Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
|
Thread Tools | Display Modes |
|
(#1)
![]() |
|
|||
(۲) سورہ بقرہ (۲۸۶ آیات) بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف نام: اس سورہ کا نام البقرہ ہے۔ یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورہ ہے جو ۲۸۶ آیتوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کی سورتوں میں نہایت وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں اس لیے ان کے نام عنوانات کے بجائے سورہ کے کسی مخصوص لفظ یا ابتدائی حروف کی مناسبت سے مقرر کئے گئے ہیں جو علامت کا کام دیتے ہیں۔ چونکہ اس سورہ میں ایک جگہ گائے کا ذکر ہے اس لیے علامت کے طور پر اس سورہ کا نام البقرہ(گائے) رکھا گیا ہے۔ سورتوں کے یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تجویز فرمائے تھے۔ زمانۂ نزول: یہ سورہ مدنی ہے۔ اس کا بیشتر حصہ ہجرت کے متصلاً بعد مدینہ میں دو سال کے اندر نازل ہوا۔ البتہ بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئیں۔ مثلاً سود کی ممانعت سے متعلق آیتیں مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئیں لیکن مضمون کی مناسبت سے اس میں شامل کر دی گئیں۔ واضح رہے کہ قرآنی آیات کی ترتیب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوئی ہے۔ پس منظر: ہجرت کے بعد سابقہ یہود سے پیش آیا تھا جن کی بستیاں مدینہ کے قرب و جوار میں تھیں۔ یہ لوگ توحید رسالت اور آخرت کو مانتے تھے۔ اور اصلاً ان کا دین اسلام ہی تھا۔ لیکن صدیوں کے انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کے عقائد میں غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اور ان کی عملی زندگی میں بہت سی ایسی رسمیں اور طریقے رواج پا گئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے۔ اور جن کا ثبوت ان کی کتاب تورات میں نہ تھا۔ اس سورہ میں ان کو اصل دین یعنی اسلام کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ مرکزی مضمون: سورہ کا مرکزی مضمون ہدایت ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح اس سے پہلے اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ کتابیں بھیجتا رہا ہے اسی طرح اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ اس کے بغیر نہ اللہ کو ماننے کے کوئی معنی رہتے ہیں اور نہ اس کے بغیر زندگی اللہ کے رنگ میں رنگ سکتی ہے۔ نظم کلام: نظمِ کلام کے لحاظ سے سورہ کا ابتدائی حصہ آیت ۱ تا۲۰ تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ہدایت کو کس طرح کے لوگ قبول کریں گے اور کس طرح کے لوگ قبول نہیں کریں گے۔ آیت ۲۱ تا ۲۹ میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے انہیں بندگیِ رب کی دعوت دی گئی ہے کہ ہدایت کی راہ یہی ہے نیز واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ ہدایت الٰہی سے منہ موڑتے ہیں ان کی عملی زندگی کتنی غلط ہو کر رہ جاتی ہے اور (انجام کتنا بُرا ہو گا۔ برعکس اس کے جو لوگ ہدایتِ الٰہی کو قبول کرتے ہیں ان کی عملی زندگی کس طرح سنورتی ہے۔ اور ان کا انجام کس قدر خوشگوار ہو گا۔ آیت ۳۰ تا ۳۹ میں آدم__سب سے پہلا انسان۔ کی خلافت اور شیطان کی مخالفت کی سر گذشت بیان کی گئی ہے جس سے تاریخ انسانی کا اولین باب روشن ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور بنیادی سوالات کا اطمینان بخش جواب مل جاتا ہے مثلاً یہ کہ انسانیت کا آغاز کس طرح ہوا؟ دنیا میں انسان کی پوزیشن کیا ہے؟ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی اسکیم ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ؟ انسان کی کامیابی کا دار و مدار کس بات پر ہے؟ اس سر گذشت سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اولین انسان حضرت آدم کو جو ہدایت دی گئی تھی وہ اسلام ہی تھا۔ اور وہی انسانیت کا اصل دین ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ انسان کی رہنمائی آغازِ تخلیق ہی سے فرماتا رہا ہے اور انسانیت کی بسم اللہ دین اسلام ہی سے ہوئی ہے۔ آیت ۴۰ تا ۱۲۳ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے اس ہدایت نامہ پر اور اس کے لانے والے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس ہدایت نامہ کا نزول اور آپؐ کی بعثت ٹھیک ٹھیک ان پیشین گوئیوں کے مطابق ہوئی ہے جو ان کی اپنی کتابوں تورات وغیرہ میں موجود ہیں۔ بنی اسرائیل اس زعم میں مبتلا تھے کہ نبوت ان ہی کے خاندان میں محصور ہے اور ایک ایسے نبی پر ایمان لانا جو اس خاندان سے باہر عرب کے امیوں میں پیدا ہوا ہو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے کے معاملہ میں کسی عصبیت کا دخل نہیں ہونا چاہیے ورنہ آدمی ہدایتِ الٰہی سے یکسر محروم ہو جاتا ہے اگرچہ کہ وہ اپنے کو کتنا ہی دیندار سمجھتا رہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے عہد شکنیوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ ان کے اندر کیسی مجرمانہ ذہنیت پرورش پاتی رہی ہے اور کس طرح وہ ذہنی، فکر ی، اخلاقی اور عملی انحطاط میں مبتلا ہو گئے۔ جس کا اصل سبب یہ ہے کہ انہوں نے عملاً ہدایت الٰہی سے انحراف کیا۔ بنی اسرائیل کی مذہبیت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے دین کی اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے نہ کہ مخصوص نسل یا مخصوص مذہبی فرقہ سے وابستگی پر۔ آیت ۱۲۴ تا ۱۶۷ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خانۂ کعبہ _مرکزِ توحید_کو تعمیر کرنے کی سر گذشت بیان ہوئی ہے۔ اس ضمن میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جو بنی اسرائیل اور بنی اسمعٰیل دونوں خاندانوں کے جد امجد ہیں اور جن کو یہود، نصاریٰ، مشرکین مکہ اور مسلمان سب اپنا پیشوا مانتے ہیں خالصۃً ہدایت الٰہی کے پیرو تھے اور ان کا دین اسلام تھا نہ کہ یہودیت یا نصرانیت یا کوئی اور مذہب۔ اسی اسلام کی دعوت دینے اور دنیا والوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے امت وسط برپا کی ہے۔ جس کا قبلہ مسجد حرام ہے۔ اس قبلہ کو مشرکین مکہ کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے اہل ایمان کو جہاد کرنا پڑے گا۔ اور جان و مال کی قربانیاں دینی پڑینگی۔ ساتھ ہی واضح کیا گیا ہے کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کے مظہر ہیں اور آپؐ کی دعوت مخالفتوں کے باوجود کامیاب رہے گی اور دین اسلام غالب ہو کر رہے گا۔ آیت ۱۶۸ تا ۲۴۲ میں شریعت کے احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں جو انفرادی زندگی سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اجتماعی زندگی سے بھی ، مذہبی بھی ہیں اور اخلاقی بھی، عائلی بھی ہیں اور سوشل بھی۔ یہ وہ رہنمائی ہے جو اسلام نے زندگی کے مختلف گوشوں میں کی ہے۔ موقع موقع سے بنیادی عقائد بھی پیش کئے گئے ہیں کیوں کہ ان ہی کی بدولت آدمی راہِ ہدایت پر قائم رہ سکتا ہے۔ آیت ۲۴۳ تا ۲۸۳ میں مرکز ہدایت خانۂ کعبہ کو مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کی اور اس سلسلہ میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ ساتھ ہی انفاق کی ضد یعنی سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کاروباری معاملات کو درست رکھنے کے سلسلہ میں بھی ہدایت دی گئی ہیں۔ آیت ۲۸۴ تا ۲۸۶ خاتمۂ کلام ہے۔ اس میں ان لوگوں کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ جو کسی تعصب میں مبتلا نہ تھے کہ کسی رسول کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں بلکہ حق پسند تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ہدایت کی راہ کھول دی چنانچہ ان کی زبان سے وہ دعا ادا ہوئی جو ان کے احساسِ ذمہ داری کی ترجمانی کرتی ہے۔ تلاوت کی ترغیب: حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تجعلوا بیوتکم مقابر ان الشیطان ینفرمن البیت الذی تُقرَئُ فیہ سورۃ البقرہ ’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ ‘‘ (مسلم) یہ اس لیے کہ سورۂ بقرہ میں شیطان کی سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے اور اس میں عائلی زندگی کے احکام بھی بیان کئے گئے ہیں نیز ایمان اور ہدایت کی راہ بخوبی واضح کی گئی ہے۔ اس لیے جس گھر میں اس کو سمجھ کر پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے گا وہاں شیطان کو فتنہ اور شر برپا کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکے گی۔
|
Sponsored Links |
|
Bookmarks |
Tags |
دعوت |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
سورۃ الملک کی تلاوت عذاب قبر سے بچاتی ہے | life | Quran | 6 | 08-13-2012 02:26 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 02:23 AM |
سورۃ الملک کی تلاوت عذاب قبر سے بچاتی ہے | ROSE | Quran | 4 | 07-06-2012 08:38 PM |
تلاوتِ قرآن کریم اور علامہ اقبال | ayaz_sb | Quran | 6 | 07-06-2012 08:37 PM |
ابو ھریرۃ رضي الله عنه سے روایت ہے | ROSE | Islamic Issues And Topics | 5 | 04-30-2010 07:34 PM |