 |
|
|
Posts: 648
Country:
Join Date: Nov 2014
Gender:
|
|
سندھ کی سیاست کبھی شخصیت پرستی اور عقیدت مندی سے نہیں نکل پاتی، سائیں جی ایم سید ، ذولفقار علی بھٹو ، الطاف حسین ، رسول بخش پلیجو ، اور پیر پگارہ یہ تو وہ شخصیات ہیں جن کو سندھی عوام پوجنے کی حد تک پیار کرتی ہے ، جس طرح مذہبی تعلیمات بچپن سے شروع کردی جاتی ہیں اسی طرح سیاسی تعلیمات اور اپنے لیڈر سے محبت اور وفاداری کا سبق بھی بچپن سے پڑھانا شروع کردیا جاتا، اپنے بچوں کا نام اپنے لیڈر کے نام پر رکھنا ، سائیں سے ملاقات کروانا ، سائیں سے دعا لینا ، سائیں کی خدمات میں دیدینا ، عام سی بات ہے، کوئی اگر کہے کے یہ پرانے وقتوں کی باتیں تھیں ، اب ایسا نہیں ہوتا، اب سندھ تعلیم یافتہ ہے ، تو میں کہنا چاہتا ہوں ، سندھ شروع سے ہی تعلیم یافتہ تھا ، سندھ میں کبھی جہالت آئی ہی نہیں تھی ، ہاں یہ بات الگ ہے کہ جو شخص اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیتا تھا وہ پیسہ کمانے کے لئے جلد سے جلد سندھ سے نکل جانا چاہتا ہے ، پھر اسلام آباد ، امریکہ یا لندن میں بیٹھ کر باتیں بناتا ہے کہ سندھ کبھی سدھر ہی نہیں سکتا ، سندھ کا بھٹو مر کیوں نہیں رہا ، جبکہ سندھی دنیا کے کسی بھی حصّے میں ہو ، کسی بھی پارٹی میں ہو دل سے وہ بھٹو کا ھمددرد ہی ہوتا ہے ، سندھ میں جس گاڑی پر پیر پگارا لکھا ہو اس گاڑی کو مجال ہے کوئی روک لے ، نام کی عزت ہے ،
عمران خان نے تو لانگ مارچ اور دھرنے ابھی شروع کیا لیکن سائیں رسول بخش پلیجو کی سیاست میں لانگ مارچ کا بہت برا کردار رہا ہے ، لوگ آج بھی انکی ایک آواز پر اپنا گھربار چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں، الطاف حسین کے ماننے والے بھی شخصیت پرستی میں ایک مثال ہیں جو پیر صاحب ، بھائی ، رہبر ، رہنما روحانی باپ پہلا اور آخری قائد الطاف حسین ہی کو مانتے ہیں ، یہ لوگ اپنے قائد کے حکم پر جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں، لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ سندھ میں کوئی دوسری قیادت یا پارٹی کیوں جگہ نہیں بنا پاتی ؟ کیوں کہ سندھ میں سیاست دان نہیں چلتا ، سندھ صوفیوں کی سرزآمین ہے ، سندھ میں مسیحا چل سکتے ہیں ، جو سندھی عوام کے ساتھ سیاست کرتا ہے یا تو وہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے یا پھر نواز شریف کی طرح محدود ہوجاتا ہے، سندھ میں بہت سے قوم پرست ٹولے بھی موجود ہیں، ان قوم پرست پارٹیوں میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ، کارکن پکی قوم پرستی پر یقین رکھتے ہوے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے چلے آرہے ہیں ،
لیکن ان سندھی قوم پرست تنظیموں کے قائدین کا پیار پنجابی قوم پرست تنظیم نواز لیگ سے ، اسی لئے نواز شریف ان لوگوں کو ہمیشہ ٹیشو کی طرح استمعال کرتا ہے اور مطلب نکلنے کے بعد پھر بات کرنا ، حال پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتا ، لیکن قوم پرست قائدین کو آج نواز شریف اتنی بیوفائی کے بعد بھی بلائے گا ، تو مجھے یقین ہے یہ پھر پنجاب میں بٹھے ہونگے، ایک وقت تھا جب موجودہ قوم پرستوں کے آباؤاجداد نے یہ قوم پرست تنظیمیں بنائی تھیں تب کیا جلال ہوتی تھی ، کیا دشت ہوتی تھی ، یہاں تک کے سندھ دھرتی کے بیٹوں کے نام سے پاکستان کے فرشتے بھی کانپتے تھے ، لیکن آج سارا نام لالچ کی نظر کردیا گیا ہے، پیپلز پارٹی کی طرح فکشنل لیگ بھی ملک گر جماعت ہوا کرتی تھی ، یہ جماعت سیاسی سے زیادہ روحانی تھی ، لیکن اب یہ بھی سکڑ کر چند شہروں تک محدود ہوگئی ہے ،
