آج دنیا جن آفات میں مبتلا ہے اتنی کبھی نہ تھی اور ساری آفات کی وجہ ہے علم کی زیادتی اورعمل کی کمی اور علم کی زیادتی کا باعث ہے سائنس جدید کا باعث ہیں انگلستان کی لوہے اور کوئلے کی کانیں لوہے اور کوئلے کو بیچنے کے لئے بحری جہازوں کی ضرورت تھی، بحری جہازوں کے ٹھہرانے کے لئے بندرگاہوں کی ضرورت تھی ،بندرگاہوں کو محفوظ کرنے کے لئے عقبی علاقوں میں اثر و اقتدار کی ضرورت تھی، اثر و اقتدارکے لئے قوت کی ضرورت تھی، قوت کے لئے حکومت کی ضرورت تھی ، حکومت سے اقتدار آیا ، اقتدار سے تجارتی آسانیاں اور مراعات حاصل ہوئیں ،تجارتی مراعات سے تجارت کو فروغ ہوا، تجارت کے فروغ سے پیسے کی افراط ہوئی لیکن پیسے کی افراط نے انگریز کو تن آسان نہیں بنایا اور یہ ایک امر عجیب ہے اور ہر امر عجیب غور طلب حقیقت یہ ہے کہ انگریز نے کسی وقت اور کسی جگہہ حکومت حکومت کے لئے نہیں بلکہ تجارت کے لئے قائم کی اور یہ دوسرا امر عجیب ہے اور اتنا ہی غور طلب ہے جتنا کہ پہلا ۔انگریز نے صدی ڈیڑھ صدی عدیم المثل اور قابل صد ستائش حکومت کرنے کے بعد حکومت اور تجارت میں سے تجارت کو ہی ترجیح دی اور دنیا کے پانچویں حصے کی حکومت ایک گولی چلائے بغیر چھوڑ دی ۔ یہ اس لئے کہ ایسا کرنے سے اسے تجارتی منڈیاں بدستور قائم رکھنے کی امید تھی اور اگر انگریز کا نظریہ حکومت برائے حکومت کا ہوتا تو گنگا کا دریا خون سے بھر کے بہتا اور نتیجہ جو ہوتا سو ہر کوئی دیکھ لیتا ۔ حق یہ ہے کہ انگریز ایک بہت دوررس اور ہمہ گیر قوم ہے۔ خدا کی زمین میں صرف دو ہی ہمہ گیر قومیں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک عرب اور ایک انگریز ۔دین کے لحاظ سے عرب اور دنیا کے لحاظ سے انگریز اور اس بنا پر یہ قومیں دنیا پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ عرب اٹھے تو دنیا کو توحید اخوت مسا وات اور دین دیا۔ انگریز اٹھا تو دنیا کو دنیا دی۔ عرب اٹھے توانہوں نے دنیا کے دین لے لئے اور انگریز اٹھا تو دنیا سے دنیا لے لی۔ دین نے دنیا کوحقیر کہا۔ دنیا کی حقارت سے قناعت آئی اور قناعت دو جہان کی تسکین اورطمانیت کا سرچشمہ ہے ۔ بنی آدم قناعت کے سبب امن و عافیت کے حصار میں ہر بلا اور ہر آفت سے ما مون و محفوظ ہو گئے ۔ عرب نے دنیا کو توحید سکھلائی ،اخوت سکھائی ، مساوت کا سبق دیا، حریت سے روشناس کرایا ۔ عرب نے دنیا کو اسلام سکھایا ۔ اسلام نے فرعونوں اور سرکشوں کو خوار کر دیا اور مظلوم بندوں کو سرفراز کرکے ہر کس و ناکس کو ایک سطح پر لا کھڑا کر دیا۔ انگریز کا مقصود روز اولیں سے دنیا تھی۔ انگریز نے دین کو دنیا کے ماتحت کر دیا مگر اس خوبی سے کیا کہ دانا سے دانا اور بینا سے بینا آنکھ بھی محوِ حیرت ہے کہ یا للعجب لیکن یہ کام انگریز کا اور محض انگریز کا ہے جس کا ساز اسی کو با جے دنیا کی کوئی دوسری قوم عموماً اور مشرق کے لوگ خصوصاً اس باریک روی سے عاجز ہیں۔ ہم مشرقیوں کی اساس دین پر ہے ۔ اگر ہم دین سے ایک انچ بھی ہٹ جائیں تو نہ دین کے نہ دنیا کے ۔ ہم صراط مسقیم پر صرف دین کے سہارے چل سکتے ہیں،ذرا سا پاؤں ڈگمگایا اور آگ میں جا گرے ۔ ہمارا ہر فعل اور ہر عمل دین کے ماتحت ہے۔ ہماری دنیا دین کے ماتحت ہے ۔اگر دین کا خیال لمحہ بھر کے لئے ہمارے سامنے سے اوجھل ہو جائے تو ہم بدترین جانور بن جاتے ہیں ہمارا ہر سانس جو لفظ اللہ سے عاری ہو وہ شیطان کا سانس ہے۔ ہمارا ہر قدم جو دین کی رہنمائی کے بغیر اٹھے وہ ہمیں گناہ کے غار میں دھکیل دیتا ہے ۔ ہم وہ نہیں کر سکتے جو انگریز کر سکتا ہے ۔ ہم انگریزی لباس پہن سکتے ہیں انگریزی زبان بول سکتے ہیں ہم انگریز کی نقالی کر سکتے ہیں مگر انگریز نہیں بن سکتے ۔ انگریز ڈیڑھ صدی سے زیادہ ھندوستان میں رہا مگر اجنبی کی طرح رہا اور اجنبی کی طرح چلا گیا ۔ لیکن ایک طرف اتنی اجنبیت اور دوسری طرف اتنی معرفت کہ ھندوستان اور ھندوستانی کا کوئی خانہ نہیں جو اس کی نظر میں نہ ہو ۔ انگریز عربوں کے اقتدار کو تاڑتا جانچتا رہا اور جوں ہی عرب کمزور ہوئے ،دنیا پر چھا گیا۔