Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link | link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link| link|
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Literature » Urdu Literature » Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema
Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here !

Advertisement
 
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#1)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
bfl Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:14 AM

ابھی اک خواب باقی ہے۔۔۔۔۔۔نگہت سیما

’مارچ کا مہینہ تھا اور غالباً پندرہ تاریخ۔‘‘
اُس نے انگلیوں پر حساب لگایا۔
ہاں، پندرہ تاریخ ہی تو تھی۔ آج سے ٹھیک چار سال پہلے مارچ کی اسی تاریخ کو وہ اس گھر سے رخصت ہوئی تھی اور آج چار سال بعد وہ اسی تاریخ کو ایک بار پھر اسی گھر میں واپس آ گئی تھی۔ اور کون جانے اب اُسے ہمیشہ اسی گھرمیں رہنا پڑے۔
اس نے ٹیرس سے نیچے جھانکا۔ لان کے اطراف میں کھلے پھول بتا رہے تھے کہ موسم بہار آ چکا ہے اور لان کے بیچوںبیچ پلاسٹک کی سفید کرسیوں پر وہ سب بیٹھے تھے۔ دونوں بھابیاں اور ان کی بہنیں اور پتہ نہیں کون کون تھا۔ چھوٹے دونوں بچے لان میں ایک طرف فٹ بال سے کھیل رہے تھے۔
جب اُس کی شادی ہوئی تھی تو بڑے بھیا کا بوبی صرف دو سال کا تھا اور چھوٹے بھیا کی پنکی ایک سال کی۔ اور اب۔۔۔۔۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ دور سے وہ دونوں صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کیسے ہوں گے اب۔ بچپن میں تو دونوں بہت پیارے تھے۔ یکایک اس کے دل میں انہیں دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہ ایک گہری سانس لے کر پیچھے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
اسے آئے بارہ تیرہ گھنٹے تو ہو چکے تھے۔ اس نے پھر انگلیوں پر حساب لگایا۔ پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔ حالانکہ وہ ایلیا اسفند یار تھی جو منٹوں میں زبانی بڑی بڑی رقمیں جمع کر لیتی تھی اور اسفند یار بڑے فخر سے کہتے تھے۔
’’میری ایلی تو جینئس ہے۔ اور تم دونوں نالائق۔۔۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ تم کوئی تیر مار لو گے۔‘‘
لیکن یہ تو تب کی بات تھی جب وہ صرف سات سال کی تھی، بڑے بھیا پندرہ سال کے اور چھوٹے بھیا تیرہ سال کے۔ وہ چھوٹے بھیا سے پورے چھ سال چھوٹی تھی اور اسفندیار کی بے حد لاڈلی۔
آج صبح جب اس نے لاہور ایئر پورٹ سے باہر قدم رکھا تھا تو صبح کے تین بجے تھے یا شاید چار۔ باہر ملگجا اندھیرا تھا۔ اس ملگجے اندھیرے میں اس نے بڑے بھیا کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کچھ زیادہ تو نہیں بدلے تھے۔ ویسے ہی ینگ اور ایکٹو لگ رہے تھے۔ اتنے ہی اسمارٹ وہ تب بھی تھے، آج سے چار سال پہلے جب وہ سولہ سال کی تھی تو وہ چوبیس سال کے تھے اور ایک دو سولہ بچے کے باپ بن چکے تھے۔ اب بھی وہ اس ملگجے اندھیرے میں اسے اتنے ہی ینگ لگے تھے جیسے ان کے پاس سے گزرا ہی نہ تھا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔۔۔۔۔ سب ویسا ہی تھا شاید۔۔۔۔۔ جب وہ یہاں سے گئی تھی تب بھی دونوں بھابیاں سرِ شام لان میں آ بیٹھتی تھیں اور ان کی بہنیں بھی۔ کبھی شابی بھابی کی دونوں بہنیں ہوتیں کبھی ایک اور روشی بھابی کی بہن تو مستقل یہاں ہی رہتی تھی، پڑھائی کی غرض سے سال کے نو مہینے تو شابی بھابی کی بہنیں ادھر ہی ہوتی تھیں۔ جب روشی بھابی اپنی بہن کو ہاسٹل سے گھر لائی تھیں یہ کہہ کر کہ بہن کا گھر ہوتے ہاسٹل میں رہنے کی کیا ضرورت ہے تو شابی بھابی نے مارے حسد کے اپنی بہن کو بھی بلا لیا تھا۔
’’بوبی اکیلے مجھ سے نہیں سنبھالا جاتا۔ اگر آپ اجازت دیں تو وشی کو بلا لوں کچھ دنوں کے لئے؟‘‘ اُس نے اسفند یار سے پوچھا تھا اور اسفند یار نے خوشی سے اجازت دے دی تھی۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ کیوں نہیں۔‘‘
سب کے لئے اس بڑے حویلی نما گھر میںجگہ تھی صرف اس کے لئے نہیں تھی۔ اُس نے پلکوں پر اٹکے آنسو کو انگلی کی پور پر لے کر جھٹکا۔
ہاں۔۔۔۔۔ صرف ایلیا اسفند یار کے لئے اس گھر میں جگہ نہیں تھی۔
…٭٭٭…
جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلی تھی تو شاید صبح کے چار بجے تھے اور اب شام کے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے پھر انگلیوں پر گنا۔ بارہ گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے اور کسی نے اس کی خبر تک نہیں لی تھی، کوئی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔ صبح بڑے بھیا نے اس کا بیگ کمرے میں رکھتے ہوئے کہا تھا

 




And Your Lord Never Forget
Reply With Quote Share on facebook
Sponsored Links
(#2)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:15 AM

’’ابھی سب سو رہے ہیں۔۔۔۔۔ تم بھی آرام کرو۔ تھکی ہوئی ہو گی۔ اتنی لمبی فلائٹ تھی۔‘‘
ہاں، تھکن تو وہ بے حد محسوس کر رہی تھی۔ جہاز میں بھی باوجود کوشش کے اسے نیند نہیں آ سکی تھی۔
وہ چار سال بعد وطن جا رہی تھی، پتہ نہیں کیسا ہو گا وہاں۔ سب ویسے ہی ہوں گے یا بدل چکے ہوں گے؟۔۔۔۔۔ بوبی اور پنکی تو ذرا بڑے ہو گئے ہوں گے۔ زین کیسا ہو گا، شابی بھابی جیسا یا بھیا جیسا، بوبی تو سارے کا سارا بھیا پر گیا ہے۔
چھوٹی امی کیا اب بھی اتنی ہی سرد مہر ہوں گی یا بدل گئی ہوں گی؟ اب تو خود ان کی بیٹی بڑی ہو گئی ہو گی۔ شاید ان کا دل نرم پڑ گیا ہو۔ وہ نو سال کی تھی جب چھوٹی امی کے ہاں انوشہ پیدا ہوئی تھی اور اب وہ گیارہ سال کی ہو گی۔ اور بدر اس سے ایک سال ہی تو چھوٹا تھا۔ وہ تو دس سال کا ہو گا۔ کتنا کیوٹ سا تھا وہ۔ اور وہ آرب مصطفی، وہ پتہ نہیں ابھی تک ہمارے گھر میں رہتا ہو گا یا چلا گیا ہو گا۔ کس قدر لڑاکا تھا۔ چھوٹی امی کا بھائی جسے وہ اپنے ساتھ ہی لائی تھیں۔ ایک بار شابی بھابی نے اسے بتایا تھا کہ چھوٹی امی نے اسی شرط پر شادی کی ہے ابی سے کہ وہ آرب مصطفی کو ساتھ ہی رکھیں گی۔ کیونکہ ان کے والدین نہیں تھے اور چھوٹی امی ہی اس کے لئے سب کچھ تھیں۔ ابی جان، پتہ نہیں وہ اب بھی اس سے ویسی ہی محبت کرتے ہوں گے جیسے امی جان کی زندگی میں کرتے تھے یا پھر۔۔۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی تو خود کو ماضی کی یادوں سے آزاد نہیں کرا سکی تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ چار سال بعد وطن آ رہی ہے تو سب ہی اسے لینے آئے ہوں گے۔ لیکن صرف بڑے بھیا کو دیکھ کر اسے ازحد مایوسی ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو بے بی؟۔۔۔۔۔۔ ‘‘ بڑے بھیا کے لہجے میں ہمیشہ جیسی نرمی تھی۔ ’’ایاز کیسا ہے؟‘‘
’’ٹھیک۔۔۔۔۔ ہے۔‘‘ اُس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی تھی۔
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ اس نے تو ایک ماہ سے ایاز کو دیکھا تک نہیں تھا۔ ایک ماہ پہلے وہ اسے واشنگٹن سٹی میں نینا عادل کے فلیٹ میں چھوڑ کر ایسا گیا تھا کہ پھر اس سے بات تک نہیں کی تھی۔ اس کا ٹکٹ، اس کی تیاری سب نینا نے ہی کی تھی۔ نینا نے اسے بتایا تھا کہ ایاز نے فون پر اس سے بات کی ہے اور ایسا کرنے کو کہا ہے۔
…٭٭٭…
ایک ماہ پہلے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی کھولتے ہوئے اس نے سوچا تھا، آج کتنی سردی ہے یہاں۔۔۔۔۔ وہاں ماڈل ٹائون کے اس بڑے سارے گھر کے ہر کمرے میں گیس کے ہیٹر جل رہے ہوں گے اور شاید ماڈل ٹائون کی کشادہ سڑکیں کہر میں ڈوبی ہوں گی۔ وہ کتنی ہی یر ماضی میں کھوئی رہی تھی ۔۔۔۔۔ یا پھر سٹنگ روم میں سب بیٹھے مونگ پھلی اور چلغوزے کھا رہے ہوں گے۔ اور شاید کسی نے ایلیا اسفندیار کو یاد بھی نہ کیا ہو۔ ابی جان نے بھی نہیں کہ ان کے پاس انوشہ جو آ گئی ہے اور کیا انوشہ کو پا کر ایلیا اُن کے دل سے اُتر گئی تھی؟
وہ ایلیا اسفندیار جسے وہ اپنی اولادوں میں سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ شاید وہ ان کے دل سے اتر ہی گئی تھی۔ شاید بیٹیاں مائوں کے ہونے سے ہی باپوں کے دلوں میں رہتی ہیں۔ اس کی امی جان بھی تو ایک دن اچانک چلی گئی تھیں۔ رات جب وہ اسے یار کر کے اپنے کمرے میں گئی تھیں تو اچھی بھلی تھیں۔ لیکن صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو چھوٹے بھیانے روتے ہوئے سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے بتایا تھا کہ امی جان کو رات شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔
’’بے بی! تم امی کے لئے دعا کرنا!‘‘
چھوٹے بھیا نے اُسے ناشتہ کروایا تھا۔ حالانکہ اس کا ناشتہ کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن ہر روز کی طرح اس نے ضد نہیں کی تھی اور چپ چاپ ناشتہ کر لیا تھا۔ پھر اسی دوپہر کو امی جان واپس آ گئی تھیں۔۔۔۔۔ خاموش، بند آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ اُس نے کتنا ہی پکارا۔ ہاتھ پکڑ کر، ان کی ناک پر ہاکھ رکھ کر، آنکھوں کو چوم کر۔ لیکن وہ تو بولتی ہی نہیں تھیں۔ بڑے بھیا نے اسے گود میں بھرکر بتایا۔
’’بے بی!ہماری امی جان فوت ہو گئی ہیں اور اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں۔‘‘
’’کیا میں اللہ میاں کے پاس نہیں جا سکتی بھیا؟‘‘
ان دنوں وہ کتنی ضدی ہو گئی تھی۔ ہر وقت روتی اور اللہ میاں کے پاس جانے کی ضد کرتی تھی۔
پھر جس روز اس کی آٹھویں سالگرہ تھی اور بڑے بھیا نے اُسے چاکلیٹ کا پیکٹ گفٹ دیا تھا، اسی روز اسفند یار چھوٹی امی کو لائے تھے۔ اور ان کے ساتھ آرب مصطفی بھی تھا۔ بڑے بھیا کا

 




And Your Lord Never Forget
(#3)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:15 AM

م عمر ہی ہو گا۔۔۔۔۔ اور پھر ایاز ملک کی دھاڑ اُسے ماڈل ٹائون کے اس بڑے سارے گھر سے باہر لے آئی تھی۔
’’میں نے تمہیں کافی بنانے کو کہا تھا۔‘‘
جب کھڑکی بند کر کے وہ کافی کا کپ لے کر ایاز ملک کے پاس گئی تھی تو ایاز ملک نے گرما گرم کافی کا کپ اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر دے مارا۔ گرم کافی کے چھینٹے اس کے پائوں پر پڑے تھے۔
’’ایلیا اسفندیار! آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کس جرم کی پاداش میں تم مجھ پر مسلط کی گئی ہو۔‘‘
یہ کتنی عجیب بات تھی کہ شادی کے چار سال بعد بھی وہ ایلیا اسفندیار ہی تھی، ایلیا ایاز ملک نہیں۔۔۔۔۔ اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ پچھلے چار سالوں سے وہ بھی یہی ایک بات سوچ رہی تھی کہ آخر کس جرم کی پاداش میں اسے ایاز ملک جیسے شخص کے حوالے کیا گیا تھا۔ اُس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو بڑی نرمل اور بڑی سیدھی سادھی تھی۔ چھوٹی امی کے آنے پر وہ خود ہی اسفند یار سے دور ہو گئی تھی۔ وہ کبھی ان کے قریب نہیں جاتی تھی کہ چھوٹی امی کو برا لگے گا۔ چھپ چھپ کر اپنے ابی جان کو انوشہ سے لاڈ کرتے دیکھتی تھی۔ اُس نے کبھی اسفندیار تو کجا بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کو بھی نہیں بتایا تھا کہ چھوٹی امی کبھی کبھی اُسے کتنی بے دردی سے مارتی ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ تو روزانہ ہی کرتی ہیں۔ پھر اُسے اس آدمی کے حوالے کر کے کس نامعلوم جرم کی سزا دی گئی تھی۔ یہ سزا ہی تو تھی کہ ان چار سالوں میں ایک بار بھی اسفندیار کا فون نہیں آیا تھا۔ باپ، بیٹیوں کو رخصت کر کے یوں بھول تو نہیں جایا کرتے جس طرح ابی جان نے اسے بھلا دیا تھا۔
’’جی چاہتا ہے تمہیں تین حرف کہہ کر اپنی زندگی سے نکال باہر کروں۔ لیکن میرے ڈیڈ۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے دائیں ہاتھ کا مُکا بنا کر ٹیبل پر مارا تھا اور وہاں پڑی کتابیں اور اخبار اٹھا کر نیچے پھینک دیئے تھے۔ وہ اپنے غصے کا اظہار اس طرح ہی کرتا تھا۔ چیزیں پھینک کر اور توڑ کر۔
’’آپ مجھے پاکستان واپس کیوں نہیں بھیج دیتے؟‘‘ چار سالوں کی خاموشی کے بعد اس نے زبان کھولی تھی۔ اور یہ دراصل وہ نہیں، نینا عادل بول رہی تھی۔ نینا عادل جو ایاز ملک کی سگی تایا زاد تھی لیکن اسے ایلیا اسفندیار سے ہمدردی تھی۔
’’ایلی! تم ایاز سے کیوں نہیں کہتیں کہ وہ تمہیں واپس پاکستان بھجوا دے۔‘‘ اُس نے کئی بار کہا تھا اور آج صبح بھی وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’ایلی! اس طرح تو تم مر جائو گی۔ تم ایاز سے کہو۔ یا پھر میں کہتی ہوں۔ میرے خدا! تم چار سال سے اس اذیت میں ہو۔ کاش میں پہلے یہاں آ جاتی۔‘‘ نینا عادل ورجینیا میں تھی اور کوئی سات ماہ پہلے واشنگٹن سٹی آئی تھی۔
’’پاکستان واپس۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے قہقہہ لگایا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔ چار سال سے تم میرے سر پر مسلط ہو، عذاب بنی ہوئی ہو۔ لیکن اس کے لئے تمہیں خود ڈیڈ سے کہنا ہو گا کہ تم پاکستان آنا چاہتی ہو۔‘‘ اس نے اس کی کلائی کو دائیں ہاتھ کی گرفت میں لے کر تقریباً مروڑ ڈالا تھا۔
’’اور تم کہو گی۔۔۔۔۔ تم ڈیڈ سے کہو گی۔۔۔۔۔ آج ہی۔‘‘
اس نے اس کی کلائی چھوڑ کر اسی وقت نمبر ملایا تھا۔ لیکن ڈیڈ سے اس کی بات نہیں ہو سکی۔
اگلی صبح جب وہ ناشتہ بنا رہی تھی تو نہ جانے کس کا فون آیا تھا کہ ایاز ملک نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور فوراً ہی کہیں جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اٹیچی دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کہیں زیادہ دنوں کے لئے جا رہا ہے۔
’’تم اپنے کچھ کپڑے لے لو۔۔۔۔۔ میں ٹیکساس جا رہا ہوں۔ تمہیں نینا آپی کے پاس چھوڑ جائوں گا۔‘‘
پھر اسے نینا عادل کے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
’آپی! اس کی بات ڈیڈ سے کرا دیجئے گا۔ اور اگر وہ کہیں تو پھر پاکستان کے لئے ٹکٹ وغیرہ لے کر اسے پاکستان روانہ کر دیجئے گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔۔ تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’ٹیکساس جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے زیادہ دن لگ جائیں۔ اور ایلیا اپنی فیملی کے لئے اُداس ہو رہی ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔‘‘ نینا عادل کا اچھا بہت معنی خیز تھا۔ ’’اورٹیکساس میں تمہیں کیا کام ہے؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔‘‘ ایاز نے سر کھجایا۔ ’’دراصل میرا فرینڈ بیمار ہے۔ وہاں ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ کچھ دیر پہلے ہی فون آیا تھا۔‘‘
نینا عادل کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ پھر وہ انہیں لائونج میں چھوڑ کر اندر نینا کے بیڈ روم میں چلی آئی تھی۔ نینا عادل جو ایاز ملک کے سگے تایا کی بیٹی تھی، اس سے بے حد مختلف تھی۔ اس نے

 




And Your Lord Never Forget
(#4)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:16 AM

ایلیا کو بتایا تھا کہ ورجینیا آنے کے صرف تین سال بعد اس کا ہسبنڈ ایک حادثے میں اپنی ٹانگیں کٹوا بیٹھا تھا اور اس نے چار سال اس اجنبی شہر میں تنہا اس کی خدمت کی۔ اور پھر چار سال بعد وہ مر گیا تب بھی وہ پاکستان واپس نہیں گئی۔ کیونکہ اس کے دو بیٹے تھے اور اسے ان کے مستقبل کے لئے جنگ کرنا تھی۔ اب اس کا بڑا بیٹا پندرہ سال کا اور چھوٹا گیارہ سال کا تھا۔
’’میں نے بہت محنت کی ہے ایلیا! اور بہت تھکی ہوں۔ کبھی سوچتی ہوں یہاں رہنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ کبھی سوچتی ہوں شاید غلط تھا۔ لیکن وہاں پاکستان میں بھی کون تھا میرا۔ ایک چچا جان اور چچی۔ میرے ڈیڈ تو میری شادی سے چند ماہ پہلے ہی وفات پا گئے تھے اور ماما میرے بچپن میں۔۔۔۔۔ سو مجھے تویہاں ہی رہنا تھا، اپنے بچوں کے لئے۔ میرے پاس یہ تھے۔ لیکن تمہارے پاس تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ کوئی آسرا نہیں ہے۔ اور یہاں اکیلے اس طرح جینا آسان نہیں ہے ایلی! پھر وہاں پاکستان میں تمہارا بھرا پُرا گھر ہے۔ تم ایاز سے کہو تمہیں پاکستان بھیج دے۔ جب وہ تمہیں پسند نہیں کرتا، تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتا، تمہیں پل پل اذیت دیتا ہے، تمہیں اپنے بچوں کی ماں نہیں بنانا چاہتا تو پھر کیوں رہ رہی ہو تم؟۔۔۔۔۔ میں چچا جان سے سب کہہ دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں، پلیز۔‘‘ اس نے نینا کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔ ’’آپ انکل سے کچھ نہ کہیں۔‘‘
ایاز ملک نے نینا عادل کے واشنگٹن آنے کے دوسرے دن ہی اُسے سمجھایا تھا۔
’’خبردار! جو تم نے نینا سے کوئی بات کی۔‘‘
اور اُس نے نینا سے کچھ نہیں کہا تھا۔ لیکن نینا تو خود ہی جان گئی تھی سب کچھ۔
’’کیا کیتھی آئی ہے یہاں؟‘‘ ایک روز ایاز ملک اپنے آفس میں تھا، نینا عادل نے اس روز اپنے کام سے چھٹی کی تھی اور اپنے بچوں کو ان کے سکول چھوڑ کر اس کے پاس آ گئی تھی۔ وہ نینا کے منہ سے کیتھی کا نام سن کر حیران رہ گئی تھی۔
’’یہ کیتھی کون ہے؟‘‘
’’کیتھرائن ہے۔۔۔۔۔ آجی کی دوست۔۔۔۔۔ آجی دراصل اسی سے تو شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن چچا جان نے اس کی شادی تم سے کر دی اور حقیقتاً تم اتنی پیاری ہو کہ ایاز کیتھی کو بھول گیا ہو گا۔ تمہارے ساتھ کیسا ہے وہ؟۔۔۔۔۔ اور یہ تم دونوں ابھی تک اکیلے کیوں ہو؟۔۔۔۔۔ چچی جان نے بطورِ خاص مجھ سے کہاتھا کہ جب واشنگٹن جائوں تو تم سے پوچھوں۔ آجی اکلوتا ہے نا اور چچا جان اور چچی جان دونوںکو بہت شوق ہے کہ اس کے بچے ہوں۔ پہلے تو آجی بھی کہتا تھا کہ اس کے ڈھیر سارے بچے ہوں گے۔‘‘
نینا عادل ہنسی تھی۔ لیکن وہ یونہی ساکت بیٹھی رہی۔ اب وہ سولہ سال کی معصوم لڑکی تو نہیں تھی کہ نہ جان سکتی کہ ایاز ملک اسے ماں بننے کا اعزاز نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس معاشرے میں رہ کر وہ اتنا تو جان ہی چکی تھی اب۔
’’ایلیا! تم چپ کیوں ہو؟ کیا آجی۔۔۔۔۔؟‘‘ اور اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ آنکھوں میں چمکتے آنسوئوں کے قطروں نے سب کہہ دیا۔ نینا عادل حیران سی اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’تم تین سال اور تین ماہ میں اسے فتح نہیں کر سکیں۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں حُسن کی دولت سے دل کھول کر نوازا ہے۔‘‘
پھر نینا عادل نے کتنا ہی چاہا تھا کہ وہ سب کچھ انکل آفتاب ملک کو بتا دے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی تھی۔ حالانکہ مہینے دو مہینے بعد ان کا فون ضرور آتا تھا، صرف اس لئے۔ ایاز تو خود ہی آفس میں ان سے بات کر لیتا تھا۔ ان بیتے چار سالوں میں ایک بار وہ خود آ کر مل بھی گئے تھے۔ تین ماہ کا وہ عرصہ جب وہ اور آنٹی یہاں رہ رہی تھیں اس کے لئے ایک خواب جیسا تھا۔ ایاز کتنی نرمی اور محبت سے بات کرنے لگا تھا۔ مگر ان کے جاتے ہی۔۔۔۔۔
’’تم جانتی ہو ایلیا! ایاز کس کے پاس جا رہا ہے؟‘‘ اُسے رخصت کر کے جب نینا عادل اس کے سامنے آ کر بیٹھی تھی تو ازحد افسردہ لگ رہی تھی۔ ’’کیتھی کے پاس۔ وہ کچھ بیمار ہے۔ اور دیکھنا، ایک دن وہ اس سے شادی بھی کر لے گا۔‘‘ لیکن وہ یونہی بے حس سی بیٹھی رہی تھی۔
’’میں نے کہا ہے اس سے کہ تم اسے قبول نہیں ہو تو وہ تمہیں فارغ کر دے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ تم اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کر سکتی ہو۔ کسی اچھے انسان کے ساتھ۔ لیکن پتہ ہے، وہ ڈرتا ہے چچا جان سے۔۔۔۔۔ چچا جان نے اپنی قسم دے رکھی ہے اُسے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میں چچا جان کو راضی کر لوں تو وہ اسی وقت۔۔۔۔۔‘‘
ایلیا کے دل میں ایک ارتعاش سا پیدا ہوا تھا۔ لیکن وہ ساکت بیٹھی رہی تھی۔
’’خیر، یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ پہلے میں تمہاری چچا جان سے بات کرا دوں گی۔‘‘

 




And Your Lord Never Forget
(#5)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:16 AM


اور پھر نینا عادل نے ہی اس کی بات انکل آفتاب سے کروائی تھی۔
’’اچھا۔۔۔۔۔ اچھا، تم اُداس ہو۔‘‘ وہ ہنسے تھے۔ ’’تو آ جائو۔ لیکن اُس ناہنجار نے تو کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’نہیں انکل!‘‘اس نے بہ مشکل اپنے آنسو پیئے تھے۔ پتہ نہیں انکل آفتاب ہمیشہ ہی ایاز ملک سے بدگمان کیوں رہتے تھے۔ شاید وہ جانتے تھے۔
ٹھیک ایک ماہ بعد نینا عادل نے اس کے ہاتھ میں پاکستان کا ٹکٹ تھمایا تھا۔
’’دو دن بعد تمہاری فلائٹ ہے۔ میں نے آجی کو بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں آ سکتا۔ تمہیں کچھ خریدنا ہو یا اپنے اپارٹمنٹ سے سامان لانا ہو تو حذیفہ کے ساتھ چلی جانا۔‘‘ اس نے اپنے بڑے بیٹے کا نام لیا تھا۔ ’’میں آج بہت بزی ہوں۔ یہ کمبخت پیسہ دیتے ہیں لیکن کام بھی گدھوں کی طرح لیتے ہیں۔‘‘
لیکن اُسے کیاخریدناتھا بھلا۔ اور پھر اس کے پاس رقم بھی کہاں تھی۔ اور اپنا ضروری سامان تو وہ پہلے ہی جا کر لے آئی تھی۔ چند جوڑے کپڑے ہی تو تھے بس۔ زیور کے نام پر دو چوڑیاں ہاتھوں میں تھیں اور ایک لاکٹ سیٹ تھا جو وہ وہاں سے پہن کر آئی تھی۔
’’آجی سے بات کرو گی۔۔۔۔۔؟‘‘ شام کو جب نینا آفس سے آئی تو اس نے پوچھا تھا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ میں بھلا کیا کروں گی؟‘‘ ان چار سالوں میں بھلا کہاں اس نے خود سے ایاز ملک سے بات کی تھی جو اب کرتی۔
’’ایلی۔۔۔۔۔!‘‘ نینا نے اس کے ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا تھا۔ ’’تم جب پاکستان جائو تو سب کچھ بتا دینا اپنے والدین کو اور اپنی زندگی مزید برباد مت کرنا۔ آجی سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ وہ بچپن سے ہی ایسا ہے۔ ضدی اور اکھڑ سا۔ جس بات پر اڑ جائے، اڑ جاتا ہے۔ ورنہ تم میں کیا نہیں ہے۔ اور نہیں تو اپنی امی کو تو بتا سکتی ہو نا سب کچھ۔‘‘ اُسے خاموش دیکھ کر نینا عادل نے کہا تھا۔
’’میری امی، میری اسٹیپ مدر ہے۔‘‘ اس نے پہلی بار نینا عادل کو بتایا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔ تب ہی تو۔‘‘ نینا عادل نے ہونٹ سکیڑے تھے۔ ’’اتنی کم عمری میں تمہیں اس بندھن میں باندھ دیا گیا۔ سولہ سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے شادی کی۔‘‘
’’اُس روز میں اپنے سکول سے رزلٹ کارڈ لینے گئی تھی اپنی فرینڈ کے ساتھ۔ میرے بہت اچھے نمبر تھے۔ اور بڑے بھیا نے کہا تھا وہ مجھے کنیئرڈ کالج میں داخلہ دلوا دیں گے۔ لیکن جب واپس آئی تو بوا خیرن نے کہا، مجھے ابی جان ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں۔‘‘
اُس روز اس نے پہلی بار نینا عادل کو اپنی شادی کا احوال بتایا تھا۔ نینا دھیان سے سن رہی تھی۔
’’اور جب میں ڈرائنگ روم میں آئی تو وہاں میں نے آفتاب انکل کو بھی ابی جان کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ اس سے پہلے میں نے اپنے ہوش میں صرف دو بار انہیں دیکھا تھا۔ ایک بار بڑے بھیا اور ایک بار چھوٹے بھیا کی شادی پر۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میری امی کی ڈیتھ پر وہ ہمارے گھر میں تین چار دن رہے تھے اپنی مسز کے ساتھ۔ لیکن مجھے کچھ یاد نہیں آیا تھا۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے۔ میں سلام کر کے کچھ دیر یوں ہی کھڑی رہی۔ میرے ہاتھ میں میرا رزلٹ کارڈ تھا۔
’’ادھر بیٹھو، میرے پاس آ کر۔‘‘
میں جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی تھی۔ انہوں نے مجھ سے میرا رزلٹ کارڈ لے کر دیکھا تھا۔ مجھے مبارکباد دی اور پانچ سو روپے دیئے۔ پھر ابی جان کی طرف دیکھا تھا۔
’’بہتر تو تھا اسفند! کہ تم اسے کم از کم انٹر کرنے دیتے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ابی جان کے چہرے پر سختی تھی۔ ’’اگر تمہیں انکار ہے تو پھر میں کل ہی اس کا نکاح پڑھا دیتا ہوں زریاب خان سے۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ میں نے انکار کب کیا ہے؟ تم تیاری کرو۔ آج پیر ہے نا۔ آج سے ٹھیک چھ دن بعد میں اتوار کو بارات لے کر آ رہا ہوں۔ بلکہ تیاری بھی کیا کرنا ہے، اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس۔‘‘
’’تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا آفتاب! بعد میں نہ کہنا دوست نے دھوکا دیا۔ میں نے تمہیں ساری بات بتادی ہے اور زریاب کو انکار نہیں۔ وہ تمہاری بھابی کی بات ٹال نہیں سکتا۔‘‘
میں ہونق سی بیٹھی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ تب انکل آفتاب نے ابی جان سے کہاتھا بلکہ درخواست کی تھی۔
’’اسفند! کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں اپنی بیٹی سے کچھ دیر تنہائی میں بات کر لوں؟‘‘ ابی جان اُٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ تم بات کرو۔ میں تمہاری بھابی کو بتا دوں۔ کہیں وہ چلی ہی نہ گئی ہو۔ آج اُسے پنڈی جانا تھا۔‘‘

 




And Your Lord Never Forget
(#6)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:16 AM

تب آفتاب انکل مجھ سے میری دلچسپیاں پوچھتے رہے اور باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا تھا۔
’’تمہیں اپنے گھر میں سب سے اچھا کون لگتا ہے؟‘‘
’’بڑے بھیا۔‘‘ میں نے فوراًکہا تھا۔ ’’اور بوبی اور پنکی بھی اچھے لگتے ہیں۔‘‘
’’اور وہ آرب مصطفی؟۔۔۔۔۔ وہ کیسا ہے؟‘‘
’’بہت لڑاکا ہے۔۔۔۔۔ بھیا سے بچپن میں بہت لڑتا تھا، اس لئے مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا۔ ویسے ہے بھی سڑیل سا۔ اس کی چھوٹے بھیا، بڑے بھیا کسی سے بھی دوستی نہیں ہے۔ سب سے جلتا ہے وہ۔ اور چھوٹی امی اسے کسی سے بات بھی نہیں کرنے دیتیں۔ حالانکہ بڑے بھیا نے تو چاہا تھا کہ دوستی کر لیں اس سے۔ لیکن انکل! اس نے بڑے بھیا کو بالکل لفٹ نہیں کروائی۔ اور مجھے تو زہر لگتا ہے وہ۔ اس نے شاید انوشہ کو بھی منع کر دیا ہے۔ وہ بھی مجھ سے بات نہیں کرتی۔‘‘
تب آفتاب انکل نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’آج سے میں نے تمہیں اپنی بیٹی بنا لیا ہے۔ تمہیں اپنے بیٹے کی دلہن بنا کر اپنے گھر لے جائوں گا۔‘‘
میری پلکیں جھک گئی تھیں۔ مجھے آفتاب انکل سے بے تحاشا شرم آئی تھی اور وہ ہنس دیئے۔ میں صرف سولہ سال کی تھی۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ شادی سے متعلق میرے ذہن میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ ایک خوبصورت مرد کا ساتھ، اچھے اچھے کپڑے، گہنے اور سیر و تفریح۔ میں نے شابی بھیا کو بڑے بھیا کی سنگت میں بہت خوش دیکھا تھا۔ شابی بھابی میرے ابی کی کزن کی بیٹی تھیں۔ بڑے بھیا ایک بار جھنگ گئے تھے تو ان کے لبوں پر ہر وقت شابی بھابی کا ہی نام رہنے لگا تھا۔ ان کی والدہ کو وہ خالہ جان کہتے تھے۔
’’خالہ جان کی بیٹی شہاب بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔ بہت خوب صورت، سلیقہ مند۔ اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔‘‘
’’یہ شہاب کیا نام ہوا؟‘‘ چھوٹے بھیا نے مذاق اُڑایا تھا۔ ’’تصور میں قدرت اللہ شہاب آ جاتے ہیں۔‘‘
لیکن بڑے بھیا کو تو جانے خالہ نے کیا گھول کر پلایا تھا کہ انہوں نے شادی کی رٹ لگا دی۔ اور ابھی پڑھ ہی رہے تھے کہ شادی کر لی۔ خالہ جان نے ابھی جان کو بھی ہاتھ میں کر لیا تھا کہ جو وہ فوراً ہی رضامند ہو گئے۔ اور چھوٹے بھیا کیوںپیچھے رہتے۔ بڑے بھیا کی شادی کے دو سال بعد وہ بھی اپنی ایک کلاس فیلو پر مر مٹے۔ اور یوں روشی بھابی بھی اس گھر میں آ گئیں۔ چھوٹی امی نے غیرت دلائی۔
’’لو۔۔۔۔۔ بہن ابھی بیٹھی ہے اور بھائی شادی رچا بیٹھے۔‘‘
’’بہن کا جب وقت آئے گا تو اس کی شادی ہو جائے گی۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘ چھوٹے بھیا منہ پھٹ تھے۔
’’چھوٹے بھیا کی جب شادی ہوئی تو میں آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی۔۔۔۔۔ میں تو خوش تھی نینا عادل! کہ میری شادی ہو رہی ہے۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ ایک سزا ہے جو مجھے بھگتنی ہے۔ چھوٹی امی راولپنڈی جا چکی تھیں۔ ابی جان نے آفتاب انکل کو بتایا۔
’’دراصل ان کی رشتے کی چچا کا انتقال ہو گیا ہے اور انہیں جانا تھا۔ لیکن خیر، تین چار دن تک آ جائیں گی۔ تم اتوار کو بارات لا سکتے ہو۔‘‘
انہوں نے مجھے جانے کا اشارہ کیا اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
’’ہائے، اتنی جلدی۔‘‘ ابی جان نے آفتاب انکل کے جانے کے بعد سب کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔ بڑے بھائی نے احتجاج کیا۔
’’ایلی ابھی بہت چھوٹی ہے ابی جان!‘‘
’’کوئی چھوٹی نہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی چاند چڑھائے، میں اسے عزت و آبرو کے ساتھ رخصت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے دونوں بھابیوں سے کہا تھا کہ وہ ان چنددنوں میں کچھ کپڑوں کی شاپنگ کر لیں میرے لئے۔
پھر شابی بھابی اور روشی بھابی نے سات آٹھ ریڈی میڈ جوڑے خرید لئے۔ ابی جان، شابی بھابی کو ساتھ لے کر ایک سیٹ اور چوڑیاں بھی لے آئے تھے۔ مجھے اپنا ویڈنگ ڈریس کچھ خاص پسند تو نہیں آیا تھا لیکن خاموش رہی۔ ابی جان نے ایک ہوٹل میں بارات کے استقبال کا انتظام بھی کر لیا تھا۔
’’بارات کے ساتھ کچھ زیادہ لوگ نہیں ہوں گے۔ صرف پچاس ساٹھ۔‘‘ انہوں نے بڑے بھیا کو بتایا تھا۔
جس روز چھوٹی امی راولپنڈی سے آئی تھی، اس روز روشی بھابی لائونج میں ڈھولکی رکھے گانے گا رہی تھیں اور میں پاس ہی پیلا دوپٹہ اوڑھے بیٹھی تھی۔ روشی بھابینے چھوٹے بھیا سے کہہ کہہ کر

 




And Your Lord Never Forget
(#7)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:17 AM


ڈھولکی منگوائی تھی کہ کچھ تو پتہ چلے کہ اس گھر میں شادی ہو رہی ہے۔ چھوٹی امی انوشہ کا ہاتھ تھامے لائونج میں حیران سی کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھیں اور چھوٹی بھابی انہیں دیکھ کر بھی انجان بنی ہوئی تھیں۔
’’یہ ڈھولکی کس خوشی میں بجائی جا رہی ہے؟‘‘
’’شادی ہو رہی ہے۔‘‘
’’کس کی؟۔۔۔۔۔ کیا اپنے میاں کی کروا رہی ہو؟‘‘
’’میرا میاں بے چارہ ایک ہی کر کے رچ گیا ہے۔‘‘ چھوٹی بھابی بہت موڈ میں تھیں۔ چھوٹے بھیا نے کل ہی انہیں کنگن بنوا ک دیئے تھے۔
’’ایلی کی شادی ہے۔‘‘ شابی بھابی نے بالآخر ان کا تجسّس دور کیا تھا۔
’’ایلی کی؟۔۔۔۔۔ لیکن ایسی کیا جلدی تھی اسفند کو؟۔۔۔۔۔ کہا تو تھا میں نے، زری کی بیوی کا چالیسواں ہو جائے تو رخصتی کریں گے۔ لوگ کیا کہیں گے بیوی کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور دوسری لے آیا۔‘‘
’’لیکن چھوٹی امی! ایلی کی شادی آپ کے خالہ زاد بھائی زریاب خان سے نہیں بلکہ آفتاب انکل کے بیٹے سے ہو رہی ہے۔‘‘
ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’اور وہ جو زریاب خان کو میں نے زبان دی تھی؟‘‘
’’زریاب خان کو زبان دیتے آپ کو انوشہ کا خیال نہیں آیا تھا؟۔۔۔۔۔ ایلی بھی انوشہ جیسی ہی ہے۔ کیا انوشہ کی شادی آپ ساٹھ سالہ بڈھے سے کر سکتی ہیں؟‘‘
بڑے بھیا کم بولتے تھے لیکن جب بولتے تھے تو چھوٹی امی بول نہیں پاتی تھیں ان کے سامنے۔
’’اتنا ظلم نہ کیجئے چھوٹی امی! کہ آسمان بھی رو پڑے۔‘‘
میں تو ساکت بیٹھی تھی۔ اگر آفتاب انکل مجھے ابی جان سے نہ مان لیتے تو۔۔۔۔۔ زریاب خان کے تصور سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ ایک بار دیکھاتھا میں نے اُسے جب وہ چھوٹی امی سے ملنے آیا تھا۔
امی اس وقت تو چپ کر گئی تھیں۔ لیکن بعد میں ابی جان سے خوب لڑی تھیں۔ لیکن ابی جان نے ان کی لڑائی کی پرواہ نہیں کی تھی اور میں ایاز ملک کی دلہن بن کر ساہیوال آ گئی تھی۔
ساہیوال میں آفتاب انکل کی حویلی اتنی بڑی تھی، اتنے سارے ملازم تھے۔ انکل اور آنٹی بہت چاہتے تھے مجھے۔ لیکن ایاز ملک بہت اُکھڑا اُکھڑا سا رہتا تھا۔ کچھ ناراض اور خفا خفا سا۔ شادی کے صرف پندرہ دن بعد وہ یہاں آ گیا تھا اور میں ادھر حویلی میں ہی رہی۔
پھر چار ماہ بعد اس نے مجھے یہاں بلا لیا اور یہاں آتے ہی پہلی رات اس نے مجھ سے کہہ دیا کہ میں اس پر مسلط کی گئی ہوں اور وہ اپنے ڈیڈ کی وجہ سے یہ گلے پڑا ڈھول بجانے پر مجبورہے۔ ورنہ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔‘‘
نینا عادل نے بہت خاموشی سے اس کی ساری بات سنی تھی اور تاسف سے اسے دیکھا۔
’’یہ سب تمہاری اسٹیپ مدر کی سازش لگتی ہے۔ انہوں نے یقینا تمہارے فادر کو تمہارے خلاف ورغلایا ہو گا اور وہ تمہاری شادی زریاب خان سے کرنے لگے ہوں گے۔ اور بالکل فلمی انداز میں چچا جان نے انٹری دے کر تمہیں اس خونخوار شخص سے بچا لیا اور اپنے شہزادے کے لئے مانگ لیا۔ یہ الگ بات کہ یہ شہزادہ تمہارے لئے ولن ثابت ہو رہا ہے۔‘‘
نینا عادل ہنسی تھی۔ لیکن وہ ہنس بھی نہیں سکی تھی۔
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا نینا عادل! کہ میں یہاں ہی رہ جائوں؟۔۔۔۔۔ کہیں جاب کر لوں؟۔۔۔۔۔ ایاز ملک سے دور کہیں۔۔۔۔۔؟‘‘
’’نہیں میری جان!۔۔۔۔۔ اکیلی لڑکی ہر جگہ غیر محفوظ ہے۔ میں تمہیں کیا بتائوں، میں نے کیا کیا نہیں سہا۔ وہاں ورجینیا میں سیٹل تھی میں۔ تنخواہ بھی یہاں سے زیادہ تھی۔ لیکن پھر میرا باس میرے پیچھے پڑ گیا۔ مجھ دو بچوں کی ماں کے پیچھے۔ یہاں بڑی عجب دنیا ہے ایلیا!۔۔۔۔۔ وہاں پاکستان میں تمہارے لئے تحفظ ہے۔ وہاں تمہارے بھائی ہیں۔ سگے بھائی۔ ایاز میرا سگا بھائی نہیں ہے لیکن پھر بھی بھائی ہی سمجھا ہے اسے۔ میں نے اسے بتایا اپنے باس کے متعلق۔ اس نے کہا میں فوراً واشنگٹن آ جائوں۔ پھر اس نے میری جاب اور اس اپارٹمنٹ کا انتظام کیا۔ تمہارے ساتھ وہ جیسا بھی ہے، میرا تو بھائی ہے۔ احترام کرتا ہے میرا اور مجھ سے بھائیوں جیسی محبت کرتا ہے۔ تم نے ایک ہی حویلی میں بچپن کے دن گزارے ہیں، اکٹھے۔ تمہارے لئے بہتر

 




And Your Lord Never Forget
(#8)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:17 AM

ہے کہ تم پاکستان چلی جائو۔ اپنوں میں۔ آجی میری ہر بات مانتا ہے۔ لیکن تمہارے معاملے میں میری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔‘‘
…٭٭٭…
اُس کی فلائٹ لاہور کی تھی۔
آفتاب انکل نے لاہور فون کر کے فلائٹ نمبر وغیرہ بتا دیا تھا۔
’’کچھ دن اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہ لو۔۔۔۔۔ جب ساہیوال آنا ہو، فون کر دینا، لے جائوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
وہ بڑے بھیا کے ساتھ ایئرپورٹ سے گھر آ گئی تھی۔ اور بڑے بھیا نے اسے کمرے میں چھوڑ دیا تھا۔ فرسٹ فلور کا یہ وہی کمرہ تھا جس میں شادی سے پہلے وہ رہتی تھی۔ لیکن اب کس قدر نامانوس لگ رہا تھا۔ کمرے میں دو دروازے تھے۔ ایک باہر لائونج میں کھلتا تھا اور دوسرا ٹیرس پر۔۔۔۔۔ اس وقت وہ ٹیرس میں رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔ نیچے لان سے بچوں کی ہنسی اور شور کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ اُٹھی اور واپس کمرے میں آ گئی۔ لائٹ جلا کر کمرے کا جائزہ لیا، ایک بیڈ، ایک ٹو سیٹر صوفہ، ایک رائٹنگ ٹیبل اور چیئر۔ نہ ٹیبل پر کچھ کتابیں تھیں اور نہ ہی وارڈروب میں کسی کے کپڑے لٹک رہے تھے۔
’پتہ نہیں میرے بعد اس کمرے میں کون رہ رہا تھا۔‘
اُس نے بیگ کھول کر اپنے کپڑے وارڈروب میں لٹکائے۔ یکایک اُس کے پیٹ میں اینٹھن ہوئی۔ بھوک۔۔۔۔۔ ہاں، اُسے بھوک لگ رہی تھی۔ جہاز میں بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بس چائے اور ایک سلائس لیاتھا۔ اور کیا کسی کو خیال نہیں کہ اسے اس گھر میں آئے بارہ گھنٹے ہو گئے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ تھکی ہوئی تھی اور سو گئی تھی۔ لیکن اب اسے جاگے ہوئے بھی چار پانچ گھنٹے ہو گئے تھے۔
’شاید وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں سو رہی ہوں۔ مجھے خود ہی باہر جانا چاہئے۔ آخر یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔۔ میرے باپ کا گھر۔‘
اس گھر سے ان چار سالوں میں کسی نے اُسے فون نہیں کیا تھا۔ سوائے بڑے بھیا کے۔ اور بڑے بھیا نے بھی کتنی بار فون کیا ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ بار۔ کسی نہ کسی عید پر، پنے دوسرے بچے کی پیدائش پر اور بس۔
اُس نے ایک جوڑا نکالا اور واش روم میں گھس گئی۔ یہ جوڑا اُسے نینا عادل نے دیا تھا آتے ہوئے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی دو تین جوڑے دیئے تھے۔ اس کے کپڑے دیکھ کر انہیں تاسف ہوا تھا۔ وہی پاکستان سے لائے ہوئے ریشمی جوڑے، چند شرٹس اور ایک دو جینز۔
’’یہ اتنی لمبی لمبی قمیضوں کا تو اب فیشن ہی نہیں رہا ایلا جان!۔۔۔۔۔۔ افوہ، آجی نے تمہیں کس جرم کی سزا دی ہے۔‘‘ اُنہیں ایاز پر بہت غصہ تھا۔
’’ایک دفعہ ٹیکساس سے آئے تو۔ میں کان کھینچوں گی اس کے۔‘‘
اور اب کیا فائدہ۔ اب تو وہ جا رہی تھی۔
…٭٭٭…
شاور لے کر گیلے بال یونہی پشت پر کھلے چھوڑکر وہ کمرے سے نکلی۔ لائونج میں کوئی نہیںتھا۔ حالانکہ جب وہ پاکستان سے گئی تھی تو بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کے بیڈ رومزاوپر ہی تھے۔ شاید سب نیچے ہیں۔ کمروں کے بنددروازے دیکھ کر وہ ہولے ہولے سے سیڑھیاں اُترنے لگی۔یہ سیڑھیاں گرائونڈ فلور کے ٹی وی لائونج میں جاتی تھیں۔ نیچے سے ٹی وی کی آواز آ رہی تھی۔ شاید کوئی نیچے بیٹھا ہے۔ شاید ابیجان یا پھر کوئی اور۔ بھابیاں تو باہر لان میں تھیں۔
وہ گھبرائی گھبرائی سی نیچے اُتر رہی تھی۔ سامنے ہی صوفے پر چھوٹی امی بیٹھی تھیں اور ان کے ساتھ شاید انوشہ تھی۔ وہ تھی تو گیارہ سال کی لیکن اپنی عمر سے بڑی لگ رہی تھی۔ جب وہ اس گھر سے گئی تھی تو وہ سات سال کی تھی۔
’’السلام علیکم چھوٹی امی!‘‘

 




And Your Lord Never Forget
(#9)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:18 AM

جب اس نے بالکل ان کے سامنے آ کر انہیں سلام کیا تو انہوں نے نخوت سے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔
’’آئی ہو تم۔۔۔۔۔ کیسی ہو؟‘‘
’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘
چھوٹی امی کے لہجے میں وہی چار سال پہلے والی سرد مہری تھی۔ لگتا تھا جیسے وہ چار سال بعد نہیں آئی بلکہ ابھی ابھی کہیں گئی ہو اور واپس آ گئی ہو۔
اُس نے انوشہ کی طرف دیکھا۔ اس کا جی چاہا وہ اسے گلے سے لگا لے۔ یہ لڑکی اُس کی بہن تھی۔۔۔۔۔ بہن۔
’’انوشہ۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے ہاتھ آگے بڑھائے تھے۔ لیکن انوشہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں آگے کر دی تھیں۔ کیونکہ اس کے دائیں ہاتھ میں ریموٹ تھا۔
’’ہائے۔۔۔۔۔‘‘ وہ چیونگم چبا رہی تھی۔ اور وہ جواباً کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
’’اور سب لوگ کہاں ہیں؟‘‘ کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔
’’کہاں ہونا ہے؟۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی تو اس وقت اپنے آفس میں ہوں گے۔ آتے ہی ہوں گے۔ اور تمہارے ابی کچھ دیر پہلے آئے ہیں، آرام کر رہے ہیں۔‘‘
اُس کے دل کودھچکا سا لگا۔ کیا ابی جان کا جی نہیں چاہا ہو گا کہ وہ فوراً ہی مجھ سے ملیں۔ وہ کتنا تڑپ رہی تھی انہیں دیکھنے کو۔
’’اور تمہاری بھابیاں معہ بچگان کے باہرلان میں بیٹھی ہوں گی اور چغلیاں کھا رہی ہوں گی۔‘‘
اُس نے دیکھا، انوشہ نے برا سا منہ بنایا تھا۔ انوشہ نے جینز پر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور بال کٹے ہوئے تھے، چھوٹے چھوٹے سے۔ گویا ان چار سالوں میں پاکستان میںلوگ کافی ایڈوانس ہو گئے ہیں اور ابی جان بھی۔ ورنہ وہ تو سکول چادر اوڑھ کر جاتی تھی۔
تب ہی کچن کے دروازے سے خیرن بوا آتی دکھائی دیں۔ وہ بے تابانہ ان کی طرف بڑھی تھی۔
’’میری بچی۔۔۔۔۔!‘‘ خیرن بوا نے اسے گلے سے لگا کر اس کی پیشانی پر چٹ چٹ کئی بوسے دے ڈالے تھے۔ اُسے لگا تھا پہلی بار جیسے وہ اپنوں میں آئی ہے۔ اندر دل جیسے پگھلنے لگا تھا۔
’’کیسی ہیں آپ خیرن بوا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ ان سے الگ ہوئی تو آواز بھرا رہی تھی اور آنکھیں نم تھیں۔
’’بہت سوئیں بیٹا!‘‘ خیرن بوا بھی میلے دوپٹے سے اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھیں۔
’’نہیں بوا! میں تو بہت دیر سے جاگ رہی ہوں۔‘‘
’’لو۔۔۔۔۔ بی بی تو کہہ رہی تھیں، ابھی انوشہ گئی تھی تمہارے کمرے میں۔ سو رہی تھیں تم۔‘‘
’’میں خیرن بوا؟۔۔۔۔۔‘‘ انوشہ نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں تو ابھی کراٹے سینٹر سے آئی ہوں۔ اور میں تو نہیں گئی ایلیا کے کمرے میں۔‘‘
’’بڑی بہن ہے تمہاری۔ باجی کہو۔‘‘ چھوٹی امی نے خوامخواہ اسے ڈانٹا۔
’’لیکن مجھے یادہے اس روز آپ کہہ رہی تھیں کہ ایلیا آ رہی ہے۔ کوئی ضرورت نہیں اسے باجی باجی کہہ کر اس کے پیچھے بھاگنے کی۔‘‘
خیرن بوا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن فوراً ہی انہوں نے منہ پھیر کر ایلیا سے کہا۔
’’ایلی بیٹا! تمہیں تو بھوک لگی ہو گی۔ میں کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔‘‘
’’نہیں بوا!۔۔۔۔۔ کھانا اب رات میں ہی کھائوں گی۔ بس چائے کے ساتھ کچھ دے دیجئے۔‘‘
’’پیٹ میں تو چوہے دوڑ رہے ہوں گے۔‘‘ انوشہ نے اب ریموٹ نیچے رکھ دیا تھا اور دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے ایلیا کا دل جو اس کی طرف سے برا ہوا تھا، اب صاف ہو گیا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ خوامخواہ ہنسی۔ ’’لیکن چائے کے ساتھ کچھ کھا لوں گی تو بھوک کو سہارا مل جائے گا۔ آپ سب چائے پی چکے؟‘‘
’’میرا خیال ہے، چائے پی جا چکی ہے۔‘‘ انوشہ نے جواب دیا۔ ’’کیونکہ جب میں آئی تو بوا ٹیبل سے چائے کے برتن اٹھا رہی تھیں۔‘‘
’’نوشی! تم اُٹھو اب یہاں سے۔۔۔۔۔ تمہارا ٹیوٹر آنے والا ہو گا۔‘‘ چھوٹی امی کی پیشانی پر شکنیں تھیں۔

 




And Your Lord Never Forget
(#10)
Old
Zafina's Avatar
Zafina Zafina is offline
 


Posts: 16,987
My Photos: ()
Country:
Star Sign:
Join Date: Dec 2009
Location: Islamabad
Gender: Female
Default Re: Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   08-01-2012, 12:18 AM


وہ چار سال بعد آئی تھی پھر بھی چھوٹی امی کی پیشانی پر اسے دیکھ کر پہلے کی طرح ہی شکنیں پڑ گئی تھیں۔ جب وہ ذرا سمجھ دار ہوئی تھی تو اس نے ان کے سامنے آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ان کا موڈ اسے دیکھ کر خراب ہو جاتا تھا۔ آج بھی ان کا موڈ بہت خراب لگ رہا تھا۔
’’آج میرے ٹیوٹر کے بھائی کی شادی ہے۔ انہوں نے نہیں آنا۔‘‘
انوشہ نے پھر ریموٹ اٹھا لیا اور اب مختلف چینل بدل بدل کر دیکھ رہی تھی۔ اس کا پورا دھیان ٹی وی کی طرف تھا اور وہ قریب بیٹھی ایلیا سے بے خبر ہو گئی تھی۔ حالانکہ ایلیا کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس سے باتیں کرے۔
تو کیا وہ اٹھ کر باہر لان میں جائے؟۔۔۔۔۔ اُس نے سوچا۔ لیکن پیٹ میں پھر اینٹھن ہوئی۔ نہیں، چائے پی لوں۔
چھوٹی امی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں تو وہ کچن میں آ گئی۔بوا کباب تل رہی تھیں۔ سموسوں کا پیکٹ نکال کر رکھا ہوا تھا۔
’’بس بوا! صرف کباب ہی رہنے دیں۔ اور چائے بنا دیں۔‘‘ اُس نے مڑ کر فریج کو دیکھا، وہ اپنی پرانی جگہ پر ہی تھا۔ فریج سے اس نے ڈبل روٹی نکالی اور سادہ سلائس میں گرم گرم کباب رکھا۔
’’اے لو بٹیا!۔۔۔۔۔ کیچپ تو لیلو۔‘‘
’’نہیں بوا!۔۔۔۔۔ بس چائے بنا دیں۔‘‘ اس نے وہاں ہی کھڑے کھڑے دو کباب اور دو سلائس کھا لئے اور کائونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑی چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے بوا سے باتیں کرنے لگی۔
’’بوا! آپ کچن میں اکیلی ہیں کیا؟۔۔۔۔۔ مونا (منیر) چلا گیا؟‘‘
’’اسے کہاں جانا تھا؟۔۔۔۔۔ موا چھٹی پر گیا ہے چار دن کی۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک یہاں ہی ہے۔ تب تو کہتا تھا، کسی فوجی کے گھر جائے گا، کک بنے گا کسی آرمی والے کا۔‘‘
’’بس گپیں مارتا تھا۔ کہاں جانا تھا اسے۔ اچھی بھلی نوکری کون چھوڑتا ہے؟ اور پھر اتنا سا تو تھا جب اس گھر میں آیا تھا۔‘‘
منیر کچن میں بوا کے ساتھ ان کی مدد کرتا تھا۔ کھانا لگا دیا، چائے گرم کر دی، ٹیبل سمیٹ دی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ چھوٹے بھیا اُسے مونا کہہ کر بلاتے تھے تو وہ بہت چڑچڑ کرتا تھا۔
’’چھوٹے بھیا! بس، کہہ رہا ہوں۔ مونا تو لڑکوں کا نام ہوتا ہے۔ ہمیں آئندہ مت کہئے گا۔‘‘
لیکن چھوٹے بھیا کہتے۔
’’وہ بھی تو مونا ہی ہے نا، وہی جو صبح صبح سلام کرنے آتی ہے اور تالی بجا کر پیسے مانگتی ہے۔‘‘
وہ مزید چڑتا تھا۔ لیکن اس کے چڑنے کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا۔ سب ہی اسے مونا کہنے لگے تھے اب۔
’’اور صفائی کرنے کون آتا ہے؟۔۔۔۔۔ وہی ستاراں یا کوئی اور؟‘‘
’’لو، ستاراں کے میاں نے تو دوسری شادی کر لی تھی۔ اور اسے گائوں واپس بھیج دیا تھا۔‘‘ بوا نے بتایا۔ ’’اب تو ایک لڑکی آتی ہے، چھیما باہر کی صفائی کے لئے۔ لان اور گیراج وہی کرتی ہے۔ اندر اسی چھیما کی بھرجائی آتی ہے ریباں۔ کپڑے بھی وہی دھوتی ہے۔‘‘
’’اور بوا! کبھی مجھے بھی کسی نے یاد کیا؟‘‘ اس نے خالی پیالی کائونٹر پر رکھی۔
’’لو، کب یاد نہیں کیا میں نے۔ ارے بٹیا! تمہیں چلنے تک تو میں نے ہی سنبھالا۔ تمہاری اماں تو بیمار پڑ گئی تھیں ایک دم۔ دل کی بیماری تو انہیں تب ہی لگ گئی تھی۔‘‘ بوا دوپٹے سے آنکھیں پونچھنے لگیں۔
’’بوا! کسی اور نے؟‘‘ اس نے دھیمے سے پوچھا۔
’’لو، اور کس نے یاد کرنا ہے بچی! اپنی ماں نہ رہے تو باپ بھی پرایا ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی تیری ماں جیساتو نہیں ہوتا کہ۔۔۔۔۔‘‘ بوا کچھ کہتے کہتے چپ کر گئیں۔
’’اللہ بخشے تیری ماں بڑی ہمدرد تھی۔ بہت ہی نرم دل۔ ہر ایک کی عزت کرتی تھی۔ ہم نوکروں کا بھی احترام کرتی تھی۔ اللہ جنت میں جگہ دے۔
’’امی۔۔۔۔۔!‘‘

 




And Your Lord Never Forget
Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
baqaihaاnighat, kahawab, novelabhiaik, online, read, seema, urdu

« Previous Thread | Next Thread »

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Read Realistic Qur'an Online zamir Quran 4 07-04-2012 11:28 AM
Online Diploma's learn in Urdu (‘“*JiĢäR*”’) Share Good Websites 0 06-01-2012 11:40 AM
*Read Online Quran* Nida-H Share Good Websites 13 07-29-2010 12:38 PM
URDU KAYBOROD Online RAJA_PAKIBOY Share Good Websites 4 07-29-2010 12:31 PM


All times are GMT +5. The time now is 03:07 AM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG