Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here ! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#11)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ایلیا نے ماں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ سات سال کی عمر میں بچہ اچھا خاصا سمجھ دار ہوتا ہے۔ اس کی امی بہت خوب صورت تھیں۔ لانبے لانبے بال، بڑی بڑی آنکھیں، اونچا لمبا قد، وہ تو کھانے بھی بہت اچھے پکاتی تھیں۔ اُس کے ذہن میں تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اسے امی کی کوئی بات یاد نہیں تھی۔ آنکھیں بند کرتی تو آنکھوں کے سامنے جو شبیہہ آتی تھی وہ سفید لباس میں سجی سنوری امی کی آتی تھی۔ اس روز وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھیں۔ شاید کسی تقریب میں گئی تھیں۔
’’امی! آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ روز ایسے ہی تیار ہوا کریں۔‘‘ اور وہ مسکرا دی تھیں۔ پھر جو شبیہہ ذہن میں آتی تھی وہ آنکھیں موندے چارپائی پر لیٹے اور سفید کفن میں لپٹی۔ اور بس۔۔۔۔۔ ’’بڑے بھیا تو یاد کرتے ہوں گے مجھے۔ اور چھوٹے بھیا؟‘‘ ’’کون جانے بٹیا! اور بھائی تو یوں بھی شادی کے بعد پرائے ہو جاتے ہیں۔ یہ کون سے۔۔۔۔۔‘‘ بوا خالی کپ لے کر سنک کی طرف بڑھ گئیں۔ ’’کچھ خاص کھانے کو دل چاہے تو بتا دو چندا! میں بنا لوں گی۔ وہاں تو وہی موئی ڈبل روٹی ہی کھاتی ہو گی۔‘‘ ’’نہیں بوا!‘‘ وہ یکدم اُداس ہو گئی تھی۔ ’’جو ہو گا کھا لوں گی۔ اور وہاں تو گھر میں سب پکا لیتی تھی میں۔ پاکستانی کھانے وغیرہ۔‘‘ ’’ہائے، جب تمہارے ابا نے تمہارا اچانک بیاہ کر دیا تو تمہیں تو چائے تک بنانا نہیں آتی تھی۔ پھر کس سے سیکھا؟‘‘ ’’وقت سب سکھا دیتا ہے بوا!‘‘ اس کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ تھی۔ اسے کب آتا تھا پکانا کچھ۔ جب ایاز چلا گیا تھا واپس اور وہ حویلی میں تھی تو چچی ان نے سکھایا تھا اسے۔ سالن تو وہ بنا ہی لیتی تھی۔ لیکن روٹی صحیح نہیں بیل سکتی تھی۔ ’’وہاں ملازم نہیں ملتے۔ اور پھر مل بھی جائیں تو بھلا ہمارے کھانے پکا سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے اسے بتایا تھا۔ ’’ایاز بھی خود پکاتا ہے۔ وہاں پاکستانی ریسٹورنٹ ہیں لیکن روز روز باہر کا کہاں کھایا جاتا ہے۔ نینا بھی دور ہے۔ وہاں ہوتی قریب تو مجھے فکر نہیں ہوتی۔ سب سکھا دیتی تمہیں۔‘‘ انہوں نے تھوڑے وقت میں سب کچھ سکھانے کی کوشش کی تھی اسی لئے کئی چیزیں گڈمڈ ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔ کئی بار نمک زیادہ ہو جاتا۔ کھانا صحیح نہ بنتا تو ایاز برتن اُلٹ دیتا۔ ’’کھانا تک بنانا تو آتا نہیں تمہیں۔ پھر کیا خوبی ہے؟ اور تعلیم تمہاری صرف میٹرک۔ آخر تمہارے گھر والوں کو کیا جلدی پڑی تھی؟‘‘ وہ کیا بتاتی؟۔۔۔۔۔ اسے تو خود معلوم نہیں تھا کہ کیا جلدی تھی انہیں۔ وہ تو چھوٹی امی کے ڈر سے کبھی کچن کی طرف گئی ہی نہیں تھی۔ حالانکہ میٹرک کے امتحان کے بعد جب وہ فارغ تھی تو اس کادل چاہتا تھا کہ وہ نئی نئی ڈشیں بنائے۔ …٭٭٭… ’’ارے ہاں بٹیا!‘‘ بوا صافی سے ہاتھ پونچھ کر اس کے قریب آ کھڑی ہوئی تھیں اور سرگوشی کی تھی۔ ’’چار سال تو ہو گئے تمہارے بیاہ کو۔ لیکن ابھی تک خالی خولی جھولی لئے پھرتی ہو۔ کسی ڈاکٹر کو دکھایا وہاں؟‘‘ ’’وہ بوا۔۔۔۔۔!‘‘ وہ ایک دم نروس ہو گئی تھی۔ ’’اچھا خیر، اب یہاں آئی ہو تو کچھ دن رہو گی نا۔ میں تمہاری بھرجائی سے کہوں گی کسی دن ڈاکٹر کے پاس لے جائے تمہیں۔‘‘ ’کچھ دن۔۔۔۔۔۔‘ اُس کا جی چاہا وہ بوا کو بتا دے۔ کم از کم صرف بوا کو وہ وہ کچھ دنوں کے لئے نہیں آئی بلکہ شاید ہمیشہ کے لئے۔ ایاز نے نینا عادل سے کہا تھا۔ ’’آپی! اس سے کہہ دینا اب لوٹ کر نہ آئے یہاں۔۔۔۔۔ تھک گیا ہوں ان چار سالوں میں۔‘‘ لیکن لفظ اس کے حلق میں پھنسنے لگے تھے۔ وہ خاموشی سے کچن سے باہر نکل آئی۔ ’’تمہاری امی کو تمہارا آنا کچھ اچھا نہیں لگا۔ لیکن پرواہ مت کرو۔ تمہارے باپ کا گھر ہے۔ ہزار بار آئو۔‘‘ بوا نے جاتے جاتے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ وہ ایک لمحے کو ٹھٹکی تھی۔ اب امی کو اچھا لگے یا برا، اُسے رہنا تو یہیں تھا۔
![]() And Your Lord Never Forget |
Sponsored Links |
|
(#12)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() وہ لائونج میں کچھ دیر کھڑی انوشہ کو دیکھتی رہی جو اس کی موجودگی سے قطعی بے نیاز بڑے انہماک سے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ لائونج اور سٹنگ روم کا درمیانی پردہ ہٹا کر سٹنگ روم میں آئی۔ شیشے کی دیوار سے باہر لان میں بیٹھی بھابیوں کو دیکھا اور پھر گیٹ کھول کر باہر نکل آئی اور پورچ کی سیڑھیاںاُتر کر لان میں آ گئی۔
’’ہائے ایلا!۔۔۔۔۔ تم جاگ گئیں؟‘‘ ’’اللہ، ہم کب سے تمہارے اُٹھنے کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘ کئی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئی تھیں۔ وہ دھیمے دھیمے چلتی لان کے وسط میں آ گئی۔ پہلے شابی بھابی اور پھر روشی بھابی نے اسے گلے لگایا جبکہ ان کی بہنوں نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ آگے کر دیا تھا۔ ’’اسے پہچانا تم نے؟‘‘ روشی بھابی نے اپنی بہن کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میری بہن ہے اسمائ۔ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔ چار سال پہلے وہ فرسٹ ایئر میں داخل ہوئی تھی جب روشی بھابی اسے لائی تھیں۔ اور اگر وہ یہاں ہوتی تو اس وقت وہ بھی یونیورسٹی میں ہوتی۔ ’’پہچان لیا ہے نا؟‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’اور یہ میری چھوٹی بہن ہے گڑیا۔‘‘ شابی بھابی نے بھی تعارف کروایا۔ ’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ایک سرسری سی نظر گڑیا پر ڈالی تھی۔ شابی بھابی کی تین بہنیں تھیں۔ جب اس کی شادی ہوئی تھی تو ان کی درمیان والی بہن رہ رہی تھی یہاں۔ ’’تمہیں تو گڑیا یاد نہیں ہو گی بالکل۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو بار ہی یہاں آئی تھی تمہارے ہوتے۔‘‘ ’’جی۔‘‘ ’’یہ پڑھتی ہے یہاں۔ اسلامیہ کالج سے بی۔اے کر رہی ہے۔‘‘ ’’لیکن وہاں جھنگ میں بھی تو کالج ہے لڑکیوں کا۔‘‘بے اختیار ہی اس کے لبوںسے نکلا تھا۔ ’’ہاں۔۔۔۔۔ ہے تو۔ لیکن گڑیا لاہور میں پڑھنا چاہتی تھی۔‘‘ خلافِ توقع شابی بھابی نے برا نہیں منایا تھا۔ حالانکہ وہ بات کر کے ازحد ڈر گئی تھی۔ ’’یہاں ایرے غیرے رہ کر پڑھ سکتے ہیں تو پھر گڑیا کیوں نہیں؟ اس کی تو پھر خالہ کا گھر ہے۔ بلکہ دہری رشتہ داری ہے۔ ابی کی طرف سے ماموں کا گھر بھی ہے۔‘‘ ’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ روشی بھابی کا انداز طنزیہ تھا۔ ’’یہ بھی تو کہو نا رشتے کی خالہ۔‘‘ ’’ہوں۔۔۔۔۔‘‘ شابی بھابی ہوں کر کے اس کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں۔ ’’بیٹھو ایلا! تم چار سال بعد بھی ویلی ہی ہو۔ دُبلی پتلی، نازک سی۔ ذرا بھی تو نہیں بدلیں۔‘‘ خود وہ قدرے فربہ ہو گئی تھیں۔ ’’اچھا۔‘‘وہ ہولے سے ہنسی۔ اسے تو لگتا تھا جیسے وہ بہت بدل گئی ہے اور اس نے چار سالوں میں بڑھاپا اوڑھ لیا ہے۔ ’’واقعی ایلا! تم بالکل ویسی ہی ہو۔ لگتا ہی نہیں کہ چار سال امریکہ میں گزار کر ائی ہو۔ جب تم یہاں سے گئی تھیں تب بھی تم ایسے ہی، اسی انداز میں دوپٹہ اوڑھتی تھیں اور آج بھی ویسے ہی اوڑھ رکھا ہے۔‘‘ شابی بھابی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ ’’وہاں تو جینز اور اسکرٹ وغیرہ پہنتی ہو گی۔‘‘ گڑیا نے پوچھا۔ ’’نہیں۔۔۔۔۔ نہیں تو۔‘‘ وہ گھبرا گئی۔ ’’یہی شلوار قمیض۔‘‘ چند ایک بار جب وہ باہر گئی تھی تو اس نے جینز پہنی تھی جو ایاز اس کے لئے لایا تھا۔ ’’جب کبھی اسٹور پر جائو گروسری وغیرہ لینے تو اس ڈریس میں نہ جایا کرو۔ لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں اس عجوبے کو۔‘‘ وہ تو کم ہی گھر سے نکلتی تھی۔ ایاز خود ہی ویک اینڈ پر سامان لے آتا تھا۔ کبھی مجبوراً نکلنا پڑتا تھا۔ ’’کیا باہر بھی انہی کپڑوں میں جاتی تھیں؟‘‘ ’’میں بہت کم باہر گئی ہوں۔‘‘ ’’ہیں۔۔۔۔۔ کیا ایاز نے قید کر کے رکھا ہوا تھا؟‘‘ روشی بھابی نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا تھا۔
![]() And Your Lord Never Forget |
(#13)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ’’نن۔۔۔۔۔ نہیں۔‘‘ وہ گھبرا گئی۔ ’’میں خود ہی نہیں جاتی تھی۔‘‘ ’’چار سال امریکہ میں رہ کر آئی ہو اور ویسی ہی ہو، بدھو کی بدھو۔‘‘ روشی بھابی نے قہقہہ لگایا۔ ’’کیاخبر سن رہی ہو آپا؟‘‘ گڑیانے شابی کے کان میں سرگوشی کی تھی جو سرگوشی ہرگز نہ تھی۔ ’’بوبی!۔۔۔۔۔ بوبی! ادھر آئو۔ پھپھو سے ملو۔‘‘ شابی بھابی نے اس کی بات گویا سنی ان سنی کرتے ہوئے بوبی کو آواز دی۔ بوبی کے ساتھ پنکی اور بدر بھی آ گئے تھے۔ اس نے بوبی اور پنکی کو پیار کر کے بدر کی طرف دیکھا تھا جو قدرے پیچھے کھڑے تھا۔ ’’یہ بدر ہے۔‘‘ شابی بھابی نے بتایا۔ ’’ہاں، پہچان لیا ہے میں نے۔‘‘ اس نے بدر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ’’کیسے ہو چندا؟‘‘ ’’ٹھیک ہوں۔‘‘ اس کے انداز میں کوئی گرمجوشی نہ تھی۔ ’’میں تمہاری آپی ہوں۔۔۔۔۔ پتہ ہے تمہیں؟‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ انوشہ نے بتایا تھا صبح کہ ہماری بہن آئی ہیں امریکہ سے۔ لیکن مما کہہ رہی تھیں، سوتیلی آپی ہیں۔‘‘ اس نے بات مکمل کر کے فخر سے سب کی طرف دیکھا جیسے اپنی معلومات پر بہت فخر ہو اُسے۔ ایلیا کے دل کو کچھ ہوا۔ ’’کیا ضروری ہے کہ رشتوں کے ساتھ یہ سوتیلا کا لفظ بھی لگا ہوتا؟ ۔۔۔۔۔ کیا تھا کہ یہ بے حد پیارا سا بچہ اسے صرف آپی کہتا، سوتیلی آپی نہیں۔ ’’بدر! ذرا اندر جا کر بوا سے کہو کہ ایلا کے لئے چائے بنا دے۔۔۔۔۔ کھانا تو تم اب رات کو ہی کھائو گی نا؟‘‘ بدر سے بات کر کے وہ یکدم ایلیا کی طرف مُڑ گئی تھی۔ ’’میں کیوں جائوں؟‘‘ بدر نے صاف انکار کر دیا۔ ’’بوبی کو بھیجو نا۔‘‘ ’’ابی جان اور چھوٹی امی کے لاڈ نے بگاڑدیا ہے اسے۔‘‘ شابی بھابی بڑبڑائیں۔ ’’بھابی! میں چائے پی کر آئی ہوں۔‘‘ ’’ہیں۔۔۔۔۔ کیا واقعی؟‘‘ روشی نے اسے دیکھ کر آنکھیں پھاڑیں۔ غالباً ہر بات پر آنکھیں پھاڑنے کی عادت ہو گئی تھی اسے۔ ’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ جیسے شرمندہ ہو گئی۔ ’’بوا نے بنا دی تھی۔‘‘ ’’اچھا اچھا۔ اور چھوٹی امی سے ملاقات ہوئی؟‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ انوشہ اور چھوٹی امی لائونج میں ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ ابی جان البتہ کمرے میں تھے۔ چھوٹی امی کہہ رہی تھیں کہ وہ تھکے ہوئے آئے ہیں آفس سے۔ آرام کر رہے ہیں۔‘‘ ’’لو۔‘‘ روشی اور شابی بھابی ہنسنے لگیں۔ ’’وہ تو آج آفس گئے ہی نہیں۔ صبح سے گھر پر ہی تھے۔ چھوٹی امی کی طبیعت ناساز تھی نا۔ ان کی ناز برداری کر رہے تھے۔‘‘ بدر نے پائوں پٹخا۔ ’’میں بتائوں گا امی کو سب۔‘‘ وہ اپنی بال لے کرچلا گیا۔ ’’نو سال کا ہے۔ لیکن پورا فتنہ ہے۔ ایلی! اس سے بچ کر رہنا۔‘‘ شابی بھابی نے تنبیہہ کی۔ وہ کچھ بولے بنا لان سے باہر جاتے بدر کو دیکھنے لگی۔ پنکی اور بوبی اس کے قریب آ گئے تھے۔ اس نے پنکی کو گود میں بٹھا لیا اور دونوں سے باتیں کرنے لگی۔ ان کی چھوٹی چھوٹی معصوم باتیں اسے اچھی لگ رہی تھیں۔ ’’بھابی! زین کہاں ہے؟‘‘ اس نے بوبی سے باتیں کرتے کرتے پوچھا۔ ’’سو رہا ہے۔۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا ہے۔ اب رات تک سوتا رہے گا۔‘‘ ’’کیسا ہے وہ؟‘‘ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’بوبی کی طرح ہی ہے۔ لیکن اس کی آنکھیں بدر جیسی ہیں۔ کچھ نیلی نیلی سی۔‘‘ ’’سچ، کتنا کیوٹ ہو گا نا وہ۔‘‘ وہ اس وقت ہر بات جیسے بھول گئی تھی۔
![]() And Your Lord Never Forget |
(#14)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ’’ہاں۔۔۔۔۔۔ سب ہی اسے پیار کرتے ہیں۔‘‘ شابی بھابی کے لہجے سے فخر جھلکنے لگا تھا۔ اس نے دیکھا روشی بھابی کاچہرہ پھیکا پڑا ہوا تھا۔ پنکی پانچ سال کی ہو گئی تھی اور ان کی بڑی شدید خواہش تھی کہ وہ ایک بیٹے کی ماں بن کر معتبر ہو جائیں لیکن شاید ابھی اللہ کو منظور ہی نہ تھا۔ ’’اور یہ تم جو دوسروں کے بچوں پر اپنی محبت لٹا رہی ہو، خود کیا یوں ہی رہنا ہے؟‘‘ روشی نے اپنا غم کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ شرمندہ سی ہو گئی۔ اب وہ کیا کہتی کہ ایاز ایسا نہیں چاہتا تھا۔ ’’بچے ہو جائیں گے تو پابند ہو جائوں گا۔ مگر تم صرف ابا کی زندگی تک ہو میرے گھر میں، یہ یاد رکھو۔ اس لئے مجھے تم سے بچے نہیں چاہئیں۔‘‘ ’’دوسروں کے کہاں، اپنے ہی تو ہیں۔ اپنے بھائی کے بچے۔‘‘ ’’ہاں، خیر وہ تو ہیں۔ لیکن تم کیا فیملی پلانن پر عمل کر رہی ہو؟‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔ بس، وہ اللہ کی مرضی۔‘‘ وہ پھر نروس ہو گئی۔ ان سارے سوالوں کے جواب تو اسے دینے ہی تھے اور نہ جانے کتنے اور سوالوں کے۔ ’’پھپھو! آپ میرے لئے کیا لائی ہیں امریکہ سے؟‘‘ بوبی نے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ ازحد شرمندہ ہو گئی تھی۔ اس کے پاس تھا ہی کیا۔ ایاز نے تو کبھی اسے ایک پیسہ تک نہیں دیا تھا۔ ہاں ضرورت کی ہر چیز لے آتا تھا وہ۔ اگر وہ شاپنگ کے لئے جاتی تو اتنی ہی رقم دیتا تھا جو خرچ ہو جاتی تھی۔ نینا عادل نے کہا تھا۔ ’’ایلا! اپنے گھر والوں کے لئے کچھ گفٹ لے لو۔‘‘ ’’گفٹ کیا کرنے ہیں؟‘‘ وہ نینا عادل پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ’’سب کچھ پاکستان میں بھی مل جاتا ہے۔‘‘ ’’پھر بھی۔۔۔۔۔ اتنے سالوں بعد جا رہی ہو تو کچھ لے لینا ضرور۔ عزیز رشتے داروں کو انتظار ہوتا ہے کہ جو باہر سے آیا ہے ضرور کوئی گفٹ لایا ہو گا۔‘‘ پھر جیسے نینا عادل جان گئی تھی سب کچھ۔ ایئر پورٹ جانے سے پہلے اس نے ایک بھرا ہوا بیگ اس کے حوالے کیا تھا۔ ’’اس میں کچھ گفٹ ہیں تمہارے بہن بھائیوں کے لئے۔ میں کل آفس سے اُٹھ کر خرید لائی تھی۔ قت نہی تھا، زیادہ کچھ نہیں لے سکی تاہم۔۔۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ ’’نینا عادل! میں تمہیں کبھی نہیں بھول پائو گی۔‘‘ ’’پاگل نہ ہو تو۔ تمہارے ساتھ میرا ڈبل رشتہ ہے۔ آجی کی نسبت سے تم میری بھابی ہو اور میں نے تمہیں اپنی چھوٹی بہن بھی بنایا ہے۔ میری کوئی بہن نہیں تھی۔ اور میں سوچتی تھی اگر میری بہن ہوتی تو میں اپنے دکھ سکھ اس سے کہتی۔ اور اللہ نے شاید میری دعا سن لی کہ مجھے تم مل گئیں۔ پتہ ہے ایلا! جب حذیفہ کے پاپا بستر پر تھے تو میں نے بڑی اذیت بھری زندگی گزاری۔ بچے چھوٹے تھے۔ مجھے کام بھی کرنا تھا، ان کی دیکھ بھال، حذیفہ کے پاپا کی تیمارداری۔ وہ بستر پر پڑے پڑے بہت چڑچڑے ہو گئے تھے۔ مجھے ذرا دیر ہو جاتی تو شک کرنے لگتے تھے۔ بہت مشکل دن تھے وہ۔ اور میں کسی سے اپنا دکھ کہہ نہیں سکتی تھی۔ لیکن اب تم ہو نا میری بہن۔ مجھے ہمیشہ اپنی بڑی بہن سمجھنا۔ اور دیکھو، پاکستان جا کر مجھے بھول نہ جانا۔ اور مجھ سے رابطہ رکھنا۔‘‘ اب پتہ نہیں اس بیگ میں کیا کیا تھا۔ بوبی کے مطلب کی کوئی چیز تھی بھی یا نہیں۔ ’’میرے لئے تو پھپھو گڑیا لائی ہوں گی۔ ہے نا پھپھو؟‘‘ پنکی کہہ رہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی، کیا ہی اچھا ہوتا بڑے بھیا اس کے بیگ کے ساتھ وہ دوسرا بیگ بھی لے آتے۔ لیکن انہوں نے ڈگی سے ایک ہی بیگ نکالا تھا۔ ’’دوسرا ابھی لے آتا ہوں۔‘‘ اور اب پتہ نہیں وہ ابھی تک ان کی ڈگی میں ہے یا انہوں نے آفس جانے سے پہلے نکال کر کہیں رکھوا دیا ہے۔ ’’چلو اب جلدی کرو ندیدی! جیسے تم نے پہلے کبھی گڑیا تو دیکھی ہی نہیں۔‘‘ روشنی نے پنکی کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ ’’بھابی! بچے ہیں۔ کیا ہوا؟‘‘ اس کی آواز دبی دبی سی تھی۔ ’’زین جاگ نہ گیا ہو۔‘‘ شابی بھابی اُٹھ کھڑی ہوئیں تو ان کے پیچھے ہی روشی بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ’’پنکی کے پپا آنے والے ہوں گے۔۔۔۔۔ ان کے کپڑے وغیرہ نکال کر رکھوں۔ آتے ہی چینج کرتے ہیں۔‘‘ وہ لان میں اکیلی کھڑی رہ گئی تھی۔ صرف لان کے ایک کونے میں بدر کھڑا اپنی بال کو کک لگا رہا تھا۔ وشی، گڑیا اور اسماء بھی اس کے پیچھے جا چکی تھیں اور جاتے جاتے بوبی اور پنکی کو بھی لے گئی ShareThis تھیں۔ …٭٭٭… ’’دونوں بھابیاں بڑی شاطر ہیں۔ اور ان کی بہنیں بھی۔‘‘ بدر بال کو کک لگاتا اس کے پاس آ گیا تھا۔ ’’مما کہتی ہیں ان سے دور رہا کرو۔‘‘ وہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھی۔ ’’جب اکیلی ہوتی ہیں تو مما کے خلاف بولتی رہتی ہیں۔ میں بھی سب مما کو بتا دیتا ہوں۔‘‘ اس کا انداز فخریہ تھا۔ وہ حیران سی اس ننھے بچے کو دیکھ رہی تھی۔ ’’یہ تو بری بات ہے کسی کی چغلی کھانا۔‘‘ ’’تو۔۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے کندھے اچکائے۔ ’’وہ بھی تو میری مما کی برائیاں کرتی ہیں۔‘‘ ’’کس کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘ ’’فورتھ میں۔‘‘ تب ہی اندرونی گیٹ کھلا اور اسفندیار نے بدر کو آواز دی تھی۔ ’’بدر! تم لان میں کیا کر رہے ہو؟۔۔۔۔۔اپنا ہوم ورک کرو آ کر۔‘‘ ’’ابی جان۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ وہ بے تابی سے ان کی طرف بڑھی تھی۔ اسے ابی جان سے کتنی محبت تھی، یہ وہ نہیں بتا سکتی تھی۔ ان کی ناراضگی، خفگی، سرد مہری کے باوجود وہ انہیں بہت زیادہ چاہتی تھی۔ سات سال تک جس طرح انہوں نے اس کے لاڈ اٹھائے تھے وہ تو ذہن پر نقش ہو گئے تھے۔ ’’تم آ گئیں؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ’’ایاز ٹھیک ہے؟‘‘ ’’جی۔۔۔۔۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔ ان کے لہجے میں کوئی اشتیاق نہیں تھا اور وہ اس کی بجائے بدر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ’’آفتاب کا فون آیا تھا۔ تم سو رہی تھیں۔ تمہارا پوچھ رہا تھا کہ خیریت سے پہنچ گئیں۔ پھر کرے گا۔‘‘ ’’جی اچھا۔‘‘ ’’بدر! تم چلو اندر۔‘‘ ’’پپا! آپ نے مجھے ایم،پی تھری دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ لائے ہیں؟‘‘ ’’ابھی دو ماہ پہلے میں نے تمہیں واک مین لے کر دیا ہے اور اب۔۔۔۔۔‘‘ وہ ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی لائونج میں آ گئی تھی۔ انوشہ ابھی تک اسی انداز میں صوفے پر بیٹھی تھی۔ بوبی اور پنکی بھی اس کے پاس بیٹھے تھے جبکہ روشی اور شابی بھابی شاید اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی تھیں۔ ’’اب واک مین کوئی نہیں رکھتا پپا! اس کا فیشن نہیں ہے۔ وہ تو ریڑھی والوں کے پاس ہوتا ہے۔‘‘ وہ دس سالہ لڑکا کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے ایم پی تھری چاہئے بس۔‘‘ اسفند یار نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اور ایک صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔ ’’ذرا کوئی نیوز چینل تو لگانا انوش چندا! سنا ہے، صدام حسین پکڑ لیا گیا ہے۔‘‘ وہ حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ چار سال بعد آئی تھی اور اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ابی جان سے ڈھیر ساری باتیں کرے۔ لیکن ابی جان اس کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ ’’پاپا! مجھے ایم پی تھری لینا ہے۔‘‘ ’’پہلے تم پانچویں کا امتحان دے لو، پھر۔‘‘ ’’اور دو سال بعد تو ایم پی فور، فائیو نہ جانے کیا کیا آ جائے گا۔ پلیز پپا! مجھے ابھی چاہئے۔‘‘ اس نے ضد کی۔
![]() And Your Lord Never Forget |
(#15)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ’’اچھا، اچھا۔۔۔۔۔لے دوں گا۔ ابھی خبریں سننے دو۔‘‘ اس نے حیرت سے اسفند یار کی طرف دیکھا۔ شاید شابی اور روشی بھابی صحیح کہہ رہی تھیں، ابی جان بدر کو بگاڑ رہے ہیں ’’ارے۔۔۔۔۔مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔‘‘ بوا نے کچن سے باہر آ کرکہا۔ ’’صبح آفس جاتے ہوئے بڑے بھیا نے تمہارا بیگ بھجوایا تھا اندر۔ میں نے ادھر اسٹور میں رکھ چھوڑا ہے۔ وہ کمبخت ڈرائیور لائونج میں ہی چھوڑ گیا۔ آواز دیتی رہی کہ بٹیا کا کمرہ اوپر ہے، اوپر لے جائو۔ لیکن سنا ہی نہیں اور لائونج میں رکھ کر یہ جا وہ جا۔‘‘ ’’کوئی بات نہیں بوا! ادھر ہی لے آئیں باہر۔‘‘ بوا بیگ گھسیٹ کر باہر لے آئیںتو وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ’’اے، اب خود نہ اٹھا کے چل دینا۔۔۔۔۔ اچھا خاصا بھاری ہے۔ کہیں کمر میں درد ہی نہ بیٹھ جائے۔ کل اللہ مارا مونا آ جائے گا تو چھوڑ آئے گا اوپر۔ کچھ ضروری چیزیں نکالنی ہیں تو نکال لو۔ پھر میں ادھر کچن کے اسٹور میں ہی رکھ دیتی ہوں۔ ایسا آسان ہوتا اٹھانا تو خود نہ چھوڑ آتی میں۔‘‘ ’’جی بوا! میں کمرے سے چابی لے کر آتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا برس کمرے میں ہی ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ کچھ ڈالر جو نینا عادل نے آتے ہوئے اس کے پرس میں ڈالے تھے اور چند چھوٹی موٹی ضرورت کی چیزیں۔ بیگ کی چابیاں بھی اسی میںتھیں۔ ’’اس میں ضرورہمارے لئے گفٹ ہوں گے۔‘‘ اس نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بوبی کو کہتے سنا۔ ’’لالچی ہو کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ بدر کی بڑبڑاہٹ کافی اونچی تھی۔ لیکن چھ سالہ بوبی نے اس کی بات کی پرواہ نہیں کی تھی اور گیس کر رہا تھا کہ پھپھو اس کے لئے کیا گفٹ لائی ہوں گی۔ دونوں بھابیاں لائونج میں بیٹھی تھیں صوفوں پر۔ جبکہ وشی، گڑیا اور اسماء نیچے کارپٹ پر بیٹھی تھیں اور ٹی وی پر کوئی انڈین چینل لگا ہوا تھا۔ ’’یہ ڈرامہ ہم بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے تم بیٹھتیں نا نیچے، ابی جان کے پاس۔ وہ لائونج میں بیٹھے تھے۔ اور تمہارے بھائی بھی آنے والے ہوں گے۔‘‘ شابی بھابی میں روشی بھابی کے مقابلے میں مروت کچھ زیادہ تھی۔ ’’جی میں بیگ کی چابی لینے آئی ہوں۔ نیچے ہی جا رہی ہوں۔‘‘ ’’ابی جان سے ملیں؟‘‘ روشی بھابی نے یوں پوچھا جیسے اس نے شابی بھابی کی بات سنی ہی نہ ہو۔ ’’جی۔‘‘ وہ کمرے میں چلی گئی۔ پرس اٹھا کر اس میں سے چابی نکالی اور واپس نیچے آ گئی۔ ’یا اللہ! اور کسی کے لئے کچھ ہو نہ ہو، بوبی اور پنکی کے لئے ضرور کچھ خریدا ہو نینا نے۔‘ اُس نے دھڑکتے دل سے بیگ کھولا۔ بوبی اور پنکی مارے اشتیاق کے اس کے قریب آ کھڑے ہوئے تھے جبکہ بدر دور ہی بیٹھا کن انکھیوں سے اسے تک رہا تھا۔ تھا تو وہ بھی بچہ ہی لیکن وہ بوبی اور پنکی سے بہرحال زیادہ سمجھ دار تھا۔ اس نے لاک کھول کر زپ کھینچی۔ سب سے اوپر ہی جو ڈبہ پڑا تھا وہ ڈول کا تھا۔ بڑی سی ہنسنے رونے والی ڈول۔ اس نے ڈبہ پنکی کو دیا۔ وہ خوش ہو کر اوپر کی طرف بھاگی۔ پھر اس نے ایک پیکٹ اٹھایا۔ اس میں جرسی تھی۔ اس نے باہر نکالا تو اسے ایک اور ڈبہ ملا۔ ریموٹ سے چلنے والی گاڑی۔ بوبی اچھلنے لگا۔ اس نے اس کے ہاتھ میں ہی ڈبے پر بنی گاڑی کی تصویر دیکھ لی تھی۔ پتہ نہیں یہ بوبی کے لئے تھی یا بدر کے لئے۔ اس نے مڑ کر بدر کو دیکھا جس کی آنکھوں سے اب اشتیاق جھلک رہا تھا لیکن وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھا تھا۔ نینا اس کے گھر کے ہر فرد کے متعلق جانتی تھی۔ یقینا اس نے سب کے لئے ہی کچھ نہ کچھ لیا ہو گا۔ لیکن اب پتہ نہیں بوبی کے لئے کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں اسے گمان گزرا تھا کہ یہ گاڑی بدر کے لئے ہو گی۔ بوبی نے خود ہی اس کے ہاتھ سے گاڑی لے لی تھی اور پنکی کے پیچھے ہی اوپر بھاگ گیا تھا۔ وہ چیزیں نکال کر باہر رکھتی جا رہی تھی۔ اسے یہ بیگ اپنے کمرے میں کھولنا چاہئے تھا۔ اب پتہ نہیں۔۔۔۔۔ تبھی اسے وہ چھوٹا سا ڈبہ نظر آ گیا۔ ایم پی تھری۔ اُس نے نینا کے چھوٹے بیٹے کے پاس ایسا ہی ڈبہ دیکھا تھا اور مغیرہ نے اپنے ایم پی تھری پر اسے گانے بھی سنوائے تھے۔ ’’بدر!‘‘ اس نے خوشی سے اسے آواز دی۔ ’’یہ رہا تمہارا گفٹ۔‘‘ بدر کی آنکھوں میں یکدم چمک اُتر آئی تھی۔ ’’تھینک یو!‘‘ اس نے ڈبہ پکڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ ’’چلو تمہاری ایم پی تھری کی خواہش تو خود ہی پوری ہو گئی۔‘‘ انوشہ نے بدر کو ڈبہ کھولتے دیکھ کر کہا تھا۔ اس نے سارا سامان نکال کر باہر رکھ دیا تھا۔ سب سے نیچے ایک قدرے بڑا سا پیکٹ تھا جس پر لکھا تھا ’’چچا جان کے لئے‘‘ ایلیا نے وہ پیکٹ بیگ میں ہی رہنے دیا اور بیگ بند کر لیا اور باہر نکلے ہوئے پیکٹ دیکھنے لگی۔ میک اپ کٹس یقینا بھابیوں کے لئے تھے۔ دو جرسیاں جو ایک جیسی تھیں اور خوب صورت لیدر کے پرس بھائیوں کے لئے، ایک مردانہ ریسٹ واچ یقینا ابی جان کے لئے، ایک نازک سی لیڈی واچ جس کے ڈائل پر نقلی ڈائمنڈ لگے تھے یقینا انوشہ کے لئے تھی، ایک چھوٹا سا جیولری باکس اور ایک پیارا سا لاکٹ بھی تھا۔ فر کی لیڈی جیکٹ اور گرم جرسیاں تھیں۔ اس نے انوشہ کا گفٹ اس کی طرف بڑھایا۔ دونوں بھابیاں بوبی اور پنکی کے ساتھ نیچے آ گئیں۔ شابی بھابی کی گود میں ننھا زین تھا۔ اس نے اٹھ کر زین کو گود میں لے کر پیار کیا۔ لیکن وہ رونے لگا تو اس نے واپس شابی بھابی کو دے دیا اور ان کے گفٹس انہیں دیئے۔ ’’ان کی کیا ضرورت تھی بھئی؟‘‘ شابی بھابی نے گفٹ لیتے ہوئے کہا۔ زین کے لئے بھی دو خوب صورت بے بی سوٹ تھے۔ چھوٹی امی کے لئے بھی اس نے جرسی، لیدر کا پرس اور ایک میک اپ کٹ جس میں صرف لپ اسٹک تھیں الگ کر کے رکھ دی تھی۔ ایک ہلکے رنگ کی جرسی اس نے بوا کو دے دی۔ جواب میں بوا نے اسے ہزاروں دعائیں دے ڈالی تھیں۔ پرفیومز، آفٹر شیو لوشن، الیکٹرک شیور۔ وہ ایک ایک کر کے چیزیں ایک طرف رکھتی جا رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ نینا عادلنے اسے کتنا زیربار کر دیا تھا۔ کیا اس دنیا میں نینا عادل جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں؟۔۔۔۔۔ اس کا دل بھر آیا۔ سب کے گفٹ الگ کر کے اس نے بچے ہوئے پرفیومز اور ایک دو جرسیاں بیگ میں ڈال دیں۔ ’’ابی جان! یہ آپ کے لئے۔‘‘ وہ ان کا گفٹ لے کر اُٹھ کر ان کے قریب آئی۔ ’’کیا ضرورت تھی۔‘‘ انہوں نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر نگاہیں ٹی وی پر جما دیں۔ اس نے ان کے پاس پڑی چھوٹی ٹیبل پر ان کے گفٹ رکھے اور واپس آ کر بیٹھ گئی۔ شابی بھابی اور روشی بھابی خاصی خوش نظر آ رہی تھیں۔ ’’یہ تم نے اچھا کیا پرس لے آئیں۔ ورنہ یہاں سے پرس خریدو تو مہینہ بھر بعد ہی زپ خراب ہو جاتی ہے۔ شابی بھابی کو اپنا پرس بہت پسند آیا تھا۔ بدر اپنے ایم پی تھری کے ساتھ مصروف تھا۔ ’’توڑ مت دینا چھوٹو!یہ خاصا قیمتی ہوتا ہے۔‘‘ انوشہ نے اسے تنبیہہ کی۔ ’’دس ہزار کا تو ہو گا نا؟‘‘ انوشہ پوچھ رہی تھی۔ وہ چونکی۔ اسے کیا پتہ کتنے کا ہے۔ ’’تحفوں کی قیمت نہیں پوچھتے۔‘‘ شابی بھابی نے اسے مصیبت سے نکالا۔ چھوٹی امی بھی کمرے سے نکل آئیں۔ ’’چھوٹی امی! یہ آپ کے لئے گفٹ۔‘‘ اس نے چھوٹی امی کا گفٹ انہیں دیا۔ ’’تم نے خوامخواہ اتنا خرچ کیا۔‘‘ انہوں نے نخوت سے ناک چڑھائی اور جرسی کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ’’اب بھلا لاہور میں اتنی سردی کہاں پڑتی ہے؟‘‘ ’’لیکن مما! پچھلے سال تو آپ خود کریم اینڈ سنز سے جرسی لے کر آئی تھیں۔ اور یہ تو اس سے زیادہ اچھی ہے۔‘‘ انوشہ کو غالباً سچ بولنے کی بیماری تھی۔ ’’انوش! اٹھو یہاں سے۔۔۔۔۔ کب سے ٹی وی کے آگے بیٹھی ہو۔ جائو، اپنا ہوم ورک کرو جا کر۔ اور تم بھی بدر! اُٹھو۔ بیٹھ جاتے ہو ٹی وی کے آگے۔‘‘ انہوں نے اپنا غصہ نکالا اور پھر بوا کو آواز دی۔ ’’بوا! پانی دو ایک گلاس۔ اور دیکھو، کل کی طرح کھانا لگاتے لگاتے گیارہ نہ بجا دینا۔ مونا کیا چھٹی پر گیا ہے تم بہت ہی سست ہو گئی ہو۔‘‘ بوا نے خاموشی سے لا کر پانی کا گلاس دیا اور واپس مڑ گئیں۔۔۔۔۔ وہ خاموش بیٹھی بظاہر ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ انوشہ اور بدر ماں کی ڈانٹ کھا کر اسٹڈی میں چلے گئے تھے۔ اس کا ذہن بار بار نینا عادل کی طرف چلا جاتا تھا۔ نینا نے اسے آج ان سب کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ لیکن یہ سب بہت زیادہ تھا۔۔۔۔۔ کیا کبھی وہ نینا عادل کے احسان کا بدلہ چکا سکے گی؟۔۔۔۔۔ شاید کبھی نہیں۔ …٭٭٭… باہر گاڑی کا ہارن بجا تھا۔ ’’پاپا آ گئے۔۔۔۔۔‘‘ بوبی اور پنکی ایک ساتھ اچھلنے لگے تھے۔ اُس کی نظریں بھی دروازے کی طرف اُٹھ گئیں۔ بڑے بھیا اور چھوٹے آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ بڑے بھیا تو ویسے ہی اسمارٹ اور ینگ سے تھے لیکن چھوٹے بھیا قدرے فربہ ہو گئے تھے۔ ’’چھوٹے بھیا۔۔۔۔۔!‘‘ وہ بے قراری سے ان کی طرف بڑھی۔ ’’ہاں بھئی بے بی! کیسی ہو؟‘‘ چھوٹے بھیا نے گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا اور پھر ایک بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ چھوٹے بھیا کی اس گرم جوشی پر اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ پورے گھر میں واحد چھوٹے بھیا تھے جنہوں نے اس طرح قدرے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا۔ ’’تم توبالکل ویسی ہی ہو۔۔۔۔۔ چوہیا سی۔‘‘ اسے الگ کرتے ہوئے وہ ہنسے۔ ’’اور آپ موٹے ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ کچھ۔‘‘ ’’جی نہیں، کچھ کچھ نہیں، ٹمی نکل آئی ہے۔‘‘ روشی بھابی نے فوراً کہا۔ ’’روز کہتی ہوں صبح واک کریں، مرغن غذائیں نہ کھایا کریں۔ لیکن انہیں تو پرواہ ہی نہیں۔‘‘ ’’اب کیا کرنا ہے پرواہ کر کے۔۔۔۔۔ کون سی دوسری شادی کرنی ہے۔‘‘ چھوٹے بھیا نے قہقہہ لگایا۔ ’’اور جو پرواہ کرتے ہیں کیا انہوں نے دوسری شادی کرنا ہوتی ہے؟‘‘ روشی بھابی نے کن انکھیوں سے بڑے بھیا کی طرف دیکھا تو وہ سٹپٹا گئے۔ چھوٹے بھیا کا قہقہہ اُبل پڑا۔ ’’بڑے بھیا ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ تم خواہ مخواہ شابی بھابی کو نہ ورغلائو۔‘‘ ’’مجھے اعتبار ہے ان پر۔‘‘ شابی بھابی کا انداز بے پرواہی کا سا تھا۔ لیکن ایلیا جانتی تھی کہ اب بڑے بھیا کی خیر نہیں۔ حالانکہ بڑے بھیا کی فزیک ہی ایسی تھی۔ وہ شروع سے ہی دبلے پتلے تھے۔ جبکہ چھوٹے بھیا بچپن میں اچھے خاصے گول مٹول سے ہوتے تھے۔ وہ تو چڑ میں آ کر انہوں نے جم جانا شروع کیا تھا اور جوڈو کراٹے کا سینٹر بھی جوائن کر لیا تھا۔ وہ بلیک بیلٹ ہولڈر تھے۔ ایلیا نے موضوع بدلنے کے لئے دونوں بھائیوں کو گفٹ دیئے۔ دونوں نے ہی خوشی کا اظہار کیا۔ چھوٹے بھیا نے تو دل کھول کر تعریف کی۔ ’’ارے بے بی! تمہیں کیسے پتہ چلا کہ مجھے یہ آفٹر شیو لوشن پسند ہے۔ اور الیکٹر شیور لینے کا تو میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا۔‘‘ ’’اور جیسے پہلے تو کبھی نہ آفٹر شیو لوشن استعمال کیا ہے اور نہ شیور۔‘‘ روشی بھابی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھیں۔ انہیں چھوٹے بھیا کا حد سے زیادہ خوشی کا اظہار بالکل پسند نہیں آ رہا تھا۔ شابی بھابی کے ساتھ مل کر طے کیا تھا کہ ایلیا کو زیادہ اہمیت ہرگز نہیں دینی تاکہ کہیں وہ اپنا پروگرام لمبا نہ کر لے۔ اور یہ بلال تو ہے ہی بے وقوف۔ ’’اور چھوٹے بھیا۔۔۔۔۔!‘‘ بدر اپنا ایم پی تھری لے کر ان کے پاس چلا آیا۔ ’’یہ دیکھیں نا، میں کتنے دنوں سے ڈیڈیسے کہہ رہا تھا اور ڈیڈی نہیں لے کر دے رہے تھے۔ میں نے اپنا واک مین انوشہ کو دے دیا ہے۔‘‘ ’’تم پھر باہر آ گئے۔۔۔۔۔؟‘‘ چھوٹی امی نے اسے گھرکا۔ ’’میں نے کہا تھا، ہوم ورک کرو۔‘‘ ’’مما! آپ بھی بس۔۔۔۔۔ اگر کسی کی بہن امریکہ سے آئی ہو تو وہ ہوم ورک نہیں کرتا بلکہ بیٹھ کر اس سے باتیں کرتا ہے۔ اور آپ نے مجھے اور انوشہ کو اسٹڈی میں بھیج دیا۔‘‘ ’’آئے کہیں کے سگے۔‘‘ چھوٹی امی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسٹڈی میں لے گئیں۔ ایلیا کا رنگ لمحہ بھر کو پھیکا پڑ گیا۔ جب وہ یہاں سے گئی تھی تو چھوٹی امی تب بھی ایسی ہی تھیں۔ کبھی جو انوشہ یا بدر کے پاس اسے پھٹکنے دیتیں۔ حالانکہ جب بدر پیدا ہوا تھا اور جب انوشہ پیدا ہوئی تھی تو وہ کتنی خوش تھی۔ چھوٹی سی چینی ناک والی انوشہ اپنی بے حد سفید رنگت کی وجہ سے اسے بہت اچھی لگتی تھی اور وہ سوچتی تھی کہ انوشہ جب بڑی ہو گی تو پھر دونوں میں بہت دوستی ہو گی۔ لیکن چھوٹی امی ذرا بھی تو نہیں بدلی تھیں۔ ’’بوا! کھانا لگائو بھئی۔۔۔۔۔۔ بھوک لگی ہے۔‘‘ بڑے بھیا نے خاموشی کو توڑا۔ وہ لنچ ٹائم میں صرف چائے کے ساتھ کچھ بسکٹ لے لیتے تھے۔ کھانا کھا کر وہ کمرے میں آئی اور بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے سوچا، انکل آفتاب کو فون کرنا چاہئے
![]() And Your Lord Never Forget |
(#16)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() لیکن کتنی عجیب بات تھی اس کے پاس ان کا نمبر تک نہ تھا۔ ’ابی جان کے پاس ہو گا۔ صبح ضرور کروں گی۔ اس وقت تو ابی جان سو چکے ہوں گے۔‘ بیڈ پر لیٹتے ہوئے ایک بار پھر اسے نینا عادل کا خیال آ گیا۔ ’اور نینا عادل کو بھی ضرور فون کروں گی۔ مجھے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ کتنی قیمتی چیزیں سب کے لئے لی تھیں اس نے۔‘ ’’ایلا! تمہارا فون ہے۔‘‘ روشی بھابی نے ذرا سا دروازہ کھول کر اسے بتایا اور پھر واپس مڑ گئیں۔ ’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ تیزی سے اٹھی اور لائونج میں آ کر ادھر دیکھا جہاں پہلے فون سیٹ ہوتا تھا۔ لیکن اب وہاں کوئی ڈیکوریشن پیس پڑا تھا۔ پھر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اسے دائیں طرف پڑا فون نظر آ یا تو اس نے بڑھ کر نیچے رکھا ہوا ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف آفتاب انکل تھے۔ ’’ارے بیٹا! کیسی ہو؟‘‘ وہ بہت خوش دلی سے پوچھ رہے تھے۔ ’’اچھی ہوں۔۔۔۔۔ آپ اور آنٹی کیسے ہیں؟‘‘ ’’رب کا شکر ہے بیٹا! بھلے چنگے ہیں۔ تم بتائو، کیا پروگرام ہے تمہارا؟‘‘ ’’میرا پروگرام۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ کھو سی گئی۔ ’’اب واپس مت آنا کبھی بھی۔۔۔۔۔‘‘ ایاز ملک نے جیسے اس کے کان میں کہا۔ ’’اچھا خیر، آج ہی تو آئی ہو۔ جی بھر کر رہ لو بہن بھائیوں کے پاس۔ پھر بتادینا، میں لے جائوں گا۔ اور تم سے ملنے بھی آئوں گا دو تین روز تک۔ بس ذرا تمہاری آنٹی کی طبیعت ٹھیک ہو جائے۔ کافی دنوں سے بہت خراب طبیعت ہے۔‘‘ ’’کیا ہوا؟۔۔۔۔۔ کب سے بیمار ہیں آنٹی؟‘‘ وہ پریشان ہو گئی۔ وہ چند ماہ جو حویلی میں رہی تھی، آنٹی نے اسے بہت محبت دی تھی۔ ’’مجھے ساس نہ سمجھنا۔ ماں ہوں تمہاری۔‘‘ وہ سوچتی تھی اگر اس کی امی زندہ ہوتیں تو وہ اتنی ہی شفیق ہوتیں، اتنی ہی محبت کرتیں اس سے۔ ’’ہیں۔۔۔۔۔ کیا آجی نے تمہیں نہیں بتایا؟‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔ کیا ہوا آنٹی کو؟‘‘ وہ اور پریشان ہو گئی۔ ’’اچھا، اچھا۔ تمہاری پریشانی کے خیال سے ذکر نہیں کیا ہو گا۔ ریڑھ کی ہڈی میں کچھ مسئلہ ہے۔ چلنا پھرنا مشکل ہے۔ درد بھی بہت رہتا ہے۔ ڈاکٹر نے آپریشن بتایا ہے۔ خیر، ابھی ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ سوچ رہا ہوں دو تین اور ڈاکٹرز سے بھی مشورہ کر لوں۔ کہیں معاملہ زیادہ بگڑ ہی نہ جائے۔‘‘ ’’جی، میں ایک دو روز تک خود ہی آ جائوں گی بھیا کے ساتھ۔ آپ آنٹی کو اکیلے چھوڑ کر نہیں آیئے گا۔‘‘ ’’بھئی تمہاری آنٹی اب ایسی بھی بیمار نہیں ہیں۔ تم جی بھر کر رہ لو۔ اور اچھا، یہ اپنی آنٹی سے بات کر لو۔‘‘ وہ کچھ نہیں بولی تھی۔ اسے تو اب یہاں ہی رہنا تھا ہمیشہ اور اس سے پہلے کہ ایاز اسے مکمل طور پر اپنی زندگی سے علیحدہ کر دے، وہ ایک بار ساہیوال جا کر آنٹی سے مل آئے۔ ’’کیسی ہو میری جان؟‘‘ آنٹی نے بہت محبت سے پوچھا۔ ’’جب سے تمہارے آنے کا سنا ہے تڑپ رہی ہوں۔ تمہارے انکل سے کتنا کہا کہ تمہیں خود ریسیو کر کے سیدھا ساہیوال لے آئیں لیکن انہوں نے میری سنی ہی نہیں۔ کہنے لگے اسے کچھ دن اپنوں کے پاس رہنے دو۔ پھر تو ادھر ہی آنا ہے نا۔ بچی! کب آئو گی؟ زیادہ مت تڑپانا مجھے۔‘‘ آنٹی کہہ رہی تھیں۔ جب وہ بولی تو اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ’’آنٹی! میں جلد آئوں گی۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟‘‘ ’’طبیعت کا بھی کیا ہے بیٹی!۔۔۔۔۔ بس اب چل چلائو ہی ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں جانے کیا تھا۔ ایلیا کو لگا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔ ’’نہیں، نہیں۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔ ’’اللہ آپ کو بہت لمبی زندگی دے۔ میں نے تو آپ کے وجود میں ماں کی محبت پائی ہے۔‘‘ ShareThis آنٹی نے کچھ توقف کے بعد پوچھا۔ ’’میرا آجی کیسا تھا چندا۔۔۔۔۔؟‘‘ ’’جی ٹھیک تھے وہ۔‘‘ اُس کی آواز آہستہ تھی۔ ایاز کے خیال سے اس کا دل ڈوبنے لگا تھا۔ یہ سب لوگ، یہ اتنے پیارے، اتنے محبت کرنے والے، چاہنے والے لوگ اس کے کوئی نہیں تھے۔ ان کے ساتھ جو رشتہ جڑا تھا وہ ایاز کی وجہ سے تھا۔ اور جب ایاز سے اس کا رشتہ ختم ہو گا تو یہ سب لوگ بھی جدا ہو جائیں گے۔ وہ ان کی محبتوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ اور پھر یہاں ان بے حس لوگوں کے درمیان اسے رہنا تھا ہمیشہ۔ چار سال پہلے جب وہ یہاں رہتی تھی تب بھی سب ایسے ہی تھے۔ بے نیاز اور بے خبر۔ ہاں، بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا یا ابھی جان کبھی کبھی پیار سے بات کر لیتے تھے۔ پھر ابی جان بھی اجنبی ہو گئے۔ لیکن تب اسے ان کی بے حسی اتنی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج ان سولہ سترہ گھنٹوں میں اس نے اس بے حسی کو جتنا محسوس کیا تھا، اتنا پہلے نہیں کیا تھا۔ کیا ان چار سالوں میں وہ زیادہ حساس ہو گئی ہے یا سمجھدار کہ لوگوں کے رویوں کو محسوس کرنے لگی تھی؟ آنٹی سے کچھ مزید بات کر کے وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ دن میں وہ بہت سو لی تھی اس لئے اس وقت اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ یہاں اس کمرے کے در و دیوار میں کتنی اجنبیت تھی۔ حالانکہ چار سال پہلے وہ اسی کمرے میں رہتی تھی۔ جب ابی جان چھوٹی امی کو لے کر آئے تھے تو وہ پہلی بار اس کمرے میں سوئی تھی۔ ’’اب تم بڑی ہو گئی ہو ایلا! اور اس کمرے میں رہنا ہے تمہیں۔‘‘ ابی جان اسے خود چھوڑنے آئے تھے کمرے میں۔ جبکہ وہ حسب عادت رات کا کھانا کھا کر ان کے بیڈ پر جا کر سو گئی تھی۔ وہ نیند میں تھی۔ اس لئے بیڈ پر گر کر فوراً ہی سو گئی۔ لیکن رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھل گئی۔ ’’ابی جان۔۔۔۔۔!‘‘ اُس نے انہیں بلایا تھا۔ وہ یہاں کہاں آ گئی؟ ابی جان کدھر ہیں؟ خوف سے اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جب سے امی کی ڈیتھ ہوئی تھی وہ ابی جان کے پاس ہی سوتی تھی۔ ’شاید سوتے میں کوئی جن اٹھا کر مجھے یہاں لے آیا ہے۔‘ اس نے سوچا تھا۔ اور پھر اس کے حلق سے چیخیں نکلنے لگی تھیں۔ تب چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ ’’کیا ہوا ایلا؟۔۔۔۔۔ کیا ہوا گڑیا؟‘‘ ’’بڑے بھیا! جن۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ ان سے چمٹ گئی تھی اور اس رات بڑے بھیا وہاں اس کے بیڈ پر اس کے پاس ہی سو گئے تھے۔ لیکن اگلی صبح انہوں نے اسے سمجھایا تھا کہ اب اسے اس کمرے میں ہی رہنا ہے۔ ’’دیکھو، میں اور بلال بھی تو اپنے اپنے کمروں میں اکیلے ہوتے ہیں نا۔ ہمیں تو بالکل بھی ڈر نہیں لگتا۔ اور بلال تو پہلے میرے کمرے میں تھا۔ پھر اس نے ابی جان سے ضد کر کے اپنا الگ کمرہ لیا۔ اپنے کمرے کے تو بڑے مزے ہوتے ہیں۔ تم اپنے کمرے کو اپنی مرضی سے سجانا۔‘‘ پھر اس روز بڑے بھیا نے اس کے ساتھ اس کے کمرے کو سجایا تھا۔ شو کیس میں اس کی گڑیوں کو سجایا، اس کے کھلونے سجائے۔ ایک کونے میں گڑیا رکھ رکھ دیا تھا۔ اور پھر اس کی وارڈروب میں اس کے کپڑے لٹکائے تھے۔ سارادن وہ بہت خوش رہی تھی۔ لیکن رات ہوتے ہی ایک انجانے خوف نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بڑے بھیا نہ جانے کہاں تھے۔ وہ چپکے سے ابی جان کے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی تھی۔ اور پھر چھوٹی امی نے نہ صرف اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا دیا تھا بلکہ اس کے رخسار پر کھینچ کر تھپڑ بھی لگایا تھا اور جو بات بڑے بھیا اس سمجھا نہ پائے تھے وہ چھوٹی امی کے تھپڑ نے سمجھا دی تھی۔ اس کے بعد اس نے پھر کبھی ابی جان کے کمرے میں سونے کی ضد نہیں کی تھی۔ بلکہ وہ سکول سے آ کر بھی زیادہ وقت اس کمرے میں ہی گزارنے لگی تھی۔ اور یہ کمرہ اسے بہت عزیز ہو گیا تھا۔ پناہ گاہ لگتا تھا اپنی۔ لیکن آج۔۔۔۔۔ اُس نے ایک گہری سانس لی۔ اس کمرے میں ایک نامانوس سی، اجنبی خوشبو تھی۔ شاید کچھ دن بعد یہ کمرہ اتنا اجنبی نہ لگے۔ وہ اٹھ کر پھر ٹیرس میں آ گئی اور نیلے آسمان پر دور تک پھیلے ستاروں کو دیکھنے لگی۔ ShareThis …٭٭٭… ’’تو کب تک رہنے کا پروگرام ہے بچی؟۔۔۔۔۔ آجی نے کیا کہا تھا؟ کتنے روز کی اجازت دی تھی؟‘‘ مسز آفتاب ملک نے دوسری بار پوچھا تو ان کے سامنے بیٹھی ایلیا نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ان کے کپڑے تہہ کرتی ہوئی جانے کس سوچ میں گم تھی کہ ان کی بات دھیان سے سنی ہی نہیں تھی۔ ’’جی چاچی! کیا کہا آپ نے؟‘‘ ’’کہاں کھوئی ہوئی ہو بٹیا؟۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا تھا کب جانے کا پروگرام ہے؟‘‘ انہوں نے دہرایا۔ ’کب۔۔۔۔۔ اور انہیں کیا پتہ کہ مجھے اب کبھی نہیں جانا۔‘ لیکن وہ انہیں یہ نہیں بتا سکتی تھی۔ کم از کم ابھی نہیں۔ ’’پتہ نہیں۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ابھی جانے کا تو کوئی پروگرام سیٹ نہیں کیا۔ کچھ طے نہیں کیا۔‘‘ اُس نے نظریں جھکا لیں اور بیگم آفتاب نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا۔ ’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ تو پھر آجی کا فون آیا تو میں کہہ دوں گی کہ ابھی ایلا کو کچھ دن رہنے دو۔ کم از کم تب تک جب تک۔۔۔۔۔‘‘ قریبی کرسی پر بیٹھے آفتاب ملک نے اخبار سے نظریں ہٹا کر ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ ’’جی، آپ فکر نہ کریں چاچی جی!۔۔۔۔۔ میں ابھی یہاں ہی ہوں۔‘‘ کاش وہ یہاں رہ سکتی۔ اس گھر میں، ہمیشہ ہمیشہ ان دو مہربان ہستیوں کی شفقت کے سائے میں۔ لیکن۔۔۔۔۔ دل نے ایک سرد آہ بھری تھی۔ یہ دونوں بندے تو محبت کے خمیر سے گندھے تھے۔ وہ تو خیر ان کی بہو تھی۔ لیکن اس گھر میں آنے والے سب افراد ہی ان کی محبتوں سے سیراب ہوئے تھے۔ ایاز کی والدہ کو یہاں سب ہی چاچی کہتے تھے۔ نینا عادل بھی انہیں چاچی کہتی تھی۔ اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس لفظ میں ایلیا کو بہت اپنائیت محسوس ہوتی تھی اور آنٹی بہت اوپرا اوپرا اور اجنبی سا لگتا تھا۔ تب اس روز اس نے ان سے پوچھا تھا۔ ’’آنٹی! میں بھی آپ کو چاچی کہہ لیا کروں؟‘‘ ’’کیوں نہیں۔۔۔۔۔ جو جی چاہے بلائو۔‘‘ وہ خوش دلی سے بولی تھیں۔ اسے یہاں آئے آج آٹھ دن ہو گئے تھے۔ اُس نے انگلیوں پر گنا۔ آٹھ دن۔ اور پتہ ہی نہیں چلا جیسے لمحوں میں اُڑ گئے تھے یہ آٹھ دن۔ اور وہاں لاہور میں وہ صرف چھ دن رہی تھی اور چھ دن کتنے بوجھل اور مشکل تھے۔ جیسے چھ صدیاں۔ اپنا ہی گھر جہاں اس نے زندگی کے پورے سولہ برس گزارے تھے، کتنا اجنبی اور پرایا لگنے لگا تھا۔ وہ اگر سارا دن بھی اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی تو کسی کو پرواہ نہ ہوتی۔ کوئی اسے بلانے نہ آتا تھا۔ ایک دو روز تو اس نے انتظار کیا تھا کہ شاید کوئی کھانے پر، ناشتے پر بلانے آئے۔ لیکن پھر خود ہی جانے لگی تھی۔ اگر سب ناشتہ کر رہے ہوتے تو وہ بھی شامل ہو جاتی۔ کر چکے ہوتے تو بوا سے کہہ دیتی۔ سب ہی اسے بری طرح اگنور کر رہے تھے اور اسے اب یہاں ہی رہنا تھا، ہمیشہ۔ بڑے بھیا، چھوٹے بھیا سب ہی مصروف تھے شاید کسی کے پاس اس کے لئے وقت نہیں تھا۔ بس ایک خیرن بوا تھیں اور مونا تھا جو اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اس کا کتنا جی چاہتا تھا کہ وہ بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کے پاس بیٹھ کر دیر تک باتیں کرے۔ ابی جان کے پاس بیٹھے۔ لیکن جب کبھی وہ لائونج میں سب کو بیٹھے دیکھ کر وہاں جاتی تو شابی بھابی اور روشی بھابی بہانے سے بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کو اٹھا کر لے جاتیں اور ابی جان تو اس کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے۔ ایک دو بار اس نے خود ہی ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے لہجے میں اتنی سرد مہری تھی کہ اسے دوبارہ ان سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کیسے گزرے گی اگر ایاز نے اسے طلاق دے دی۔۔۔۔۔ اگر اسے یہاں رہنا پڑا ہمیشہ تو؟۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر اس کا دل دہل جاتا تھا۔ لیکن بہرحال رہنا تو اسے یہاں تھا ہی۔ کم از کم وہ بوا خیرن کو تو بتا ہی دے کہ ایاز نے اسے ہمیشہ کے لئے بھیج دیا ہے۔ اس نے نینا عادل سے کہا تھا۔ ’’ایلیا سے کہنا، اب وہاں ہی رہے ہمیشہ۔‘‘ اس روز اسے آئے چھ دن ہو گئے تھے اور اس کے سر میں شدید درد تھا۔ پین کلر لے کر اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تاکہ بوا سے کہہ کر چائے بنوا لے۔ لائونج سے گزرتے ہوئے اپنا
![]() And Your Lord Never Forget |
(#17)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() نام سن کر وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ شابی بھابی کے کمرے سے آواز آ رہی تھی۔ ’’آخر یہ ایلیا کب تک یہاں رہے گی آپا؟‘‘ یہ گڑیا کی آواز تھی۔ ’’پتہ نہیں۔‘‘ شابی بھابی کی آواز میں بیزاری تھی۔ ’’اب اسے اپنے سسرال چلے جانا چاہئے۔ مل تو لی سب سے۔‘‘ گڑیا کی آواز میں ان سے زیادہ بیزاری تھی۔ ’’مجھ سے نہیں رہا جاتا اسماء کے ساتھ۔۔۔۔۔ اتنی نخریلی ہے اور اتنی بنتی ہے نا آپا! دل چاہتا ہے کہ اس کی فضول باتوں پر ایک تھپڑ لگائوں اسے۔۔۔۔۔ کل کہہ رہی تھی مجھے تمہارے یہاں رہنے سے اُلجھن ہوتی ہے۔ جب تک ایلیا ہے یہاں تم اپنے گھر چلی جائو۔‘‘ ’’ارے۔۔۔۔۔ تو وہ کیوں نہیں چلی جاتی؟‘‘ شابی بھابی بھڑک کر بولی تھیں۔ ’’وہ کیوں جائے؟ آپ نے کمرہ تو مجھ سے خالی کروایا ہے لاڈلی ایلیا کے لئے۔‘‘ گڑیا کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ وہ سُن سی کھڑی تھی۔ تو اس کے کمرے میں گڑیا رہتی تھی۔ ’’چندا!۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی نے کہا تھا نا۔ اب کیا میں انکار کر کے بری بنتی؟ شادی سے پہلے ایلیا اسی کمرے میں رہتی تھی۔ چند دن کی بات ہے۔ پھر تو وہ چلی جائے گی نا۔‘‘ شابی بھابی اسے بہلا رہی تھیں۔ وہ مرے مرے قدموں سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو ٹی وی لائونج خالی پڑا تھا۔ کچن کے کھلے دروازے سے اسے کچن ٹیبل کے گرد بیٹھے مونا اور بوا نظر آئے۔ بوا سبزی بنا رہی تھیں اور مونا نہ جانے کہاں کہاں کے قصے سنائے جا رہا تھا۔ ’’بوا۔۔۔۔۔!‘‘ وہ آہستگی سے کچن میں آئی۔ ’’آئو بٹیا! کیا چاہئے؟‘‘ ’’چائے مل جائے گی ایک کپ؟۔۔۔۔۔ سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ ’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ مونا! چل، چائے کا پانی رکھ۔ میں آ کر دم دیتی ہوں۔ اور تُو پانی رکھ کر باہر دیکھ، ڈرائیور آ گیا ہے تو آٹا منگوا لے۔‘‘ ’’بوا!‘‘ وہ ان کے اسمنے ہی بیٹھ گئی۔ ’’یہاں سب لوگ مجھ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔ بوا! میں نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔‘‘ اس کا دل بھرا رہا تھا اور آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ بوا نے چونک کر اسے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑی چھری ٹیبل پر رکھ دی۔ مونا بھی اسے دیکھنے لگا تھا۔ ’’تم نے کسی کا کیا بگاڑنا ہے بچی! بس اللہ کسی سے اس کی ماں نہ جدا کرے۔ یہ سوتیلے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ ’’مگر بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا تو سوتیلے نہیں۔ اور ابی جان۔۔۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں تو وہ سر جھکا کر آنسو پونچھنے لگی۔ بوا خاموشی اور تاسف سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ’’اگر مجھے ہمیشہ کے لئے یہاں ہی رہنا پڑ گیا بوا! تو؟‘‘ اُس نے بوا کی طرف دیکھا۔ ’’خدا نہ کرے بچی! بیاہی بیٹیاں تو اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔‘‘ بوا نے تڑپ کر اُسے دیکھا۔ ’’کیا بات ہے بٹیا! کہیں ایاز۔۔۔۔۔‘‘ تب ہی بیل ہوئی تو انہوں نے مڑ کر مونا کی طرف دیکھا۔ ’’جا دیکھ، شاید ڈرائیور آ گیا ہے۔‘‘ ’’ہاں، تو ایاز تو ٹھیک ہے نا بٹیا تمہارے ساتھ؟‘‘ ’اور کیا میں بوا کو بتا دوں کہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ سوچنے لگی۔ تب ہی مونا واپس آ گیا۔ ’’وہ۔۔۔۔۔ وہ ملک صاحب آئے ہیں ساہیوال سے۔‘‘ ’’انکل۔۔۔۔۔!‘‘ وہ ایک دم آنسو پونچھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پھر انکل آفتاب سے مل کر اسے یوں لگا تھا جیسے برسوں بعد کسی اپنے سے ملی ہو۔ ShareThis ’’بہت صبر کیا۔ لیکن اب صبر نہیں ہو رہا تھا۔ تمہاری چاچی تو روز ہی کہتی تھی میری بہو کو لائو۔ میں کہتا تھا بھلیے لوکے، اسے کچھ دن اپنوں کے پاس رہنے دے۔ چار سال بعد بچھڑی ملی ہے۔‘‘ اور انکل کو کیا پتہ یہاں کسی کو اس کی ہوک نہیں، نہ ہی کوئی چاہ تھی کہ وہ آئے یہاں۔ بلکہ اس کے آنے سے۔۔۔۔۔ پھر وہ انکل کے ساتھ ہی آ گئی تھی اور یہاں آئے اسے آٹھ دن ہو گئے تھے اور آج رات ہی نینا عادل کا فون آیا تھا۔ ’’ایلی!۔۔۔۔۔ تم نے بتایا چاچی کو سب؟‘‘ ’’نہیں، پلیز! تم بھی مت بتانا۔‘‘ اس نے التجا کی تھی۔ ’’چاچی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ ’’پاگل ہو تم۔ انکل کو بتا دو کہ چار سالوں میں ایاز نے۔۔۔۔۔‘‘ ’’کیا فائدہ نینا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ افسردہ تھی۔ ’’انکل اس سے باز پرس کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کیتھی سے شادی کر لے اور تم۔۔۔۔۔‘‘ ’’انکل کے منع کرنے سے کیا وہ کیتھی سے شادی نہیں کرے گا نینا؟‘‘ ’’آخر پہلے بھی تو چار سال سے وہ اپنا وعدہ نبھا رہا ہے نا۔‘‘ ’’اسے تم وعدہ نبھانا کہتی ہو نینا! سب جانتے ہوئے؟۔۔۔۔۔۔ وہ کیتھی کا ہی تھا ہمیشہ سے، اور اسی کا رہے گا۔‘‘ ’’ایلا!۔۔۔۔۔ ایلا! دیکھو، تمہاری ساری عمر پڑی ہے۔ کب تک ایسے گزارہ کرو گی۔ ایاز سے چھٹکارا پا کر کسی اچھے بندے سے شادی کر لو۔‘‘ ’’نینا عادل! میرا ایک کام کرو۔ ایاز سے کہو مجھے طلاق نہ دے۔ بھلے کیتھی سے شادی کر لے۔ میں ساری عمر اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی۔ بس اپنے نام کے ساتھ میرا نام جڑا رہنے دے۔‘‘ ’’کیا اس سے محبت کرنے لگی ہو ایلا؟‘‘ نینا عادل نے پوچھا تھا۔ ’’نہیں نینا! میرے اور اس کے پاس وہ تعلق بنا ہی نہیں جس سے محبت جنم لیتی ہے۔ ہم نے تو چار سال ایک چھت تلے اجنبیوں کی طرح گزارے ہیں۔‘‘ ’’پھر کیوں چاہتی ہو ایسا؟‘‘ ’’میں یہاں، اس گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ چاچی اور انکل کے ساتھ۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے نینا! ۔۔۔۔۔ وہاں میرے گھر میں میرے لئے بالکل بھی جگہ نہیں ہے۔‘‘ وہ رونے لگی تھی۔ نینا نے اسے تسلی دے کر فون بند کر دیا۔ ’’اوکے۔۔۔۔۔ پلیز ریلیکس۔ میں بات کروں گی آجی سے۔‘‘ ’اور پتہ نہیں ایاز، نینا کی بات مانے گا یا نہیں۔‘ اُس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ’’کیا بات ہے بیٹی! کہاں کھوئی ہوئی ہو؟‘‘ آفتاب ملک نے اخبار نیچے رکھا۔ ’’کچھ نہیں انکل!‘‘ وہ چونکی۔ ’’کہیں تمہیں اتنی جلدی لا کر زیادتی تو نہیں کر دی میں نے؟۔۔۔۔۔ تمہاری چاچی نے رولا ڈالا ہوا تھا۔ ورنہ میں تو کچھ اور انتظار کر لیتا۔‘‘ ’’نہیں تو۔‘‘ وہ شعوری کوشش سے مسکرائی۔ ’’میں تو خود چاچی سے ملنے کے لئے بے تابتھی۔‘‘ ’’میں تو ہڑک رہی تھی تیرے لئے۔‘‘ چاچی نے اس پر ایک شفقت بھری نظر ڈالی۔ ’’طبیعت ٹھیک ہوتی تو اسی روز ایئر پورٹ پر آ جاتی۔ مگر خیر اب تم سے مل لی۔ دو چار دن بعد چلی جانا لاہور اور جی بھر کے رہ آنا۔‘‘ ’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے گھبرا کر کہا۔ ’’میں ادھر ہی رہوں گی آپ کے پاس۔ سب سے مل چکی ہوں میں۔‘‘ آتاب ملک نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی۔ ’’ہاں، ہاں۔ شوق سے رہو۔ تمہارا اپنا گھر ہے۔‘‘ چاچی کے چہرے پر اطمینان دوڑ گیا۔ ShareThis ’’یوں بھی یہ اوپرے سے دل سے کہہ رہی تھی۔ ورنہ اس کا بس چلے تو چوبیس گھنٹے تمہیں نظروں کے سامنے رکھے۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’تو۔۔۔۔۔؟‘‘ چاچی نے ایک تیکھی نظر ان پر ڈالی۔ ’’میری بہو ہے۔‘‘ ’’انوکھی ساس ہیں بھئی آپ۔ بہو سے اتنی محبت۔‘‘ ’’بہو بھی تو مجھ سے محبت کرتی ہے نا۔‘‘ انہوں نے مشفق نظروں سے اسے دیکھا اور وہ جو اتنی محبتوں پر بہ مشکل اپنے آنسو ضبط کئے بیٹھی تھی، یکدم رو پڑی۔ ’’ارے، ارے۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ آفتاب ملک نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’میں ہمیشہ آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے اپنے سے جدا مت کیجئے گا، پلیز۔‘‘ ’’پگلی۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ چاچی نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ’’ہم بھلا کیوں جدا کریں گے تجھے؟۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تو ملک صاحب سے کہا ہے، بہت رہ لیا، بہت کما لیا آجی نے۔ اب اس سے کہیں یہاں ہی آ جائے۔ کوئی فیکٹری لگا دیں اسے جو بھی وہ پسند کرے۔‘‘ ’’جسے ڈالروں کا چسکا پڑ جائے وہ۔۔۔۔۔‘‘ ملک صاحب منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر چپ کر گئے اور وہ چاچی کے سینے سے لگی سسکیاں لیتی رہی۔ …٭٭٭… ’تو ایاز ملک!۔۔۔۔۔۔ بالآخر تم نے کیتھی سے شادی کر لی۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سارے قصے میں میرا کیا قصور تھا؟۔۔۔۔۔۔ میں نے کس جرم کی سزا بھگتی؟‘ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ایلیا نے سوچا۔ اور قصور کس کا تھا؟۔۔۔۔۔ اسفند یار کا، جنہوں نے اچانک ہی اسے بیاہنے کا فیصلہ کر لیا تھا؟۔۔۔۔۔ آفتاب ملک کا، جنہوں نے بیٹے کو مجبور کر دیا اس شادی پر یا پھر ایاز ملک کا جو اس زبردستی کے رشتے کو نباہ نہ سکا؟۔۔۔۔۔ قصور جس کا بھی تھا لیکن زیادتی تو اس کے ساتھ ہوئی تھی۔ صرف اس کے ساتھ۔ بند آنکھوں کے پیچھے آنسو بری طرح بہنے کو مچلے لیکن وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ کل شام کی بات تھی جب وہ چاچی کو گھر لے کر آئے تھے۔ پورے دس دن ہسپتال میں رہنے کے بعد۔ اور یہ دس دن کیسے مصروف اور پریشان گزرے تھے۔ چاچی کی طبیعت اچانک ہی زیادہ خراب ہو گئی تھی اور درد بھی ناقابل برداشت تھا اور کمزوری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ تب آفتاب انکل نے بتایا۔ ’’ڈاکٹر کہتے ہیں آپریشن ہی حل ہے اس کا۔‘‘ ’’تو پھر آپ آپریشن کیوں نہیں کروا رہے؟‘‘ ’’تم آ گئی تھیں نا۔‘‘ وہ افسردگی سے مسکرائے تھے۔ ’’تمہاری چاچی کہتی تھیں آتے ہی تم ہسپتالوں کے چکر میں پڑجائو گی۔ کچھ دن سکون سے وہ تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔‘‘ ’’کمال کرتے ہیں انکل! آپ بھی۔‘‘ وہ ناراض ہوئی تھی۔ ’’میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں کیا؟۔۔۔۔۔ اگر آپریشن میں تاخیر سے کچھ مسئلہ بڑھ گیا تو؟‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔ ایسا تو نہیں ہے۔ ہاں، تمہاری چاچی کو اتنے دن تکلیف برداشت کرنا پڑی۔‘‘ پھر اگلے چند دن ہسپتالوں کے چکر لگتے رہے۔ مختلف ٹیسٹ پھر سے ہوئے اور پھر وہی نتیجہ کہ آپریشن ضروری ہے۔ ملتان میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کے ایک بڑے آرتھوپیڈک سرجن نے آپریشن کیا۔ وہ دس دن ہسپتال میں ان کے پاس رہی۔ انکل آفتاب نے کہا بھی کہ وہ دو تین دن کے لئے گھر جا کر آرام کر لے اور حویلی سے بتولاں، صغراں کوئی بھی آ جائے۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ ’’نہیں انکل! پلیز، مجھے یہاں ہی رہنے دیں۔ چاچی کے پاس۔‘‘ ڈاکٹر کہتے تھے آپریشن کامیاب ہے۔ لیکن ابھی تو وہ بیڈ پر ہی تھیں۔ ایاز اور نینا کے فون ہسپتال میں آتے رہتے تھے لیکن انکل آفتاب سے ہی ان کی بات ہوئی تھی۔ لیکن کل شام نینا نے اس سے بھی بات کی تھی۔
![]() And Your Lord Never Forget |
(#18)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ’’ایلا۔۔۔۔۔!‘‘ نینا بے حد افسردہ تھی۔ ’’ایک ہفتہ قبل ایاز نے کیتھی سے شادی کر لی ہے۔ تم ہسپتال میں تھیں۔ میں نے بتایا نہیں۔‘‘ ’’چلو، اچھا ہوا۔ ایاز کا مسئلہ تو حل ہوا۔‘‘ اس نے بے حد نارمل انداز میں کہا تو نینا کو اس کے لہجے کے سکون پر حیرت ہوئی۔ ’’تم ایلا۔۔۔۔۔!‘‘ ’’یہ تو ہونا ہی تھا بالآخر نینا!‘‘ اس نے نینا عادل کی بات کاٹ دی۔ ’’لیکن پلیز، ابھی تم کسی کو مت بتانا۔ ابھی چاچی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اور میں ابھی یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں۔ چاچی کے پاس۔ ’’میں نے آجی سے بات کی تھی۔ اس کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ تم طلاق کے بعد نئی زندگی شروع کر سکتی ہو۔ اس طرح زندگی برباد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ وہ کیتھی کے ساتھ بہت خوش ہے اور ہمیشہ اسی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ میرا خیال ہے تم طلاق لے لو ایلا!‘‘ ’’پلیز نینا! ایسا مت کہو۔ میں نے کہا نا، مجھے طلاق نہیں چاہئے۔‘‘ ’’اوکے ایلا! تم سوچنا۔ ابھی اس وقت تم جذباتی ہو رہی ہو۔ اس موضوع پر پھر بات ہو گی۔‘‘ لیکن اس کے پاس سوچنے کے لئے تھا ہی کیا۔ وہاں ماڈل ٹائون کے اس گھر میں اس کے لئے گنجائش نہیں تھی۔ بالکل بھی نہیں۔ اس نے چھ دن وہاں رہ کر دیکھ لیا تھا۔ سب کی خواہش تھی کہ وہ جلد چلی جائے۔ زبان سے بے شک کسی نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن زبان سے کہنا کچھ ضروری نہیں تھا۔ سب کے رویے بتا رہے تھے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے اور اس کے پاس اس گھر کے علاوہ اور ٹھکانہ نہیں تھا اور یہاں ہمیشہ اس گھر میں رہنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ایاز اسے طلاق نہ دے۔ ’آخر لوگ دو دو شادیاں بھی کر لیتے ہیں۔ میں یہاں رہتی رہوں گی اور۔۔۔۔۔۔‘ ’’ایلا!۔۔۔۔۔ ایلا بیٹی!‘‘ چاچی نے اسے آواز دی تو وہ چونک کر سیدھی ہو گئی۔ ’’بیٹی! اپنے کمرے میں جا کر لیٹ جائو۔ میرے پاس صغراں کو بھیج دو۔ وہاں ہسپتال میں بھی تم راتوں کو جاگتی رہی ہو۔ اس طرح تو بیمار پڑ جائو گی چندا!‘‘ ’’آپ فکر نہ کریں چاچی! میں نے دن میں بہت آرام کر لیا تھا۔ ابھی آپ کو دوائی دے کر میں بھی لیٹ جائوں گی۔۔۔۔۔ اور بیٹی کے ہوتے ہوئے کسی صغراں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنا بیڈ یہاں ہی لگا لیا ہے۔‘‘ ’’وہ تو پتہ ہے بیٹی!۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔‘‘ اُن کا چہرہ چمک اٹھا تھا۔ ’’یہاں سونے سے ڈسٹرب ہوتی ہو رات کو۔ اس لئے کہہ رہی تھی۔ ’’کوئی ڈسٹرب نہیں ہوتی چاچی! اپنی ماں کی خدمت کر کے کوئی ڈسٹرب ہوتا ہے بھلا۔‘‘ ’’اللہ نے مجھے بیٹی نہیں دی تھی تو مجھے بڑی حسرت تھی۔ لیکن اب تمہاری شکل میں اللہ نے مجھے بیٹی دے دی ہے۔ پتہ ہے جب ملک صاحب نے آ کر بتایا کہ انہوں نے ایاز کا رشتہ طے کر دیا ہے تمہارے ساتھ تو میں بہت پریشان ہوئی تھی۔ گھر سے گئے تھے تو ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔ بلکہ جب سے ایاز آیا تھا میں ہی کہہ رہی تھی کہ آجی کی شادی کر دیتے ہیں کوئی اچھی لڑکی دیکھ کر تو وہ ہنس کر ٹال جاتے تھے۔ ’’کیوں پابند کرتی ہو اُسے؟۔۔۔۔۔ کچھ دن آزاد رہنے دو۔ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اگلے سال آئے گا تو پھر سوچیں گے۔‘‘ ’’میں تو حیران رہ گئی، رشتہ ہی نہیں وہ تو چند دن میں رخصتی کروانے کی بات کر رہے تھے۔ پتہ نہیں کیسے مزاج کی ہے ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔‘‘ میں نے دبے دبے لہجے میں کہا تو انہوں نے تسلی دی کہ بہت اچھی ہے۔ اور ایلا بچے! جب تمہیں دیکھا تو اللہ کا شکر ادا کیا۔ میرا آجی خوش قسمت ہے۔ ایسی بہوئیں تو نصیب والوں کو ملتی ہیں۔ ہم بڑے خوش نصیب ہیں۔‘‘ اور ایاز ملک کہتا تھا میری بد نصیبی کہ تم میری زندگی میں میری خواہش کے بغیر داخل ہوئی ہو۔ لیکن ایک روز میں اپنی بدنصیبی کو خوش نصیبی میں بدل دوں گا۔۔۔۔۔ اور اب وہ یقینا کیتھی کی ہمراہی میں خود کو خوش نصیب سمجھ رہا ہو گا۔ ’’خوش نصیب تو میں ہوں کہ آپ کے وجود سے میں نے ماں کی محبت کو جانا۔‘‘ ایاز کا خیال جھٹک کر اس نے جھک کر چاچی کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ تب ہی آفتاب ملک کمرے میں داخل ہوئے۔ ’’یہ ماں بیٹی میں کیا باتیں ہو رہی ہیں بھئی؟‘‘ ShareThis ’’کچھ نہیں۔‘‘ چاچی مسکرائیں۔ ’’میں کہہ رہی تھی اگر میری بیٹی ہوتی تو ایلا سے زیادہ میری خدمت نہ کرتی۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ یہ تو ہے۔‘‘ وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایلیا نے محسوس کیا ان کا چہرہ کچھ بجھا بجھا سا تھا۔ وہ ہر روز کی طرح نہیں لگ رہے تھے۔ ہسپتال سے آتے ہوئے جو ایکسرے اور ٹیسٹ ہوئے تھے ان کی رپورٹس آج ملنا تھیں۔ کہیں۔۔۔۔۔ ’’چاچی کی رپورٹس ملیں؟‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ ابھی ایک دو رہ گئی ہے۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’سب ٹھیک ہیں نا۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔ ’’ابھی ڈاکٹر کو نہیں دکھائیں۔ باقی بھی مل جائیں تو پھر جائوں گا۔ دوائیں کھلا دیں؟‘‘ انہوں نے بات مکمل کر کے ساتھ ہی پوچھ لیا۔ ’’ابھی پندرہ منٹ تک دوں گی۔‘‘ ’’بیٹا! آج تم اپنے کمرے میں سو جائو۔ میں ادھر رہوں گا تمہاری چاچی کے کمرے میں۔ اگر ضرورت پڑ گئی تو تمہیں جگا لوں گا۔ بہت تھکی تھکی لگ رہی ہو۔‘‘ انہوں نے بغور اس کی طرف دیکھا۔ ’’نہیں، نہیں تو۔۔۔۔۔ تھکن تو بالکل بھی نہیں ہے۔ دن کو سو گئی تھی میں۔‘‘ ’’آجی کا فون نہیں آیا تین دنوں سے؟‘‘ چاچی نے پوچھا۔ ’’آیا تھا آج۔‘‘ ’’مجھ سے بات نہیں کروائی۔‘‘ انہوں نے شکوہ کیا۔ ’’تم آرام کر رہی تھیں۔ پھر آیا تو کر لینا۔‘‘ ان کا لہجہ یک دم سپاٹ تھا۔ ’’وہ ٹھیک تو ہے نا؟۔۔۔۔۔ آنے کا نہیں بتایا؟۔۔۔۔۔ چار سال تو ہو گئے اسے یہاں آئے اور ہم سے ملے بھی دو سال ہو گئے ہیں اب تو۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’کچھ نہیں کہا آنے کا۔‘‘ ’’اب فون آیا تو اسے ضرور کہئے گا آنے کا۔ آپ کی بات تو مانتا ہے۔ پتہ نہیں زندگی میں ملاقات نصیب ہو گی یا نہیں۔ مرنے سے پہلے ایک بار اسے دیکھ لوں۔‘‘ ان کی آواز میں نمی گھل گئی تو وہ ہولے سے ان کا ہاتھ تھپتھپا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’چاچی کو دوائی دے کر سو جانا تم بھی۔ اگر کوئی پرابلم ہو تو جگا لینا مجھے۔‘‘ ’’جی۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے سر ہلا دیا۔ ’’میں اکلوتی تھی اور سوچتی تھی کہ میرے کم از کم چار بچے تو ضرور ہوں گے۔ لیکن اللہ کی رضا۔‘‘ انکل آفتاب کے جانے کے بعد چاچی ہولے ہولے اس سے باتیں کرنے لگیں۔ ایاز کے بچپن کی باتیں، نینا عادل کی باتیں۔ وہ بے دھیانی سے سنتی رہی۔ اگر ایاز نے اسے طلاق دے دی تو۔۔۔۔۔ تو پھر یہاں رہنے کا کیا جواز ہو گا اُس کے پاس؟ اور پھر اسے وہاں ہی رہنا پڑے گا، ماڈل ٹائون والے اس گھر میں۔ اور اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس سے تو اچھا تھا وہ وہاں ہی رہتی، ایاز کے ساتھ اور اس کی سرد مہری اور اجنبیت برداشت کرتی رہتی۔ وہ اذیت اس اذیت سے بہرحال کم تھی۔ وہ تو کبھی بھی اس کا اپنا نہیں تھا۔ محض ایک کاغذی رشتہ۔ اور یہ جو خون کے رشتے تھے، یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔۔ اگر وہ اب بھی خاموش رہتی، ایاز سے نہ کہتی کہ اسے پاکستان بھیج دے۔ اُس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر چاچی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ اس نے سامنے کلاک پر نظر ڈالی۔ دوا کا وقت ہو چکا تھا۔ دوا کھانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ سو گئیں تو اس کا دل گھبرانے لگا۔ کیا ہو گا اس کا؟۔۔۔۔۔ کاش ابی جان ہی اس کا خیال کر لیتے۔ یاپھر بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا۔ یہ تو اس کے اپنے ہی تھے۔ اور بوا خیرن کہتی ہیں ماں نہ رہے تو باپ بھی دوسری بیوی لا کر اولاد کو بھول جاتا ہے، ابی جان کی طرح۔ اور بھائی شادیوں کے بعد پرائے ہو جاتے ہیں۔ بھلا ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔ دل پر بوجھ سا پڑ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر سوبئی ہوئی چاچی کو دیکھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ ShareThis باہر خاموشی تھی۔ اس نے صحن کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ چودھویں کا چاند عین اس کے سر پر پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔ وہ کچھ دیریونہی بے دھیانی سے چاند کو دیکھتی رہی، پھر پیچھے مڑ کر برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ اپریل کا اسٹارٹ تھا اور ہلکی خنکی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ دن کو تو موسم کچھ گرم ہو جاتا تھا لیکن رات کے وقت خنکی ہو جاتی تھی۔ دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے ہوئے اس نے کوئی پندرھویں بار سوچا۔ ’تو ساری بات یہ ہے ایلیا اسفند یار! کہ تمہاری اس گھر میں اب کوئی جگہ نہیں اور تم نے بڑی غلطی کی جو ایاز سے کہا کہ وہ تمہیں پاکستان بھیج دے۔ ورنہ وہ نباہ تو رہا ہی تھا کسی نہ کسی طرح۔ کم از کم تمہارے ہوتے وہ کیتھی سے شادی تو نہ کرتا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟‘ عجیب سی مایوسی اس پر طاری ہو گئی۔ ’اور پتہ نہیں کب آج، کل یا پرسوں کسیروز اس کی طرف سے طلاق کے کاغذات آ گئے تو۔۔۔۔۔؟ ایک ناقابلِ بیان سا درد دل سے اٹھ کر پورے وجود میں پھیل گیا۔ پہلے آنکھیں نم ہوئیں اور پھر یہ نمی گالوں پر پھیل آئی۔ ’میں کہیں بھی، کسی بھی جگہ مطلوب نہیں تھی۔ نہ ماڈل ٹائون کے اس گھر میں اور نہ ایاز ملک کے اس اپارٹمنٹ میں۔۔۔۔۔ تو پھر بھلا میری کیا ضرورت تھی اس دنیا میں آنے کی؟‘ وہ سولہ سال جو اس نے ماڈل ٹائون کے اس گھر میں گزارے تھے وہ سولہ سال اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ ان سولہ سالوں میں بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کا اپنی اپنی شادی کے بعد معمولی سا التفات اور شادی سے پہلے اس کا تھوڑا خیال رکھنا اور بس۔۔۔۔۔ یہ تھا اس کی سولہ سالہ زندگی کا اثاثہ۔ اور بیچ کے چار سال، وہ اذیت ناک چار سال جن میں صرف ایاز ملک کی نفرت تھی، بیزاری تھی اور بس۔ اور چار سالوں بعد وہ دن جو اس نے ماڈل ٹائون میں گزارے تھے اجنبی رویوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ دونوں بھائیوں کا وہ معمولی التفات بھی وہو کھوجتی رہ گئی تھی۔ سوائے پہلے روز کے انہوں نے ان آٹھ دنوں میں اس سے پھر بات نہیں کی تھی۔ کوئی بات بھی نہیں۔ لبوں سے نکلنے والی آہ کو اس نے دانتوں تلے دبایا اور دائیں ہاتھ کی پشت سے گیلے رخساروں کو پونچھا۔ تب ہی ملک آفتاب نے ہولے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’ایلا بیٹا! یہاں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘ وہ پتہ نہیں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر کب باہر آئے تھے کہ اسے خبر تک نہیں ہوئی تھی۔ ’’یونہی انکل!۔۔۔۔۔ دل گھبرا رہا تھا۔‘‘ اس نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔ ’’بیٹا! تم کچھ پریشان ہو؟‘‘ وہ اس کے پیچھے سے آ کر اس کے برابر ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے تو اس نے بہت پھرتی سے ایک بار پھر رخساروں کو پونچھا۔ لیکن بھیگی پلکیں آفتاب ملک سے چھپی نہ رہ سکی تھیں۔ ’’نہیں تو۔۔۔۔۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’تم بھی کہتی ہو گی، عجب خود غرض لوگ ہیں۔ چند دن بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنے نہیں دیا۔ تمہاری چاچی کی طبیعت اب بہتر ہے۔ تمہیں لاہور چھوڑ آتا ہوں۔ جب آنا ہو، فون کر دینا۔‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے تڑپ کر ان کی طرف دیکھا۔ ’’مجھے نہیں جانا۔۔۔۔۔ میں یہاں ہی رہوں گی۔ چاچی کے پاس۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں بچے! تمہیں اپنی چاچی سے بہت محبت ہے۔ لیکن نئے رشتے بننے سے پرانوں کا حق ختم تو نہیں ہو جاتا نا۔ اُن کا بھی حق ہے تم پر۔ اور چاچی کی تم فکر نہ کرو۔ بتولاں اور صغراں ہیں نا۔ اور پھر ڈاکٹر بھی کہہ رہا تھا کہ کچھ دنوں کی بات ہے، واکر کے ساتھ چلنے لگیں گی۔ اور۔۔۔۔۔‘‘ ’’نہیں انکل! پلیز، مجھے ابھی نہیں جانا۔‘‘ اس کے حلق میں گولا سا پھنس گیا۔ اس سمے اس نے خود کو بڑا بے بس محسوس کیا تھا۔ وہ انکل آفتاب کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہاں اس کی کوئی چاہ نہیں۔۔۔۔۔ اور شاید یہ چاہ کبھی بھی نہیں تھی۔ تبھی تو چار سال پہلے اسے ایک ایسے شخص کے پلّے باندھ دیا گیا تھا جسے وہ مطلوب نہیں تھی۔ وہ اس کا طالب نہیں تھا۔ لیکن وہ اس کے پلّے باندھی گئی تھی۔ انکل آفتاب کے ہونٹوں پر شفیق سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
![]() And Your Lord Never Forget |
(#19)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ’’اچھا، جب تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں گی پھر جی بھر کر رہ آنا۔ اب چار سال بعد آئی ہو تو پھر نہ جانے کتنے سالوں بعد آئو۔‘‘ اُسے آفتاب ملک کی لا علمی پر افسوس ہوا۔ لیکن وہ ابھی انہیں کچھ نہیں بتا سکتی تھی۔ اور نینا۔۔۔۔۔ نینا عادل سے اس نے کہا تھا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ طلاق لے یا نہ لے لیکن اس کی زندگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اگر کیتھی کو اس سے فرق پڑتا ہو تو؟۔۔۔۔۔ اور یہ بات اسے مسلسل پریشان کر رہی تھی۔ تب ہی آفتاب ملک کی پاکٹ میں موجود سیل فون بج اٹھا۔ انہوں نے فوراً ہی فون نکال کر اٹینڈ کیا۔ ’’ہیلو، ایاز پتر!‘‘ وہ کہہ رہے تھے۔ اور یکدم جیسے اس کا دل ڈوب کر اُبھرا۔ ’’او، ہاں پتر! تیری اماں بھی ٹھیک ہیں۔ ہفتے ڈیڑھ ہفتے تک ڈاکٹر نے کہا ہے واکر سے چلنا شروع کر دیں گی۔ اور یہ بتائو، تین دن سے تم کہاں تھے؟‘‘ پتہ نہیں ایاز نے کیا کہا تھا کہ آفتاب ملک نے جواباً قدرے بلند آواز میں کہا۔ ’’تم سیریں کرتے پھر رہے ہو اور یہاں میں تمہاری اماں سے جھوٹ بولتا رہا ہوں کہ آجی کا فون آیا تھا۔‘‘ آفتاب ملک بات کر رہے تھے اور وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے تصور میں واشنگٹن ڈی سی کے اس اپارٹمنٹ میں پہنچ گئی جہاں چار سال اس نے ایاز کے سنگ کسی اجنبی کی طرح گزارے تھے۔ اس وقت پتہ نہیں وہاں کیا وقت ہو گا اور ایاز کہاں ہو گا، اپنے بیڈ روم میں۔ اور کیتھی کہاں ہو گی؟ شاید میرے بیڈ روم میں۔۔۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔۔۔ بھلا کیتھی وہاں کیوں ہو گی؟ اُسے تو وہاں ہونا چاہئے جہاں ایاز ہے۔ اور تین بیڈ روم کے اس اپارٹمنٹ میں جانے کے پہلے روز ہی ایاز نے اس سے کہا تھا۔ ’’یہ رہا تمہارا بیڈ روم۔ میری قوتِ برداشت زیادہ نہیں ہے۔ میں نے وہاں پاکستان میں پتہ نہیں کیسے خود پر جبر کیا لیکن یہاں نہیں۔ تم میری خواہش نہیں ہو لیکن عورت ہو۔ اور پھر میری وائف۔ اس لئے میرے بیڈ روم میں قدم نہ رکھنا۔‘‘ نہ جانے کس بات پر آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا تھا۔ ’’اُداس تو نہیں ہو یار!یہ تمہاری بیوی ہماری بھی بہو ہے بلکہ بیٹی ہے۔ کچھ دن اس کی جدائی برداشت کر لو۔ ذرا تمہاری اماں پہلے کی طرح چلنے پھرنے لگے تو پھر بھجوا دوں گا۔ یار! تُو بڑا لکی ہے۔‘ اس کا دل جیسے نیچے پاتال میں جا گرا اور دھڑکن اتنی تیز ہو گئی کہ اسے لگا جیسے وہ اپنی دھڑکنوں کو سن سکتی ہو۔ اب پتہ نہیں ایاز کیا کہے گا۔ اس کا پورا وجود سماعت بن گیا۔ اس نے پوری توجہ ایاز کی سنائی دیتی مدھم آواز پر لگا دی۔ لیکن سمجھ نہیں پائی۔ ’’کیا کہہ رہے ہو تم آجی؟‘‘ اُس نے کن انکھیوں سے آفتاب ملک کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں اُلجھن تھی۔ ’’ہمیں خود غرض سمجھا ہے تُو نے کہ اپنے آرام کی خاطر ہم اسے اپنے پاس ہی رکھ لیں گے؟۔۔۔۔۔ تم دونوں ہنسو، بسو، خوش رہو۔ بس پندرہ بیس دن تک بھجوا دوں گا۔ ہمارا کیا ہے، چار دن کے مہمان ہیں۔ ایک بار تمہارے بچوں کی خوشی بھی دیکھ لیں یار۔ کہیں تم نے بھی کم بچے خوشحال گھرانہ کا سبق تو نہیں پڑھ لیا؟‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا۔ اگر جو زندگی بالکل سیدھی سپاٹ ہوتی تو شاید وہ آفتاب ملک کی اس بات پر شرما جاتی شاید۔ لیکن اس وقت تو وہ صرف دل کی دھڑکنوں کو سن رہی تھی جنہوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔ ’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ یکدم آفتاب ملک کا قہقہہ دم توڑ گیا۔ اُس نے چمکتے چاند کی روشنی میں ان کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا تو سر جھکا لیا۔ ’’بابا! میں چاہتا ہوں ایلیا اب آپ کے ساتھ پاکستان میں ہی رہے۔ میں یہاں اسے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا۔ میں نے کوشش کی کہ آپ کے ساتھ کیا وعدہ نباہ سکوں۔ لیکن آئی ایم سوری بابا!‘‘ کچھ لفظ اس کے کانوں میں پڑے تو اس کا سر مزید جھک گیا۔ ’’تم ایلیا کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے؟۔۔۔۔۔ کیوں ایاز؟۔۔۔۔۔ کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایلیا جیسی بیوی ملی ہے۔‘‘ اب وہ کہہ رہے تھے۔ لہجے میں یک دم دھیما پن آ گیا تھا۔ ’یا اللہ اس وقت، اس سمے کچھ ایسا کر دے کہ ایاز مزید کچھ نہ کہہ سکے۔‘ اب اس نے سر گھٹنوں پر رکھ لیا تھا۔ ’’لو، بات کرو ایلا سے۔ اور میں اب ایسی فضول بات نہ سنوں۔ تمہاری ماں کی طبیعت ٹھیک ہو جائے تو میں خود آئوں گا ایلا کے ساتھ۔ تمہارا مسئلہ کیا ہے، یہ میں وہاں ہی آ کر پوچھوں گا۔‘‘ ShareThis ان کی آواز میں تنبیہہ اور ہلکا غصہ تھا۔ انہوں نے بغیر خدا حافظ کہے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’لو، بات کرو۔‘‘ اس نے بہ مشکل سر اٹھایا۔ ویں جیسے سر پر وزنی بوجھ دھرا ہو اور اایک تنویمی کیفیت میں فون پکڑ لیا۔ ’’ہیلو!۔۔۔۔۔ ہیلو!۔۔۔۔۔ ‘‘ دوسری طرف ایاز کہہ رہا تھا۔ ’’ہیلو!۔۔۔۔۔‘‘ اس کے لبوں سے مری مری سی آواز نکلی۔ ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ ایاز کی آواز گو آہستہ تھی لیکن وہ اس کے غصے اور جھنجلاہٹ کو محسوس کر سکتی تھی۔ ’’میں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری اور نگاہیں اٹھا کر آفتاب ملک کو دیکھنا چاہا جو فون اسے پکڑا کر اب برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ ’’میں۔۔۔۔۔ وہ چاچی۔۔۔۔۔‘‘ ’’تمہیں نینا آپی نے بتا دیا ہے نا کہ میں۔۔۔۔۔‘‘ ’’جی۔‘‘ اب جی کے ساتھ بے شمار آنسو بھی پلکوں تک چلے آئے تھے۔ ’’تو پھر۔۔۔۔۔؟‘‘ اس کا انداز استفہامیہ تھا۔ ’’وہ چاچی۔۔۔۔۔‘‘ اس نے پھر نامکمل بات کی۔ لفظ نہ جانے کہاں کھو گئے تھے۔ ’’مائی گاڈ۔۔۔۔۔ ایلیا بی بی! اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ میری ماں کی خدمت کر کے تم میرے دل میں یا میرے گھر میں کوئی جگہ بنا لو گی تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔‘‘ ’’میں ایسا نہیں سمجھتی۔‘‘ یکایک ہی اس کا لہجہ صاف ہو گیا تھا اور آنسو خشک ہو گئے تھے۔ ایک لمحے کے لئے اس کی اس صاف گوئی پر ایاز چپ ہو گیا تھا۔ ’’نینا آپی نے مجھے بتایا تھا کہ تم طلاق نہیں لینا چاہتیں؟۔۔۔۔۔ یہ حماقت ہے۔ تم مجھ سے علیحدگی کے بعد کہیں، کسی اور کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکتی ہو۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے پھر کہا۔ ’’لیکن میں ایسا نہیں چاہتی۔‘‘ ’’کیتھی بہت پوزیسو ہے۔ وہ تو مجھ کو چھونے والی ہوا سے بھی جیلس ہو جاتی ہے۔ تمہارے دل میں اگر ذرا سا بھی واپسی کا خیال ہے تو۔۔۔۔۔‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔ میرا ایسا کوئی خیال نہیں۔ نہ ہی میں اب وہاں واپس آئوں گی۔‘‘ ’’اور بابا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ غالباً آفتاب ملک سے خوف زدہ تھا۔ ’’وہ میری مرضی کے بغیر مجھے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ آپ بے فکر رہیں۔‘‘ ’’اوکے۔ لیکن اگر کسی لمحے تمہیں اپنیبے وقوفی کا احساس ہو جائے تو مجھے بتا دینا۔ میں اسی لمحے پیپرز بھجوا دوں گا۔‘‘ ’’بابا سے بات کریں گے؟‘‘ جواباً اس نے کہا۔ ’’نہیں۔۔۔۔۔ کیا اماں جاگ رہی ہیں؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ’’اوکے دین۔‘‘ اس نے فون بند کر دیا۔ ایک لمحے کو اسے خود پر حیرت ہوئی۔ یہ میں تھی، ایلیا اسفند یار جو ابھی ایاز ملک سے بات کر رہی تھی۔ دوسرے ہی لمحے اس نے سر جھٹک کر پیچھے مڑ کر دیکھا اور کھڑی ہو گئی اور سر جھکائے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر اس نے آفتاب ملک کی طرف فون بڑھایا۔ ’’ایلا۔۔۔۔۔!‘‘ کسی گہری سوچ سے چونک کر انہوں نے اس سے فون لے لیا۔ ’’آجی تمہارے ساتھ ٹھیک تو تھا نا؟‘‘ ’’جی۔‘‘ اس نے نظریں نہیں اٹھائیں۔‘‘ ’’پھر وہ اس طرح کیوں کہہ رہا تھا کہ وہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔‘‘ ان کی آواز لڑکھڑا گئی اور وہ خاموش ہو گئے۔ ’’کیا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے اس سے تمہارا؟‘‘ انہوں نے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا۔ ’’نہیں۔‘‘ اندر ہی اندر شرمندہ ہوتے ہوئے اس نے کہا۔ اس نے اب بھی نظریں نہیں اُٹھائی تھیں۔ ShareThis ’’والدین کا بھی تو اولاد پر حق ہوتا ہے۔‘‘ سوچ سوچ کر وہ بولی۔ ’’اور آپ کا بھی تو حق ہے نا ہم پر۔ اور میں آپ اور چاچی کے پاس رہ کر آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ دعائیں لینا چاہتی ہوں۔ اتنے سال وہاں رہ رہی ہو۔ اب سال دو سال یہاں رہ لوں۔‘‘ ’’تو تم۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے بہ غور اسے دیکھا۔ ’’تم نے مجبور کیا اسے کہ وہ تمہیں یہاں بھیج دے۔ جھلّی نہ ہو تو۔ دعائیں تو ہم یوں بھی تم دونوں کے لئے کرتے ہیں۔ تم پاس ہو یا نہ۔‘‘ اُن کے لہجے سے یکایک اطمینان جھلکنے لگا۔ ’’تو ناراضگی سے کہہ رہا تھا وہ کہ اب تم یہاں ہی رہو۔ میں بھی سمجھا کہ وہ۔۔۔۔۔ خیر۔‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسے۔ ’’اب چل کے سو جائو میرا بچہ! صبح بات کریں گے۔ بڑا ظالم شہر ہے وہ۔ اور وہاں ایاز کو اکیلا چھوڑنا عقلمندی نہیں ہے۔ میری بیٹی بھی بہت عقلمند ہے۔ چل جا شاباش، سونے کی کوشش کر۔ اور اگر نیند نہیں آ رہی تو دودھ گرم کر دوں؟‘‘ ان کے لہجے میں شفقت و محبت کے سمندر سما گئے تھے۔ ’’نہیں۔‘‘ وہ شرمندہ ہو گئی۔ ’’پتہ ہے، کبھی کبھی جب رات کو بتولاں، صغراں اپنے کوارٹر میں چلی جاتی ہیں نا اور تیری چاچی کا دل چاہتا ہے چائے پینے کو تو میں خود بنا لیتا ہوں۔ کسی دن تمہیں بھی پلائوں گا بنا کر۔ الیکٹرک کیٹل میں پانی بوائل کیا اور ۔۔۔۔۔ دودھ لا دوں؟‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ’’نہیں، نہیں۔‘‘ وہ اور شرمندہ ہوئی۔ وہ اس شفقت اور محبت کے پیکر سے جھوٹ بول رہی تھی۔ دھوکا دے رہی تھی۔ ایاز اسے اپنی زندگی سے الگ کر چکا تھا اور وہ۔۔۔۔۔ ’’مجھے دودھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ جھکی نظریں اوپر نہیں اُٹھی تھیں۔ دروازے کے پاس رک کر انہوں نے بغور اسے دیکھا اور پھر تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ ’’تمہاری چاچی سو رہی ہیں۔ تم بھی سو جائو، شاباش۔ اور آجی کی فکر نہ کرنا۔ تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائے تو کان سے پکڑ کر لاتا ہوں اسے پاکستان۔ بہت ڈھیل دے دی اسے۔‘‘ ’’شب بخیر۔‘‘ اس نے اندر قدم رکھا۔ ’’شب بخیر۔۔۔۔۔ شب بخیر۔‘‘ وہ دروازہ بند کر کے اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کمرے میں چاچی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے۔ ’اگر جو اُس گھر میں میرے لئے ذرا بھی گنجائش ہوتی تو میں کس لئے ان پیارے لوگوں کو دھوکے میں رکھتی؟‘ وہ لیٹ گئی۔ اور اس نے تکیہ آنکھوں پر رکھ لیا۔ وہ آنسو جنہیں اب تک شعوری کوشش سے اس نے روکا ہوا تھا، اُس کے رخسار بھگونے لگے۔ …٭٭٭… دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ مئی کا آغاز ہو چکا تھا اور اس سارے عرصے میں لاہوور سے ایک بار بھی فون نہیں آیا تھا۔ ایک بار خود اس نے فون کیا تو انوشہ نے ریسیو کیا تھا۔ ’’سب کیسے ہیں انوش؟‘‘ ’’اے ون۔‘‘ ’’اتنے دن ہو گئے مجھے یہاں آئے ہوئے۔ کسی نے فون بھی نہیں کیا۔‘‘ ’’لو۔‘‘ وہ زور سے ہنسی تھی۔ ’’پہلے کب کوئی آپ کو فون کرتا تھا؟‘‘ ایک لمحے کو وہ چپ ہو گئی۔ انوشہ غلط تو نہیں کہہ رہی تھی۔ بھلا بیتے چار سالوں میں کب کسی نے فون کیا تھا۔ ’’اور ایلیا! آپ سنائیں۔۔۔۔۔ کیسی ہیں؟‘‘ انوشہ پوچھ رہی تھی۔ وہ چونکی۔
![]() And Your Lord Never Forget |
(#20)
![]() |
|
||||
![]() ![]() ![]() ’’اچھی ہوں۔‘‘ ’’کبھی چکر لگایئے نا۔‘‘ انوشہ کی آفر پر وہ یکدم خوش ہو گئی۔ ’’ہاں، آئوں گی کسی روز۔ انکل کہہ رہے تھے کہ چھوڑ جائیں گے۔‘‘ ’’آپ کا مطلب ہے آپ رہنے کے لئے آئیں گی؟‘‘ انوشہ اپنی حیرت چھپا نہیں سکی تھی۔ ’’ہاں۔ چند روز کے لئے۔‘‘ ’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسی۔ ’’بے چاری گڑیا کو آپ کا کمرہ خالی کرنا پڑے گا۔ ویسے ایلیا! یہاں آپ کے آنے سے کسی کو خوشی نہیں ہو گی۔‘‘ ورہ خطرناک حد تک سچ بولتی تھی۔ یہ بات وہ جانتی تھی لیکن انوشہ کے منہ سے سن کر ایک لمحہ کو جیسے اسے سکتہ سا ہو گیا تھا۔ ’’آپ شاید برا مان گئی ہیں؟‘‘ انوشہ کو اپنے سچ کی تلخی کا احساس ہو گیا تھا۔ ’’نہیں، مجھے معلوم ہے۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔ ’’حالانکہ کم از کم ابی جان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا نا آپ کے آنے پر۔ اور انہیں آپ کو یاد بھی کرنا چاہئے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بھی۔۔۔۔۔‘‘ انوشہ وضاحت کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ ’’لیکن میں نے ایک روز آپ کو یاد کیا تھا۔‘‘ وہ شاید اسے خوش کرنا چاہ رہی تھی۔ ’’جھوٹ نہیں انوش!‘‘ اس کے لہجے میں ایک دم ہی اس کے لئے پیار امڈ آیا تھا۔ ’’رئیلی ایلیا!۔۔۔۔۔ وہ میری فرینڈ ہے نا مومی۔ اس نے مجھے اپنی آپی سے ملایا تو تب اسروز میں نے آپ کو یاد کیا تھا اور مومی کو بھی بتایا تھا آپ کے متعلق۔‘‘ ’’اچھا، تھینکس۔‘‘ وہ اتنی سی بات پر ہی خوش ہو گئی تھی۔ ’’اوکے، ممی آ رہی ہیں۔ آپ چکر لگانا۔ لیکن رہنے کے لئے نہیں آنا۔ بے چاری گڑیا۔‘‘ وہ زور سے ہنسی تھی اور اس نے ریسیور رکھ دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی تھی۔ یہ انوشہ بھی کتنے مزے سے سب کو ان کے نام لے کر بلاتی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ وہاں رہتی کچھ دن اور انوشہ سے دوستی کر لیتی۔ اس کی چھوٹی سی، پیاری سی بہن۔ اس روز وہ انوشہ کی باتیں سوچ سوچ کر اس کی اس خطرناک حد تک سچ بولنے والی عادت سے محظوظ ہوتی رہی۔ لیکن چاہنے کے باوجود وہ پھر فون نہیں کر سکی تھی۔ ضروری تو نہیں تھا کہ انوشہ ہی ریسیو کرتی۔ اور پھر چاچی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہو پا رہی تھی۔ واکر کے ساتھ چلنے کی کوشش ناکام رہی تھی۔ چند قدم چلنے سے درد اتنا شدید ہونے لگتا کہ برداشت سے باہر ہو جاتا تھا۔ آپریشن سے پہلے اگرچہ درد شدید ہی تھا لیکن اتنا شدید ہرگز نہیں تھا۔ ’’لگتا ہے آپریشن صحیح نہیں ہوا۔‘‘ ایک روز اس نے آفتاب ملک سے کہا۔ ’’ہاں، شاید۔‘‘ ’’آپ ڈاکٹر سے بات کریں نا۔‘‘ ’’ڈاکٹر ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں ایک سیمینار میں شرکت کے لئے۔ میں چاہتا ہوں وہ آ جائیں تو انہی سے چیک کروائوں۔‘‘ ’’آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں انکل! آپ مجھے تو بتائیں نا، دوسرے ڈاکٹرز نے کیا کہا ہے؟‘‘ وہ کئی دن سے انہیں پریشان دیکھ رہی تھی۔ ’’نہیں۔۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں۔۔۔۔۔ میں تمہاری چاچی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں پتر!‘‘ ’’پھر کیوں پریشان ہیں؟‘‘ ’’بیٹھ جائو۔‘‘ انہوں نے ہاتھ میں پکڑی کتاب بیڈ پر رکھ دی تھی اور بغور اسے دیکھا تھا۔ وہ اس روز انہیں چائے دینے گئی تھی۔ چاچی سو رہی تھیں اور وہ بے اختیار ہی پوچھ بیٹھی تھی۔ ’’آجی کا فون آیا؟‘‘ اس کے بیٹھتے ہی انہوں نے پوچھا۔ ’’ہاں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہاں۔‘‘ اس نے سٹپٹا کر انہیں دیکھا۔ ’’ایک بات کہو نا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ان کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس کی نظریں جھک گئیں۔ پتہ نہیں لوگ کتنی آسانی سے اور کیسے اتنے بڑے بڑے جھوٹ بول لیتے ہیں۔ ShareThis ’’کب آیا تھا؟‘‘ انہوں نے جیسے اس کی مشکل آسان کی۔ ’’وہ۔۔۔۔۔ دو تین دن ہوئے۔‘‘ اس نے تھوک نگلا۔ ’’ایلیا بیٹا!۔۔۔۔۔ ادھر میری طرف دیکھ کر بات کرو۔‘‘ اسے لگا وہ اتنے شفیق، اتنے معزز شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ نہیں بول سکے گی۔ اس کی نظریں نہ اٹھ سکیں اور لب خشک ہو گئے۔ ’’ایلیا بیٹا۔۔۔۔۔!‘‘ انہوں نے ایک گہری سانس لی۔ ’’مجھے نینا نے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں یکدم پانی بھر آیا اور وہ آنسو روکنے کی کوشش میں نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے بے دردی سے کاٹنے لگی۔ لیکن آفتاب ملک شاید اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ ’’میں۔۔۔۔۔ میں تم سے شرمندہ ہوں بیٹی!‘‘ ’’اس طرح مت کہیں پلیز۔ آپ کا کیا قصور؟ شاید میں ہی۔۔۔۔۔‘‘ اس نے تڑپ کر سر اٹھایا اور پھر آنکھوں میں جمع ہونے والا پانی رخساروں پر بہہ آیا۔ ’’میں نے سوچا تھا، ایاز نے کبھی میری بات نہیں ٹالی۔‘‘ وہ ہولے ہولے سے بول رہے تھے۔ ’’وہ ضرور میرا مان رکھے گا۔ میں نے اس سے پوچھے بغیر اس کے ساتھ تمہارا رشتہ طے کر دیاتھا۔‘‘ ’’آپ کو ان سے پوچھ لینا چاہئے تھا۔‘‘ بے اختیار ہی اس کے لبوں سے نکلا تھا۔ ’’ہاں۔۔۔۔۔ عام حالات میں شاید میں ایسا ہی کرتا۔ میں کوئی روایتی قسم کا باپ نہیں تھا کہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرتا۔ میں نے ہمیشہ اس کی ہر خواہش پوری کی۔ میں اسے امریکہ نہیںبھیجنا چاہتا تھا لیکن اس نے کہا، میں نے مان لیا۔ شادی کے معاملے میں بھی میں نے اسے کہہ رکھا تھا کہ وہ جہاں بھی، کسے بھی پسند کرے ہم دونوں اس کی خوشی پر خوش ہوں گے لیکن۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ وہ دم سادھے سن رہی تھی۔ رخساروں تک بہہ آنے والے آنسو خود ہی خشک ہو گئے تھے۔ ’’میں جب لاہور گیا اور اسفند یار نے بتایا کہ اس نے تمہارا رشتہ زریاب خان سے طے کر دیا ہے جو کہ تمہاری چھوٹی امی کا خالہ زاد بھائی تھا، جس کی عمر کم از کم ساٹھ سال تھی اور تم صرف سولہ سال کی تو میں ششدر رہ گیا۔ ’’یہ ظلم ہے اسفند یار!‘‘ میں حیرت سے باہر آیا تو کہا۔ تم صرف اسفند یار، میرے عزیز دوست کی ہی بیٹی نہ تھیں بلکہ تمہاری امی کو میں نے بہن بنایا تھا اور بہن کی طرح ہی اسے اپنے گھر سے رخصت کیا تھا۔‘‘ ایلیا نے بے حد حیران ہو کر آفتاب ملک کی طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ کیا اس کی امی کے بہن بھائی، والدین کوئی نہیں تھے؟ اسے اپنے ننھیالی رشتوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ ایک بار اس نے اپنے بڑے بھیا سے پوچھا تھا جب ابی جان چھوٹی امی کو بیاہ کر لائے تھے۔ اور ایک روز نہ جانے کس بات پر چھوٹی امی نے اسے مارا تھا۔ تب اس نے سوچا تھا آخر اس کے نانا، نانی، ماموں، خالہ کوئی تو ہو گا۔ چھوٹی امی کی مار کھانے سے بہتر ہے کہ وہ ان کے گھر چلی جائے۔ اور بڑے بھیا نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ ’’مجھے تو معلوم نہیں۔ شاید ابی جان کو پتہ ہو۔‘‘ اور ابی جان سے پوچھنے کی وہ ہمت نہیں کر سکی تھی۔ اس نے خود ہی خود دل میں فرض کر لیا تھا کہ اس کی امی جان کے والدین وفات پا چکے ہوں گے اور وہ اکلوتی ہوں گی۔ لیکن آج آفتاب انکل کے منہ سے یہ سن کر کہ انہوں نے اس کی امی کو اپنے گھر سے رخصت کیا تھا وہ بے اختیار پوچھ بیٹھی۔ ’’کیا ان کے والدین نہیں تھے؟‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ ایسا ہی تھا۔‘‘ آفتاب ملک اس کی طرف نہیںدیکھ رہے تھے۔ ’’اور بہن بھائی؟‘‘ ’’کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔ مجھے اُس نے منہ بولا بھائی بنا رکھا تھا۔ وہ روزِ محشر مجھ سے ضرور شکوہ کرتی کہ بھائی میری ایلیا پر ظلم ہو رہا تھا اور تم نے کچھ نہیں کیا۔ تبھی میں نے اسفند سے احتجاج کیا تو اس نے کہا کہ تمہیں ہمدردی ہے ایلیا سے تو تم کر لو اپنے بیٹے سے اس کی شادی۔ ’’تو ابی جان نے۔۔۔۔۔‘‘ وہ آفتاب ملک کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ShareThis ’’میں نے آجی سے نہیں پوچھا اور اسفند سے کہہ دیا، ٹھیک ہے۔ میں ایاز کی شادی ایلیا سے کر لیتا ہوں۔ لیکن پہلے کچھ دیر اپنی بیٹی سے بات کر لوں۔۔۔۔۔ اور یوں۔۔۔۔۔ مجھے بہت مان تھا، مجھے یقین تھا آجی میرا مان رکھے گا۔ لیکن خیر۔‘‘ انہوں نے سر جھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’اب تم۔۔۔۔۔‘‘ ’’میں۔۔۔۔۔‘‘ وہ چونکی اور اس نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا۔ خشک آنکھیں لمحوں میں سمندر بن گئیں۔ وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھ ان کے پائوں پر رکھے۔ ’’انکل! پلیز۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں سے مت بھیجئے گا۔ میں یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں، آپ کے پاس، چاچی کے پاس۔ ہمیشہ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز انکل!‘‘ ’’کیا کر رہی ہو ایلیا بچے!‘‘ انہوں نے گھبرا کر اس کے ہاتھ اپنے پائوں سے ہٹائے۔ ’’تم یہاں ہی رہو۔۔۔۔۔ جب تک دل چاہے۔ ہمیشہ ہمارے پاس۔ کس کی جرأت ہے کہ تمہیں یہاں سے نکالے۔ تم مالک ہو اس گھر کی۔ اور یہ گھر میں تمہارے ہی نام کر دوں گا۔ ذرا تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں۔ اور دیکھو، ابھی اپنی چاچی کو کچھ مت بتانا۔ نہیں تو وہ دل پر لے لے گی۔‘‘ انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ وہ روتے ہوئے یکدم ان کے سینے سے جا لگی۔ وہ ہولے ہولے اسے تھپک رہے تھے اور بائیں ہاتھ سے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بھی صاف کر رہے تھے۔ ’’اور وہ ایاز۔۔۔۔۔ اُس سے تو میں ابھی بات ہی نہیں کر رہا۔ روز ہی فون کرتا ہے۔ میں بات کئے بغیر بند کر دیتاہوں۔ لیکن تمہاری خاطر میں بات کروں گا اس سے کسی روز کہ اگر اسے ہماری پرواہ ہے تو وہ تمہیں بھی وہی حقوق دے جو اس گوری میم کو دے رہا ہے۔ چلو، شادی کر لی ہے اس نے لیکن تم بھی اس کی بیوی ہو۔ دوسری صورت میں زندگی بھر ہماری شکل نہ دیکھے۔ بلکہ ہمارے جنازے پر بھی نہ آئے۔ ’’نہیں انکل!۔۔۔۔۔ پلیز نہیں۔ میں ایسے ہی خوش ہوں۔ آپ کے سائے میں، آپ کے پاس۔ بس اب مجھے خود سے جدا مت کریں اور میرے لئے ایاز سے ناراض نہ ہوں۔ وہ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے۔ چاچی تو ان کے بغیر۔۔۔۔۔ اور پتہ ہے چاچی ان کو اتنا یاد کرتی ہیں۔ اتنی اداس ہیں ان کے لئے۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئی ان کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ ’’تم بہت اچھی ہو ایلیا! وہ کمبخت تمہارے جیسی اچھی لڑکی کے قابل نہیں تھا۔ پچھتائے گا۔ بہت پچھتائے گا وہ۔‘‘ وہ ہولے ہولے کہہ رہے تھے۔ ’’انکل پلیز! ایسا نہ کہیں۔ میرا اپنا نصیب۔۔۔۔۔ اُن کا کیا قصور؟ وہ تو بہت پہلے سے کیتھی کو پسند کرتے تھے۔ نینا نے مجھے بتایا تھا۔ میں تو زبردستی۔۔۔۔۔‘‘ ’’اچھا، اچھا۔‘‘ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس کا سر تھپتھپایا۔ ’’اب رونے والی بات نہیںہو گی۔ یہ چائے تو ٹھنڈی ہو گئی۔ اب اچھی سی چائے بنا کر لائو۔ اپنے لئے بھی لانا۔ دونوں باپ بیٹی بیٹھیں گے اور باتیں کریں گے۔‘‘ ’’انکل! آپ مجھے میری امی کے متعلق بتایئے گا۔۔۔۔۔ مجھے آج تک کبھی کسی نے ان کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ اس نے آنکھیں پونچھ لی تھیں۔ ’’تمہاری امی بہت اچھی تھیں۔۔۔۔۔ بالکل تمہارے جیسی، سادہ اورمعصوم سی، مخلص، محبت کرنے والی اور بہت خوب صورت۔‘‘ اُس کی آنکھوں سے جھلکتے اشتیاق کو دیکھ کر وہ ہولے سے مسکرائے۔ ’’پہلے چائے، باقی باتیں پھر۔‘‘ اور پھر اس روز کے بعد وہ اکثر ہی ان سے کرید کرید کر امی کی باتیں پوچھتی رہتی تھی۔ ان گزرے دنوں میں اس نے ماڈل ٹائون کے گھر میں گزرے شب و روز بھی ان سے شیئر کئے تھے۔ ’’اس گھر میں میری جگہ نہیں ہے انکل! وہاں کسی کو میری چاہ نہیں۔ ابی جان کو بھی میرا خیال نہیں۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔ اسفند بہت بدل گیا ہے۔ حالانکہ اسے تمہاری امی سے عشق تھا اور تمہارا تو دیوانہ تھا وہ۔ جس روز تم پیدا ہوئی تھیں تو اتناخوش تھا کہ اس نے ٹوکرے بھر کر مٹھائی ہسپتال میں تقسیم کی تھی اور مجھ سے کہتا تھا۔ یار آفتاب! میرے گھر میں پری اُتری ہے۔ میری اور ثمرین کی محبت کی نشانی۔‘‘ آفتاب ملک اُس کا دکھ سمجھتے تھے۔ ’’تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں تو پھر تم کالج میں ایڈمیشن لے لینا۔ یہاں کسی پرائیویٹ کالج میں۔ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا۔ تمہاری امی کو اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے کا دکھ تھا۔ وہ تمہیں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کرنا اس کا خواب تھا اور اب یہ خواب تم پورا کرنا۔ بی اے کر لو تو تمہیں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دوں گا۔‘‘ وہ مستقبل کے خواب بُنتے رہتے تھے۔ اس کے دل سے بہت سا بوجھ اتر گیا تھا۔ ہر لمحے جو ایک خوف سا اسے گھیرے رکھتا تھا وہ اس خوف سے نکل آئی تھی۔
![]() And Your Lord Never Forget |
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
baqaihaاnighat, kahawab, novelabhiaik, online, read, seema, urdu |
Thread Tools | |
Display Modes | |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
Read Realistic Qur'an Online | zamir | Quran | 4 | 07-04-2012 11:28 AM |
Online Diploma's learn in Urdu | (‘“*JiĢäR*”’) | Share Good Websites | 0 | 06-01-2012 11:40 AM |
*Read Online Quran* | Nida-H | Share Good Websites | 13 | 07-29-2010 12:38 PM |
URDU KAYBOROD Online | RAJA_PAKIBOY | Share Good Websites | 4 | 07-29-2010 12:31 PM |