ایم کیو ایم نے تو صرف کراچی ، حیدراباد ، میرپورخاص ، نوابشاہ ، اور سکر سے آگے نہ بڑھنے کی قسم کھالی ہے ، باقی شہروں میں بھی ایم کیو ایم موجود ہے لیکن نہ ہونے کے برابر، سائیں جی ایم سید کے پیروکاروں نے اختلافات کی وجہ سے الگ الگ ناموں میں اپنی اپنی تنظیمیں بنالی ہیں ، ایک تنظیم کی رہنمائی سائیں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کررہے ہیں ، رسول بخش پلیجو کی پارٹی بھی دو ٹکرے ہوے اور ایک ٹکڑے کی رہنمائی سائیں رسول بخش پلیجو کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کر رہے ہیں، غنویٰ بھٹو خوف کی وجہ سے کھل کا سیاست نہیں کرتیں اور نہ بچوں کو آگے لاتی ہیں ، سندھ کے لوگ باہر سے آنے والے کی مزبانی تو کرتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے ، ماضی میں کچھ لوٹوں کو خرید کر باہر کے لوگوں نے حکومت بنانے کی کوشش تو کی لیکن چل نہیں سکیں ، اور وہ لوٹے اب بھی وہیں اپنی اپنی خاندانی سیٹوں پر برائے فروخت کی تختی لگا کر بیٹھے ہیں ، اب چاہے کوئی بھی آجاے سندھی سندھ کی پارٹیوں کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں ڈینگی ، چاہے وہ اے این پی ہو ، مسلم لیگ نواز ہو یا ق لیگ ، عمران خان سے کچھ امید بندھی تھی لیکن اس نے سندھ کو نظر انداز کردیا ، عمران صرف کراچی اور لاہور حاصل کرنا چاہتا ہے ، اب بتائیں سندھ میں کوئی پیپلز پارٹی کے علاوہ چل سکتا ہے ، جس کے پاس لاشیں بھی ہیں اور خاندانی وڈیروں کی سیٹیں بھی ، اسکے علاوہ لوگوں کے دل میں مذہب کی طرح آباد ہیں، یہ لوگ پیپلز پارٹی کو اپنا سمجھتے ہیں ، آج ایک سندھی سے پوچھ لیں کہ پیپلز پارٹی کیسی ہے تو وہ گالیاں دیگا لیکن ووٹ پھر بھی پیپلز پارٹی کو ہی دینا ہے ،
آپ آج سندھ میں پیپلز پارٹی کے حق میں لکھ نہیں سکتے ، پیپلز پارٹی کے حق میں بات نہیں کرسکتے ، لوگ گالیاں دینگے آپ کا مزاق بھی بنائیںگے لیکن جب الیکشن ہونگے تو ووٹ پیپلز پارٹی کو ہی دینگے ، وجہ تین ہیں ، ایک پیپلز پارٹی کوئی غیر نہیں اپنی زمین کی پارٹی ہے، ماؤں ، بہنوں بیٹوں کی عقیدت ہے ، بھٹو اور بی بی کی لوگوں سے شفقت ، دوسری وجہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے بڑی کوئی دوسری جماعت نہیں ، تیسری وجہ ، سندھی سمجھتے ہیں سندھ سے باہر کی کوئی بھی پارٹی آگیی تو سندھ کو لوٹ کر کھاجایگی لہذا پیپلز پارٹی کو ہی جیتوادو کم از کم اپنا مارے گا تو دھوپ میں نہیں ڈالے گا .. لوگ کہتے ہیں سندھ پیپلز پارٹی کی غلامی سے کیسے آزاد ہوگا ؟ میرے خیال سے تو کبھی نہیں ، جب تک کوئی سندھ کا بیٹا اچانک سامنے آئے اور لوگوں کے دلوں میں بھٹو کی جگہ لے لے ، لیکن یہ جب تک ممکن نہیں جب تک ، اسٹوڈنٹ اور ورکر سیاست پار قانونی پابندی ہے ، جب تک پابندی نہیں ہٹے گی ، نیا سیاست دان نہیں بنے گا ، جب نیا سیاست دان نہیں بنے گا تو بھٹو زندہ رہے گا۔
قادر غوری
|
Posting Rules
|
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts
HTML code is Off
|
|
|
All times are GMT +5. The time now is 08:19 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.