Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - Page 5 - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link|
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Literature » Urdu Literature » Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema
Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here !

Advertisement
 
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#41)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:33 AM

’ہاں۔‘‘
’’کھانے کے لئے روکنا تھا اسے۔‘‘
’’روکا تھا۔‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’لیکن وہ چلا گیا۔ شاید کوئی کام تھا۔‘‘
ایلیا کے ہاتھ ہی ساکت نہیں ہوئے تھے، ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے اس کا دل بھی ساکت ہو گیا ہو۔ ثمر حیات خان نے بہت گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ملک حیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تو بابا جان! پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’فرید کے متعلق۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔‘‘ وہ ایک ہنکارا بھر کر رہ گئے تو ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! جائو، کھانا لگوائو۔ کھانے کے بعد مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’فرید اچھا لڑکا ہے بابا جان!‘‘ ایلیا کے جاتے ہی ثمر خان نے پھر کہا تو ملک حیات نے سر ہلایا۔
’’ہاں، ہاں۔ یقینا۔ لیکن یار ثمر! مجھے اُس لڑکے کی ایک بات پسند نہیں آئی۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ ثمر نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’وہ لڑکا مسلسل پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں یہ ہے، وہ ہے، گندگی ہے، کرپشن ہے۔ ارے بھئی گندگی ہے، کرپشن ہے تو کس نے دعوت دی تھی کہ تم یہاں آئو۔ وہیں رہو جہاں پہلے رہتے ہو۔‘‘
’’دراصل بابا جان! جو شخص اتنا طویل عرصہ غیر ممالک میں رہا ہو تو اس کے لئے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔‘‘ ثمر خان نے اس کا دفاع کیا۔
’’ہاں، یہ بات بھی ہے۔‘‘ ملک حیات خان کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’’وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں نہیں رہنا۔ شادی کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں کرنی اپنی ایلیا کی شادی ایسے لڑکے سے۔‘‘
’’لیکن بابا جان!۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمر حیات نے کچھ کہنا چاہا تو ملک حیات نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’بلاشبہ لڑکے کی قابلیت، وجاہت اور خاندان میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن تم نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شادی کرے ورنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! کیا خبر، وہاں اس نے بھی ایاز کی طرح کسی سے وعدہ کر رکھا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ ایلیا ایک بار پھر ایسے ہی اذیت ناک تجربے سے گزرے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہے۔‘‘
’’لیکن بابا جان! اس کے متعلق تحقیق کروائی جا سکتی ہے۔‘‘ ثمر حیات خان نے کہا۔
’’نہیں یار! میرا دل نہیں مانتا ایلیا کو اتنا دور بھیجنے کو۔ بس تم سہولت سے منع کر دو عفت کو۔ بلکہ میں خود سمجھا دوں گا۔ اور کوئی پروپوزل ہوا تو اس پر غور کریں گے۔‘‘
ثمر حیات خان خاموش ہو گئے۔
’’ٹھیک ہے بابا جان!‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا۔ ’’دیکھتے ہیں کہیں اور۔ عفت نے ذکر کیا تھا ایک دو لڑکوں کا۔‘‘
بہرحال جو کچھ ملک حیات نے کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا۔ کیا خبر فرید وہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور۔۔۔۔۔ ایلیا کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بہت چھان بین کرنی چاہئے تھی اور بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ تبھی عفت نے آ کر پوچھا۔
’’بابا جان! آپ کھانا اپنے کمرے میں کھائیں گے یا ڈائننگ میں چلیں گے؟‘‘
’’میں ڈائننگ میں ہی چلتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو گئے تو ثمر نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور سہارا دیتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔



ShareThis

٭٭٭…
’’ثمر! یقین کرو، آرب بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘ ملک آفتاب کہہ رہے تھے اور ثمر حیات خان خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے آفتاب! یقینا وہ ساری خوبیاں جو تم نے بتائی ہیں وہ ہوں گی اس لڑکے آرب مصطفی میں۔ اس کے باوجود مجھے ایلیا کے ساتھ اس کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں، صرف اس لئے کہ وہ اسفندیار کا سالا ہے؟۔۔۔۔۔ ثمر! وہ بہت مختلف لڑکا ہے۔ وہ یہاں کراچی میں گھر لے چکا ہے۔ اسے بڑی اچھی جاب مل گئی ہے۔ اس کا اسفندیار۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز آفتاب! تم مجھے ایسی بات پر کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس شخص اسفندیار کا نام بھی سننا نہیں چاہتا چہ جائیکہ میں اس کے ہی کسی رشتے دار کو ایلیا کا رشتہ دوں۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھتا ہوں ثمر! ایلا کا تمہارے ساتھ خونی رشتہ ہے۔ لیکن مجھے بھی وہ کم عزیز نہیں۔ میں صرف یہ جان کر یہاں آیا ہوں کہ ایلا، آرب کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔ وہ اسے بہت خوش رکھے گا ثمر! میں آرب کی بارات لے کر آئوں گا۔۔۔۔۔ یار! تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔ آرب، ایلا کو پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو تم کہو گے۔‘‘
ثمر حیات خان کے چہرے کے نقوش سے یکایک سختی جھلکنے لگی۔
’’کیا ایلیا بھی اسے پسند کرتی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ’’آرب نے ایلیا کی مدد کی، اس حوالے سے وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی ہو گی۔ لیکن جو کچھ تم سوچ رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔‘‘
ثمر حیات خان نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے ہو گئے۔
’’مجھے افسوس ہے آفتاب! کہ میں نے تمہاری بات رد کی۔ کاش، تم کسی اور کے لئے آتے۔ کاش ایاز ایسا نہ کرتا تو میں تمہیں اپنا سمدھی بنا کر بہت خوش ہوتا۔ تمہارے گھر سے بہتر گھر اور کون سا ہوتا ایلیا کے لئے۔ لیکن آرب مصطفی ۔۔۔۔۔۔ نہیں آفتاب! ہرگز نہیں۔‘‘
اور آفتاب ملک کی آمد کا سن کر ان سے ملنے آتی ہوئی ایلیا وہیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے باہر ہی ٹھٹک کر رک گئی۔
’’تم ایک دفعہ بابا جان سے تو بات کرنا ثمر! اور ایک بار سوچنا ضرور۔‘‘ آفتاب ملک کہہ رہے تھے۔
’تو آرب نے انکل کو بھیج ہی دیا۔۔۔۔۔ حالانکہ کتنا منع کیا تھا، کتنا سمجھایا تھا اسے کہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔ یہاں سے ہی پلٹ جائو۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ میں ثمر ماموں اور بابا جان کے فیصلے کی مخالفت کروں گی۔‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو ایلیا!‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ میں تمہارا باقاعدہ پروپوزل بھجوائوں۔ سیانے کہتے ہیں جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ایلا! میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالوں گا کہ کوئی تم سے بد گمان ہو۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خود اپنی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ ایلا، پلیز! مجھے اجازت دو کہ میں انکل آفتاب کو تمہارے بابا جان کے پاس بھیجوں۔‘‘
تب وہ چپ ہو گئی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ میں صبح ہی ساہیوال جا رہا ہوں۔‘‘
آرب نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ پوری رات بے چین رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ کب اور کس موڑ پر آ کر آرب نے اپنی شدتوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جواباً اسے کوئی آس، کوئی امید نہیں دلا سکتی تھی۔ لیکن آرب تھا کہ مایوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے مل کر جانے کے بعد کتنی ہی بار اس نے اس کے سیل فون پر رات کو فون کیا تھا۔
’’جانتی ہو، کراچی میں رہنے اور جاب کرنے کا فیصلہ میں نے تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں میرے دل نے تمہاری محبتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایلا! تم اندازہ نہیں



ShareThis

کر سکتیں کہ میں نے خود کو کتنا روکا کہ پلٹ کر نہ دیکھوں۔ لیکن تمہاری کشش مجھے زیادہ دیر نہیں روک سکی۔‘‘
’’ہاں، میں بابا جان کو بتا دوں گا اس پروپوزل کے متعلق۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جان بھی انکار ہی کریں گے۔‘‘ ثمر حیات خان کے لہجے کے یقین سے ایک لمحے کے لئے اس کا دل جیسے نیچے کہیں پاتال میں گر گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے شعوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔
’یہ تو طے ہے کہ بابا جان اور ثمر ماموں، آرب مصطفی کا پروپوزل قبول نہیں کریں گے اور میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر۔۔۔۔۔‘ اس نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔ آفتاب ملک اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیسی ہو بیٹا؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ چاچی کو کیوں نہیں لائے؟ میں اتنی اُداس ہو رہی تھی ان کے لئے۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے لئے بہت اُداس ہے۔ لیکن اسے جوڑوں کے درد شروع ہو گئے ہیں۔ ان دنوں طبیعت خراب تھی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اب ایسے بھی بوڑھے نہیں ہوئے آپ اور چاچی۔ ثمر ماموں کو دیکھیں، کتنے ینگ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تو ینگ ہے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہم کلاس فیلو ضرور تھے، لیکن ہم عمر نہیں تھے۔ نکمّے، بگڑے ہوئے چودھری تھے۔ ذرا بڑی عمر میں پڑھائی شروع کی تھی۔‘‘
’’آپ رہیں گے نا یہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔۔‘‘
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟‘‘ ایلیا کو حیرت ہوئی۔ ’’اتنے دنوں بعد آئے ہیں اور صرف ایک دن؟‘‘
’’بس بیٹا! تمہاری چاچی بھی تو اکیلی ہیں نا وہاں۔‘‘
ایلیا خاموش رہ گئی تھی۔
کاش ایاز نے جلد بازی نہ کی ہوتی تو یہ ہیرا لڑکی ان کے گھر کا چراغ ہوتی۔ کبھی کبھی ایلیا کو سامنے دیکھ کر دکھ یوں ہی دل میں پنجے گاڑ لیتا تھا۔ ایلیا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ اب بھی انہیں اتنی ہی عزیز تھی۔ دونوں میاں بیوی کا زیادہ وقت اسی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ اور جب سے نینا عادل نے بتایا تھا کہ ایاز اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑے رہنے لگے ہیں تب سے تو احساسِ زیاں اور بھی بڑھ گیا تھا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے انکل؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’تمہارے بابا جان جاگ گئے ہیں تو انہیں سلام کر لوں۔‘‘
’’جی، وہ تو کب کے جاگے ہوئے ہیں۔‘‘ ایلیا نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’چلو ثمر! بابا جان کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ثمر حیات خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ان کے ساتھ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ ایلیا وہیں بیٹھی رہی۔
’کیا ضروری تھا کہ میرا دل آرب مصطفی کی چاہ کرتا جس کا ساتھ مقدر میں میں نہیں۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
’’ایلا! دیکھو، انکل میرا پروپوزل لے کر آئیں گے۔ اور اگر تمہاری رائے پوچھی گئی تو تم میرے حق میں رائے دینا پلیز۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں آرب مصطفی! آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ میں نے ہر فیصلے کا اختیار ثمر ماموں اور بابا جان کو دے دیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘‘
’’آرب! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھول جائیں مجھے اور زندگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم بھول سکتی ہو تو بھول جانا ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘ آرب نے حتمی لہجے میں کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’اب ثمر ماموں نے صاف انکار کر دیا ہے اور بابا جان۔۔۔۔۔ یقینا بابا جان بھی۔‘ اُس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ درد۔۔۔۔۔۔۔ بے پناہ درد نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔

 




And Your Lord Never Forget
Sponsored Links
(#42)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:57 AM


’’ہاں۔‘‘
’’کھانے کے لئے روکنا تھا اسے۔‘‘
’’روکا تھا۔‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’لیکن وہ چلا گیا۔ شاید کوئی کام تھا۔‘‘
ایلیا کے ہاتھ ہی ساکت نہیں ہوئے تھے، ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے اس کا دل بھی ساکت ہو گیا ہو۔ ثمر حیات خان نے بہت گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ملک حیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تو بابا جان! پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’فرید کے متعلق۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔‘‘ وہ ایک ہنکارا بھر کر رہ گئے تو ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! جائو، کھانا لگوائو۔ کھانے کے بعد مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’فرید اچھا لڑکا ہے بابا جان!‘‘ ایلیا کے جاتے ہی ثمر خان نے پھر کہا تو ملک حیات نے سر ہلایا۔
’’ہاں، ہاں۔ یقینا۔ لیکن یار ثمر! مجھے اُس لڑکے کی ایک بات پسند نہیں آئی۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ ثمر نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’وہ لڑکا مسلسل پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں یہ ہے، وہ ہے، گندگی ہے، کرپشن ہے۔ ارے بھئی گندگی ہے، کرپشن ہے تو کس نے دعوت دی تھی کہ تم یہاں آئو۔ وہیں رہو جہاں پہلے رہتے ہو۔‘‘
’’دراصل بابا جان! جو شخص اتنا طویل عرصہ غیر ممالک میں رہا ہو تو اس کے لئے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔‘‘ ثمر خان نے اس کا دفاع کیا۔
’’ہاں، یہ بات بھی ہے۔‘‘ ملک حیات خان کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’’وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں نہیں رہنا۔ شادی کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں کرنی اپنی ایلیا کی شادی ایسے لڑکے سے۔‘‘
’’لیکن بابا جان!۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمر حیات نے کچھ کہنا چاہا تو ملک حیات نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’بلاشبہ لڑکے کی قابلیت، وجاہت اور خاندان میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن تم نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شادی کرے ورنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! کیا خبر، وہاں اس نے بھی ایاز کی طرح کسی سے وعدہ کر رکھا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ ایلیا ایک بار پھر ایسے ہی اذیت ناک تجربے سے گزرے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہے۔‘‘
’’لیکن بابا جان! اس کے متعلق تحقیق کروائی جا سکتی ہے۔‘‘ ثمر حیات خان نے کہا۔
’’نہیں یار! میرا دل نہیں مانتا ایلیا کو اتنا دور بھیجنے کو۔ بس تم سہولت سے منع کر دو عفت کو۔ بلکہ میں خود سمجھا دوں گا۔ اور کوئی پروپوزل ہوا تو اس پر غور کریں گے۔‘‘
ثمر حیات خان خاموش ہو گئے۔
’’ٹھیک ہے بابا جان!‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا۔ ’’دیکھتے ہیں کہیں اور۔ عفت نے ذکر کیا تھا ایک دو لڑکوں کا۔‘‘
بہرحال جو کچھ ملک حیات نے کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا۔ کیا خبر فرید وہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور۔۔۔۔۔ ایلیا کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بہت چھان بین کرنی چاہئے تھی اور بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ تبھی عفت نے آ کر پوچھا۔
’’بابا جان! آپ کھانا اپنے کمرے میں کھائیں گے یا ڈائننگ میں چلیں گے؟‘‘
’’میں ڈائننگ میں ہی چلتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو گئے تو ثمر نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور سہارا دیتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔



ShareThis

٭٭٭…
’’ثمر! یقین کرو، آرب بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘ ملک آفتاب کہہ رہے تھے اور ثمر حیات خان خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے آفتاب! یقینا وہ ساری خوبیاں جو تم نے بتائی ہیں وہ ہوں گی اس لڑکے آرب مصطفی میں۔ اس کے باوجود مجھے ایلیا کے ساتھ اس کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں، صرف اس لئے کہ وہ اسفندیار کا سالا ہے؟۔۔۔۔۔ ثمر! وہ بہت مختلف لڑکا ہے۔ وہ یہاں کراچی میں گھر لے چکا ہے۔ اسے بڑی اچھی جاب مل گئی ہے۔ اس کا اسفندیار۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز آفتاب! تم مجھے ایسی بات پر کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس شخص اسفندیار کا نام بھی سننا نہیں چاہتا چہ جائیکہ میں اس کے ہی کسی رشتے دار کو ایلیا کا رشتہ دوں۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھتا ہوں ثمر! ایلا کا تمہارے ساتھ خونی رشتہ ہے۔ لیکن مجھے بھی وہ کم عزیز نہیں۔ میں صرف یہ جان کر یہاں آیا ہوں کہ ایلا، آرب کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔ وہ اسے بہت خوش رکھے گا ثمر! میں آرب کی بارات لے کر آئوں گا۔۔۔۔۔ یار! تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔ آرب، ایلا کو پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو تم کہو گے۔‘‘
ثمر حیات خان کے چہرے کے نقوش سے یکایک سختی جھلکنے لگی۔
’’کیا ایلیا بھی اسے پسند کرتی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ’’آرب نے ایلیا کی مدد کی، اس حوالے سے وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی ہو گی۔ لیکن جو کچھ تم سوچ رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔‘‘
ثمر حیات خان نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے ہو گئے۔
’’مجھے افسوس ہے آفتاب! کہ میں نے تمہاری بات رد کی۔ کاش، تم کسی اور کے لئے آتے۔ کاش ایاز ایسا نہ کرتا تو میں تمہیں اپنا سمدھی بنا کر بہت خوش ہوتا۔ تمہارے گھر سے بہتر گھر اور کون سا ہوتا ایلیا کے لئے۔ لیکن آرب مصطفی ۔۔۔۔۔۔ نہیں آفتاب! ہرگز نہیں۔‘‘
اور آفتاب ملک کی آمد کا سن کر ان سے ملنے آتی ہوئی ایلیا وہیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے باہر ہی ٹھٹک کر رک گئی۔
’’تم ایک دفعہ بابا جان سے تو بات کرنا ثمر! اور ایک بار سوچنا ضرور۔‘‘ آفتاب ملک کہہ رہے تھے۔
’تو آرب نے انکل کو بھیج ہی دیا۔۔۔۔۔ حالانکہ کتنا منع کیا تھا، کتنا سمجھایا تھا اسے کہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔ یہاں سے ہی پلٹ جائو۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ میں ثمر ماموں اور بابا جان کے فیصلے کی مخالفت کروں گی۔‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو ایلیا!‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ میں تمہارا باقاعدہ پروپوزل بھجوائوں۔ سیانے کہتے ہیں جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ایلا! میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالوں گا کہ کوئی تم سے بد گمان ہو۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خود اپنی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ ایلا، پلیز! مجھے اجازت دو کہ میں انکل آفتاب کو تمہارے بابا جان کے پاس بھیجوں۔‘‘
تب وہ چپ ہو گئی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ میں صبح ہی ساہیوال جا رہا ہوں۔‘‘
آرب نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ پوری رات بے چین رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ کب اور کس موڑ پر آ کر آرب نے اپنی شدتوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جواباً اسے کوئی آس، کوئی امید نہیں دلا سکتی تھی۔ لیکن آرب تھا کہ مایوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے مل کر جانے کے بعد کتنی ہی بار اس نے اس کے سیل فون پر رات کو فون کیا تھا۔
’’جانتی ہو، کراچی میں رہنے اور جاب کرنے کا فیصلہ میں نے تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں میرے دل نے تمہاری محبتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایلا! تم اندازہ نہیں



ShareThis

کر سکتیں کہ میں نے خود کو کتنا روکا کہ پلٹ کر نہ دیکھوں۔ لیکن تمہاری کشش مجھے زیادہ دیر نہیں روک سکی۔‘‘
’’ہاں، میں بابا جان کو بتا دوں گا اس پروپوزل کے متعلق۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جان بھی انکار ہی کریں گے۔‘‘ ثمر حیات خان کے لہجے کے یقین سے ایک لمحے کے لئے اس کا دل جیسے نیچے کہیں پاتال میں گر گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے شعوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔
’یہ تو طے ہے کہ بابا جان اور ثمر ماموں، آرب مصطفی کا پروپوزل قبول نہیں کریں گے اور میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر۔۔۔۔۔‘ اس نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔ آفتاب ملک اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیسی ہو بیٹا؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ چاچی کو کیوں نہیں لائے؟ میں اتنی اُداس ہو رہی تھی ان کے لئے۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے لئے بہت اُداس ہے۔ لیکن اسے جوڑوں کے درد شروع ہو گئے ہیں۔ ان دنوں طبیعت خراب تھی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اب ایسے بھی بوڑھے نہیں ہوئے آپ اور چاچی۔ ثمر ماموں کو دیکھیں، کتنے ینگ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تو ینگ ہے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہم کلاس فیلو ضرور تھے، لیکن ہم عمر نہیں تھے۔ نکمّے، بگڑے ہوئے چودھری تھے۔ ذرا بڑی عمر میں پڑھائی شروع کی تھی۔‘‘
’’آپ رہیں گے نا یہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔۔‘‘
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟‘‘ ایلیا کو حیرت ہوئی۔ ’’اتنے دنوں بعد آئے ہیں اور صرف ایک دن؟‘‘
’’بس بیٹا! تمہاری چاچی بھی تو اکیلی ہیں نا وہاں۔‘‘
ایلیا خاموش رہ گئی تھی۔
کاش ایاز نے جلد بازی نہ کی ہوتی تو یہ ہیرا لڑکی ان کے گھر کا چراغ ہوتی۔ کبھی کبھی ایلیا کو سامنے دیکھ کر دکھ یوں ہی دل میں پنجے گاڑ لیتا تھا۔ ایلیا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ اب بھی انہیں اتنی ہی عزیز تھی۔ دونوں میاں بیوی کا زیادہ وقت اسی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ اور جب سے نینا عادل نے بتایا تھا کہ ایاز اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑے رہنے لگے ہیں تب سے تو احساسِ زیاں اور بھی بڑھ گیا تھا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے انکل؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’تمہارے بابا جان جاگ گئے ہیں تو انہیں سلام کر لوں۔‘‘
’’جی، وہ تو کب کے جاگے ہوئے ہیں۔‘‘ ایلیا نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’چلو ثمر! بابا جان کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ثمر حیات خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ان کے ساتھ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ ایلیا وہیں بیٹھی رہی۔
’کیا ضروری تھا کہ میرا دل آرب مصطفی کی چاہ کرتا جس کا ساتھ مقدر میں میں نہیں۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
’’ایلا! دیکھو، انکل میرا پروپوزل لے کر آئیں گے۔ اور اگر تمہاری رائے پوچھی گئی تو تم میرے حق میں رائے دینا پلیز۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں آرب مصطفی! آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ میں نے ہر فیصلے کا اختیار ثمر ماموں اور بابا جان کو دے دیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘‘
’’آرب! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھول جائیں مجھے اور زندگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم بھول سکتی ہو تو بھول جانا ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘ آرب نے حتمی لہجے میں کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’اب ثمر ماموں نے صاف انکار کر دیا ہے اور بابا جان۔۔۔۔۔ یقینا بابا جان بھی۔‘ اُس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ درد۔۔۔۔۔۔۔ بے پناہ درد نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔

 




And Your Lord Never Forget
(#43)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:57 AM


’’ہاں۔‘‘
’’کھانے کے لئے روکنا تھا اسے۔‘‘
’’روکا تھا۔‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’لیکن وہ چلا گیا۔ شاید کوئی کام تھا۔‘‘
ایلیا کے ہاتھ ہی ساکت نہیں ہوئے تھے، ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے اس کا دل بھی ساکت ہو گیا ہو۔ ثمر حیات خان نے بہت گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ملک حیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تو بابا جان! پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’فرید کے متعلق۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔‘‘ وہ ایک ہنکارا بھر کر رہ گئے تو ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! جائو، کھانا لگوائو۔ کھانے کے بعد مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’فرید اچھا لڑکا ہے بابا جان!‘‘ ایلیا کے جاتے ہی ثمر خان نے پھر کہا تو ملک حیات نے سر ہلایا۔
’’ہاں، ہاں۔ یقینا۔ لیکن یار ثمر! مجھے اُس لڑکے کی ایک بات پسند نہیں آئی۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ ثمر نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’وہ لڑکا مسلسل پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں یہ ہے، وہ ہے، گندگی ہے، کرپشن ہے۔ ارے بھئی گندگی ہے، کرپشن ہے تو کس نے دعوت دی تھی کہ تم یہاں آئو۔ وہیں رہو جہاں پہلے رہتے ہو۔‘‘
’’دراصل بابا جان! جو شخص اتنا طویل عرصہ غیر ممالک میں رہا ہو تو اس کے لئے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔‘‘ ثمر خان نے اس کا دفاع کیا۔
’’ہاں، یہ بات بھی ہے۔‘‘ ملک حیات خان کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’’وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں نہیں رہنا۔ شادی کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں کرنی اپنی ایلیا کی شادی ایسے لڑکے سے۔‘‘
’’لیکن بابا جان!۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمر حیات نے کچھ کہنا چاہا تو ملک حیات نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’بلاشبہ لڑکے کی قابلیت، وجاہت اور خاندان میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن تم نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شادی کرے ورنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! کیا خبر، وہاں اس نے بھی ایاز کی طرح کسی سے وعدہ کر رکھا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ ایلیا ایک بار پھر ایسے ہی اذیت ناک تجربے سے گزرے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہے۔‘‘
’’لیکن بابا جان! اس کے متعلق تحقیق کروائی جا سکتی ہے۔‘‘ ثمر حیات خان نے کہا۔
’’نہیں یار! میرا دل نہیں مانتا ایلیا کو اتنا دور بھیجنے کو۔ بس تم سہولت سے منع کر دو عفت کو۔ بلکہ میں خود سمجھا دوں گا۔ اور کوئی پروپوزل ہوا تو اس پر غور کریں گے۔‘‘
ثمر حیات خان خاموش ہو گئے۔
’’ٹھیک ہے بابا جان!‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا۔ ’’دیکھتے ہیں کہیں اور۔ عفت نے ذکر کیا تھا ایک دو لڑکوں کا۔‘‘
بہرحال جو کچھ ملک حیات نے کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا۔ کیا خبر فرید وہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور۔۔۔۔۔ ایلیا کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بہت چھان بین کرنی چاہئے تھی اور بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ تبھی عفت نے آ کر پوچھا۔
’’بابا جان! آپ کھانا اپنے کمرے میں کھائیں گے یا ڈائننگ میں چلیں گے؟‘‘
’’میں ڈائننگ میں ہی چلتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو گئے تو ثمر نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور سہارا دیتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔



ShareThis

٭٭٭…
’’ثمر! یقین کرو، آرب بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘ ملک آفتاب کہہ رہے تھے اور ثمر حیات خان خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے آفتاب! یقینا وہ ساری خوبیاں جو تم نے بتائی ہیں وہ ہوں گی اس لڑکے آرب مصطفی میں۔ اس کے باوجود مجھے ایلیا کے ساتھ اس کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں، صرف اس لئے کہ وہ اسفندیار کا سالا ہے؟۔۔۔۔۔ ثمر! وہ بہت مختلف لڑکا ہے۔ وہ یہاں کراچی میں گھر لے چکا ہے۔ اسے بڑی اچھی جاب مل گئی ہے۔ اس کا اسفندیار۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز آفتاب! تم مجھے ایسی بات پر کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس شخص اسفندیار کا نام بھی سننا نہیں چاہتا چہ جائیکہ میں اس کے ہی کسی رشتے دار کو ایلیا کا رشتہ دوں۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھتا ہوں ثمر! ایلا کا تمہارے ساتھ خونی رشتہ ہے۔ لیکن مجھے بھی وہ کم عزیز نہیں۔ میں صرف یہ جان کر یہاں آیا ہوں کہ ایلا، آرب کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔ وہ اسے بہت خوش رکھے گا ثمر! میں آرب کی بارات لے کر آئوں گا۔۔۔۔۔ یار! تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔ آرب، ایلا کو پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو تم کہو گے۔‘‘
ثمر حیات خان کے چہرے کے نقوش سے یکایک سختی جھلکنے لگی۔
’’کیا ایلیا بھی اسے پسند کرتی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ’’آرب نے ایلیا کی مدد کی، اس حوالے سے وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی ہو گی۔ لیکن جو کچھ تم سوچ رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔‘‘
ثمر حیات خان نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے ہو گئے۔
’’مجھے افسوس ہے آفتاب! کہ میں نے تمہاری بات رد کی۔ کاش، تم کسی اور کے لئے آتے۔ کاش ایاز ایسا نہ کرتا تو میں تمہیں اپنا سمدھی بنا کر بہت خوش ہوتا۔ تمہارے گھر سے بہتر گھر اور کون سا ہوتا ایلیا کے لئے۔ لیکن آرب مصطفی ۔۔۔۔۔۔ نہیں آفتاب! ہرگز نہیں۔‘‘
اور آفتاب ملک کی آمد کا سن کر ان سے ملنے آتی ہوئی ایلیا وہیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے باہر ہی ٹھٹک کر رک گئی۔
’’تم ایک دفعہ بابا جان سے تو بات کرنا ثمر! اور ایک بار سوچنا ضرور۔‘‘ آفتاب ملک کہہ رہے تھے۔
’تو آرب نے انکل کو بھیج ہی دیا۔۔۔۔۔ حالانکہ کتنا منع کیا تھا، کتنا سمجھایا تھا اسے کہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔ یہاں سے ہی پلٹ جائو۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ میں ثمر ماموں اور بابا جان کے فیصلے کی مخالفت کروں گی۔‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو ایلیا!‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ میں تمہارا باقاعدہ پروپوزل بھجوائوں۔ سیانے کہتے ہیں جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ایلا! میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالوں گا کہ کوئی تم سے بد گمان ہو۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خود اپنی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ ایلا، پلیز! مجھے اجازت دو کہ میں انکل آفتاب کو تمہارے بابا جان کے پاس بھیجوں۔‘‘
تب وہ چپ ہو گئی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ میں صبح ہی ساہیوال جا رہا ہوں۔‘‘
آرب نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ پوری رات بے چین رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ کب اور کس موڑ پر آ کر آرب نے اپنی شدتوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جواباً اسے کوئی آس، کوئی امید نہیں دلا سکتی تھی۔ لیکن آرب تھا کہ مایوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے مل کر جانے کے بعد کتنی ہی بار اس نے اس کے سیل فون پر رات کو فون کیا تھا۔
’’جانتی ہو، کراچی میں رہنے اور جاب کرنے کا فیصلہ میں نے تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں میرے دل نے تمہاری محبتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایلا! تم اندازہ نہیں



ShareThis

کر سکتیں کہ میں نے خود کو کتنا روکا کہ پلٹ کر نہ دیکھوں۔ لیکن تمہاری کشش مجھے زیادہ دیر نہیں روک سکی۔‘‘
’’ہاں، میں بابا جان کو بتا دوں گا اس پروپوزل کے متعلق۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جان بھی انکار ہی کریں گے۔‘‘ ثمر حیات خان کے لہجے کے یقین سے ایک لمحے کے لئے اس کا دل جیسے نیچے کہیں پاتال میں گر گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے شعوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔
’یہ تو طے ہے کہ بابا جان اور ثمر ماموں، آرب مصطفی کا پروپوزل قبول نہیں کریں گے اور میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر۔۔۔۔۔‘ اس نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔ آفتاب ملک اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیسی ہو بیٹا؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ چاچی کو کیوں نہیں لائے؟ میں اتنی اُداس ہو رہی تھی ان کے لئے۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے لئے بہت اُداس ہے۔ لیکن اسے جوڑوں کے درد شروع ہو گئے ہیں۔ ان دنوں طبیعت خراب تھی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اب ایسے بھی بوڑھے نہیں ہوئے آپ اور چاچی۔ ثمر ماموں کو دیکھیں، کتنے ینگ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تو ینگ ہے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہم کلاس فیلو ضرور تھے، لیکن ہم عمر نہیں تھے۔ نکمّے، بگڑے ہوئے چودھری تھے۔ ذرا بڑی عمر میں پڑھائی شروع کی تھی۔‘‘
’’آپ رہیں گے نا یہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔۔‘‘
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟‘‘ ایلیا کو حیرت ہوئی۔ ’’اتنے دنوں بعد آئے ہیں اور صرف ایک دن؟‘‘
’’بس بیٹا! تمہاری چاچی بھی تو اکیلی ہیں نا وہاں۔‘‘
ایلیا خاموش رہ گئی تھی۔
کاش ایاز نے جلد بازی نہ کی ہوتی تو یہ ہیرا لڑکی ان کے گھر کا چراغ ہوتی۔ کبھی کبھی ایلیا کو سامنے دیکھ کر دکھ یوں ہی دل میں پنجے گاڑ لیتا تھا۔ ایلیا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ اب بھی انہیں اتنی ہی عزیز تھی۔ دونوں میاں بیوی کا زیادہ وقت اسی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ اور جب سے نینا عادل نے بتایا تھا کہ ایاز اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑے رہنے لگے ہیں تب سے تو احساسِ زیاں اور بھی بڑھ گیا تھا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے انکل؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’تمہارے بابا جان جاگ گئے ہیں تو انہیں سلام کر لوں۔‘‘
’’جی، وہ تو کب کے جاگے ہوئے ہیں۔‘‘ ایلیا نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’چلو ثمر! بابا جان کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ثمر حیات خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ان کے ساتھ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ ایلیا وہیں بیٹھی رہی۔
’کیا ضروری تھا کہ میرا دل آرب مصطفی کی چاہ کرتا جس کا ساتھ مقدر میں میں نہیں۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
’’ایلا! دیکھو، انکل میرا پروپوزل لے کر آئیں گے۔ اور اگر تمہاری رائے پوچھی گئی تو تم میرے حق میں رائے دینا پلیز۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں آرب مصطفی! آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ میں نے ہر فیصلے کا اختیار ثمر ماموں اور بابا جان کو دے دیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘‘
’’آرب! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھول جائیں مجھے اور زندگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم بھول سکتی ہو تو بھول جانا ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘ آرب نے حتمی لہجے میں کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’اب ثمر ماموں نے صاف انکار کر دیا ہے اور بابا جان۔۔۔۔۔ یقینا بابا جان بھی۔‘ اُس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ درد۔۔۔۔۔۔۔ بے پناہ درد نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔

 




And Your Lord Never Forget
(#44)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:58 AM

…٭٭٭…
’’تو تمہارا کیا خیال ہے اس پروپوزل کے متعلق؟‘‘ ملک حیات خان نے ثمر کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے آفتاب کو منع کر دیا تھا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ ملک حیات نے پُر سوچ نظروں سے دیکھا۔ ’’تم نے ایلیا سے پوچھا؟‘‘
ثمر نے ان کے ہاتھ سے گلاس واپس لے کر میز پر رکھتے ہوئے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’ایلیا نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے اسے منظور ہو گا۔‘‘
’’ہاں، تب آرب نہیں آیا تھا۔‘‘ ملک حیات خان نے تکیے سے ٹیک لگائی۔
ثمر کچھ خان دیر پہلے ہی آفتاب ملک کو گیسٹ روم میں چھوڑ کر ملک حیات کو سونے سے پہلے دوائیں دینے آئے تھے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ثمر نے کسی قدر تیزی سے پوچھا۔
’’بیٹا! کیا خبر وہ دونوں۔۔۔۔۔۔ آخر آرب نے کسی آس پر ہی آفتاب کو بھجوایا ہے۔ کچھ تو ہو گا نا۔ میں نہیں چاہتا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔‘‘
ثمر حیات خان ایک لمحے کو بالکل چپ کر گئے۔
’’اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایلیا ناخوش رہے۔‘‘ ملک حیات خان نے پھر کہا تو ثمر نے باہر سے گزرتے اسلم کو آواز دے کر ایلیا کو بلانے کے لئے کہا۔ وہ گھبرائی ہوئی سی آئی۔
’’کیا ہوا؟ بابا جان تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ بیٹھو۔‘‘ ثمر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ یونہی گھبرائی گھبرائی سی بیٹھ گئی۔
’’ایلیا بچے!‘‘ ملک حیات نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تمہارے انکل آفتاب تمہارے لئے آرب مصطفی کا پروپوزل لائے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’بابا جان! جو آپ مناسب سمجھیں۔‘‘ اس نے سر جھکا لیا۔ ’’میں نے آپ سے کہا تو تھا، آپ جو بھی فیصلہ کریں، آپ کو اختیار ہے۔‘‘
ثمر کا چہرہ چمکنے لگا۔ لیکن ملک حیات سنجیدگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’ہمارا خیال نہیں ہے آرب کے لئے۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ کیوں۔۔۔۔۔ یوں تو اچھا لڑکا ہے وہ۔‘‘
’’جی بابا جان!‘‘ اس نے اب بھی سر نہیں اٹھایا تھا لیکن اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ تاہم جب وہ بولی تو اس کا لہجہ بہت صاف اور پُر اعتماد تھا۔
’’آپ بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں بابا جان!‘‘
’’جیتی رہو۔‘‘ بے اختیار ان کے لبوں سے نکلا تھا۔ اور ثمر کو لگا تھا جیسے برسوں سے جلتے ہوئے دل پر کسی نے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ڈال دیئے ہوں۔ فرطِ جذبات سے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں اور انہوں نے مسکرا کر ملک حیات خان کی طرف دیکھا جن کی مسکراتی آنکھوں میں نمی پھیل رہی تھی۔
’’جائو بیٹا! آرام کرو جا کر۔ ایکچوئیلی میں چاہ رہا تھا کہ آفتاب کو کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے تم سے بھی بات کر لوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی غلط فیصلہ تمہاری آئندہ زندگی میں دکھ گھول دے۔‘‘
وہ بنا کچھ کہے کھڑی ہو گئی۔ وہ یہاں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ دیر اور بیٹھی تو ضبط کھو دے گی اور وہ اپنے کسی بھی عمل یا حرکت سے بابا جان اور ثمر ماموں کو یہ باور نہیں کرانا چاہتی تھی کہ اسے ان کا فیصلہ منظور نہیں ہے۔ لیکن اپنے کمرے میں آتے ہی آنسو بے اختیار ہی آنکھوں سے نکل آئے تھے۔
تو آرب مصطفی! فیصلہ ہو گیا کہ ہمیں ہمیشہ الگ الگ راستوں پر چلنا ہے۔ اور یہ تو شاید ازل سے طے تھا۔ پھر میرے دل میں یہ خیال کیوں آیا؟‘
…٭٭٭…



ShareThis

ایک اور بے چین رات اس نے عجب کرب میں گزار دی۔
صبح بستر سے اٹھنا محال ہو رہا تھا۔ پورا بدن درد سے ٹوٹ رہا تھا۔
’’ارے کیا ہوا؟‘‘ عفت مامی نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ’’تمہیں تو بخار لگ رہا ہے۔‘‘
’’ہاں، شاید۔‘‘ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’نہ، نہ۔۔۔۔۔ لیٹی رہو۔ اٹھنے کی ضرورت نہیں۔ میں یہاں ہی تمہارا ناشتہ بھجوا دوں گی۔‘‘
’’نہیں، میرا جی نہیں چاہ رہا کچھ بھی کھانے کو۔ ابھی پیناڈول لے لیتی ہوں تو۔‘‘
’’نہ، خالی پیٹ کوئی دوا مت لینا۔ ہلکا سا ناشتہ کر لو، پھر لے لینا ایک گولی۔‘‘
ایلیا خاموش ہو گئی۔ جانتی تھی اس کی ایک نہیں چلے گی۔ ان محبتوں کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی وہ۔ عفت مامی کے جانے کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں۔ کچھ دیر بعد ہی ثمر حیات اور ملک حیات خان چلے آئے۔ ان کے ساتھ ملک آفتاب بھی تھے۔
’’ارے، کیا ہو گیا میری بیٹی کو؟۔۔۔۔۔ رات تو بھلی چنگی تھی۔‘‘ آفتاب ملک نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی۔
’’کچھ نہیں انکل!‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’یوں ہی سر درد تھا اور شاید ہلکا سا ٹمپریچر۔ بس مامی خود بھی پریشان ہوئیں اور آپ سب کو بھی پریشان کر ڈالا۔‘‘
ملک حیات خان نے اس کے ستے ستے چہرے پر ایک پُرسوچ سی نظر ڈالی اور سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’اگر زیادہ طبیعت خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلوں۔‘‘
’’نہیں ماموں۔ بس پیناڈول لوں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘



ShareThis

’’میں تو سوچ رہا تھا تم فارغ ہو پڑھائی سے تو تمہارے بابا جان سے اجازت لے کر تمہیں کچھ دنوں کے لئے ساہیوال لے چلتا ہوں۔ کچھ دن ہمارے ویران گھر میں بھی رونق لگ جائے گی۔‘‘ آفتاب ملک بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
’’یہ بھی کوئی زندگی ہے میاں!‘‘ ملک حیات نے تبصرہ کیا۔ ’’بچوں کو پال پوس کر بڑا کرو اور وہ بڑھاپے میں ہمیں تنہا چھوڑ جائیں۔‘‘
’’بس، جو نصیب میں لکھا ہو بابا جان!‘‘ ایلیا نے آفتاب ملک کے لہجے میں چھپے دکھ کو محسوس کیا۔ ’’بیٹے کو پاکستان میں رہنا پسند نہیں اور ہمیں اپنی مٹی چھوڑنا منظور نہیں۔‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا۔ سو وہ وہاں خوش، ہم یہاں مطمئن۔‘‘
’’انکل! میرا دل بھی چاچی سے ملنے کو بہت چاہ رہا ہے۔‘‘ اس نے بات کر کے ملک حیات کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں، ٹھیک ہے۔ آفتاب ایک دن رک جائے تو چلی جائو ہفتہ بھر کے لئے۔‘‘ ملک حیات نے جیسے اس کے دل میں چھپی خواہش پڑ لی تھی۔
’’لیکن یار! جلدی واپس چھوڑ جانا۔ ہم بھی زیادہ دن اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
جہاں آفتاب ملک خوش ہوئے تھے، وہاں ایلیا کے چہرے پر بھی مسرت کے رنگ بکھر گئے تھے۔
’’ایسی بات ہے تو رک جاتا ہوں میں۔‘‘
ثمر اس دوران خاموشی سے ایلیا کے چہرے کا جائزہ لے رہے تھے۔
’اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور سرخ ہیں۔ لیکن کیوں؟۔۔۔۔۔ کیا آرب۔۔۔۔۔‘ تبھی عفت، اسلم کے ساتھ ناشتہ لے کر آ گئیں۔
’’اسلم! یہ ناشتہ رکھو یہاں۔ اور ایلا بیٹا! چلو منہ ہاتھ دھو لو اور ناشتہ کر کے میڈیسن لے لو۔‘‘
’’مامی! آپ۔‘‘ ایلیا شرمندہ ہو گئی۔ ’’میں نے کہا تھا، میں ادھر ہی آ جاتی ہوں۔‘‘
’’اچھا خاصا بخار لگ رہا ہے تمہیں۔۔۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں فکرمندی تھی۔ ’’میں تو کہتی ہوں ثمر! یہ ناشتہ کر لے تو ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔‘‘ وہ ثمر سے مخاطب ہوئیں تو ایلیا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پتہ نہیں کس نیکی کا صلہ تھا یہ کہ اتنی محبتیں اس کا نصیب بن رہی تھیں۔ وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتی ہوئی اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
ختم شد

 




And Your Lord Never Forget
(#45)
Old
life life is offline
 


Posts: 32,565
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Aug 2008
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 01:35 PM

buhat khoob

 

(#46)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-07-2012, 05:55 PM

Shukriya..

 




And Your Lord Never Forget
Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
baqaihaاnighat, kahawab, novelabhiaik, online, read, seema, urdu

« Previous Thread | Next Thread »
Thread Tools
Display Modes

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Read Realistic Qur'an Online zamir Quran 4 07-04-2012 11:28 AM
Online Diploma's learn in Urdu (‘“*JiĢäR*”’) Share Good Websites 0 06-01-2012 11:40 AM
*Read Online Quran* Nida-H Share Good Websites 13 07-29-2010 12:38 PM
URDU KAYBOROD Online RAJA_PAKIBOY Share Good Websites 4 07-29-2010 12:31 PM


All times are GMT +5. The time now is 02:32 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG