ لیں گے۔‘‘
مؤتہ کے علاقے میں ان دنوں اتفاق سے ہرقل شاہ روم بھی آیا ہوا تھااور بلقا میں مقیم تھا۔ شرجیل نے اس سے مدد مانگی۔ ہرقل نے ایک بھاری لشکر اسکی مدد کیلئے بھیج دیا۔قیس، جذام، لحم وغیرہ کے جنگجو عیسائی قبائل بھی شرجیل کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، اسطرح تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر تھی۔ مؤتہ مدینہ منورہ سے بہت دور تھا اسلیے مزید کمک طلب کرنا ممکن نہ تھا اور پیچھے ہٹنا باعث ننگ، مسلمان اللہ کے بھروسے پر غنیم کے ٹڈی دل سے نبرد آزما ہوئے۔مؤتہ کے میدان میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ امیر لشکت حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور اس جرأت اور پامردی سے لڑے کہ شجاعت بھی آفرین پکار اٹھی۔ تقریباً نوّے زخم اس مردِ حق نے اپنے بدن پر کھائے جن میں کوئی بھی پشت پر نہ تھا۔ ایک ہاتھ قلم ہو گیا تو دوسرے ہاتھ سے علم کو سنبھالا، دوسرا ہاتھ شہید ہوا تو دانتوں میں علم پکڑ لیا۔ دشمن کا ہر طرف سے نرغہ تھا، تیروں اور تلواروں کی بارش ہو رہی تھی۔ آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بازو اور دینِ حق کا یہ سچا علمبردار شہید ہو گیا۔ اب علم حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے سنبھالا، وہ بھی داد شجاعت دے کر شہید ہوئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو للکار کر کہا:

 

Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
اللہ, بنت, تعا , حضرت, رضی

« Previous Thread | Next Thread »

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عظمت ROSE Hadees Shareef 4 07-16-2012 07:02 AM
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عظمت او ROSE Hadees Shareef 5 07-15-2012 09:36 PM
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرت ROSE Hadees Shareef 5 07-08-2012 05:15 PM
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرت ROSE Hadees Shareef 6 02-25-2012 04:41 PM
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ROSE Islamic Issues And Topics 0 02-23-2010 10:51 AM


All times are GMT +5. The time now is 05:46 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG