Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here ! |
Advertisement |
|
Thread Tools | Display Modes |
|
(#1)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ابھی اک خواب باقی ہے۔۔۔۔۔۔نگہت سیما ’مارچ کا مہینہ تھا اور غالباً پندرہ تاریخ۔‘‘ اُس نے انگلیوں پر حساب لگایا۔ ہاں، پندرہ تاریخ ہی تو تھی۔ آج سے ٹھیک چار سال پہلے مارچ کی اسی تاریخ کو وہ اس گھر سے رخصت ہوئی تھی اور آج چار سال بعد وہ اسی تاریخ کو ایک بار پھر اسی گھر میں واپس آ گئی تھی۔ اور کون جانے اب اُسے ہمیشہ اسی گھرمیں رہنا پڑے۔ اس نے ٹیرس سے نیچے جھانکا۔ لان کے اطراف میں کھلے پھول بتا رہے تھے کہ موسم بہار آ چکا ہے اور لان کے بیچوںبیچ پلاسٹک کی سفید کرسیوں پر وہ سب بیٹھے تھے۔ دونوں بھابیاں اور ان کی بہنیں اور پتہ نہیں کون کون تھا۔ چھوٹے دونوں بچے لان میں ایک طرف فٹ بال سے کھیل رہے تھے۔ جب اُس کی شادی ہوئی تھی تو بڑے بھیا کا بوبی صرف دو سال کا تھا اور چھوٹے بھیا کی پنکی ایک سال کی۔ اور اب۔۔۔۔۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ دور سے وہ دونوں صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کیسے ہوں گے اب۔ بچپن میں تو دونوں بہت پیارے تھے۔ یکایک اس کے دل میں انہیں دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہ ایک گہری سانس لے کر پیچھے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسے آئے بارہ تیرہ گھنٹے تو ہو چکے تھے۔ اس نے پھر انگلیوں پر حساب لگایا۔ پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔ حالانکہ وہ ایلیا اسفند یار تھی جو منٹوں میں زبانی بڑی بڑی رقمیں جمع کر لیتی تھی اور اسفند یار بڑے فخر سے کہتے تھے۔ ’’میری ایلی تو جینئس ہے۔ اور تم دونوں نالائق۔۔۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ تم کوئی تیر مار لو گے۔‘‘ لیکن یہ تو تب کی بات تھی جب وہ صرف سات سال کی تھی، بڑے بھیا پندرہ سال کے اور چھوٹے بھیا تیرہ سال کے۔ وہ چھوٹے بھیا سے پورے چھ سال چھوٹی تھی اور اسفندیار کی بے حد لاڈلی۔ آج صبح جب اس نے لاہور ایئر پورٹ سے باہر قدم رکھا تھا تو صبح کے تین بجے تھے یا شاید چار۔ باہر ملگجا اندھیرا تھا۔ اس ملگجے اندھیرے میں اس نے بڑے بھیا کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کچھ زیادہ تو نہیں بدلے تھے۔ ویسے ہی ینگ اور ایکٹو لگ رہے تھے۔ اتنے ہی اسمارٹ وہ تب بھی تھے، آج سے چار سال پہلے جب وہ سولہ سال کی تھی تو وہ چوبیس سال کے تھے اور ایک دو سولہ بچے کے باپ بن چکے تھے۔ اب بھی وہ اس ملگجے اندھیرے میں اسے اتنے ہی ینگ لگے تھے جیسے ان کے پاس سے گزرا ہی نہ تھا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔۔۔۔۔ سب ویسا ہی تھا شاید۔۔۔۔۔ جب وہ یہاں سے گئی تھی تب بھی دونوں بھابیاں سرِ شام لان میں آ بیٹھتی تھیں اور ان کی بہنیں بھی۔ کبھی شابی بھابی کی دونوں بہنیں ہوتیں کبھی ایک اور روشی بھابی کی بہن تو مستقل یہاں ہی رہتی تھی، پڑھائی کی غرض سے سال کے نو مہینے تو شابی بھابی کی بہنیں ادھر ہی ہوتی تھیں۔ جب روشی بھابی اپنی بہن کو ہاسٹل سے گھر لائی تھیں یہ کہہ کر کہ بہن کا گھر ہوتے ہاسٹل میں رہنے کی کیا ضرورت ہے تو شابی بھابی نے مارے حسد کے اپنی بہن کو بھی بلا لیا تھا۔ ’’بوبی اکیلے مجھ سے نہیں سنبھالا جاتا۔ اگر آپ اجازت دیں تو وشی کو بلا لوں کچھ دنوں کے لئے؟‘‘ اُس نے اسفند یار سے پوچھا تھا اور اسفند یار نے خوشی سے اجازت دے دی تھی۔ ’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ کیوں نہیں۔‘‘ سب کے لئے اس بڑے حویلی نما گھر میںجگہ تھی صرف اس کے لئے نہیں تھی۔ اُس نے پلکوں پر اٹکے آنسو کو انگلی کی پور پر لے کر جھٹکا۔ ہاں۔۔۔۔۔ صرف ایلیا اسفند یار کے لئے اس گھر میں جگہ نہیں تھی۔ …٭٭٭… جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلی تھی تو شاید صبح کے چار بجے تھے اور اب شام کے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے پھر انگلیوں پر گنا۔ بارہ گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے اور کسی نے اس کی خبر تک نہیں لی تھی، کوئی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔ صبح بڑے بھیا نے اس کا بیگ کمرے میں رکھتے ہوئے کہا تھا
![]() And Your Lord Never Forget |
Sponsored Links |
|
Bookmarks |
Tags |
baqaihaاnighat, kahawab, novelabhiaik, online, read, seema, urdu |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
Read Realistic Qur'an Online | zamir | Quran | 4 | 07-04-2012 11:28 AM |
Online Diploma's learn in Urdu | (‘“*JiĢäR*”’) | Share Good Websites | 0 | 06-01-2012 11:40 AM |
*Read Online Quran* | Nida-H | Share Good Websites | 13 | 07-29-2010 12:38 PM |
URDU KAYBOROD Online | RAJA_PAKIBOY | Share Good Websites | 4 | 07-29-2010 12:31 PM |