Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
|
(#1)
![]() |
|
|||
۳۰ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت نہیں بخشی ہے کہ وہ انسان کو گمراہی قبول کرنے اور بری باتوں پر عمل کرنے کے لیے مجبور کر دے ۔ وہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو گمراہی کی طرف بلائے اور بری باتوں کی ترغیب دے اس لیے انسان شیطان کو الزام دیکر بری نہیں ہوسکتا۔ وہ خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے ۔ ۳۱ شیطان کے یہ کہنے کا مطلب کہ ’’ تم نے اس سے پہلے مجھے شریک ٹھہرایا تھا‘‘ یہ ہے کہ دنیا میں تم میری اطاعت اس طرح کرتے رہے جس طرح کہ اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے ۔ میرے کہنے سے تم نے توحید کا انکار کیا‘ غیر اللہ کو معبود ٹھہرایا، رسولوں کو جھٹلایا‘ آخرت کو نہ مانا‘ شریعت کا انکار کرتے رہے اور اپنی زندگی کی باک ڈور میرے ہاتھ میں دیدی کہ میں اپنی مرضی کے مطابق تمہیں چلاؤں ۔ اس طرح تم نے مجھے خدائی کے مقام پر بٹھادیا۔
|
Sponsored Links |
|
(#2)
![]() |
|
|||
۳۲ یعنی جنت میں اہل ایمان کا خیر مقدم سلامی کی مبارکباد سے ہوگا اور ہرطرف سے ان کے لیے سلامتی کی صدائیں بلند ہوں گی۔ وہاں جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو ان کے آداب ملاقات میں سلام کا کلمہ شامل ہوگا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت میں اہل ایمان کو کیسی پروقار زندگی نصیب ہوگی اور وہاں کا ماحول کتنا پُر امن ہوگا۔ بخلاف اس کے دوزخی ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ان پر ہر طرف سے پھٹکار پڑے گی۔ ۳۳ کلمۂ طیبہ کے معنیٰ اچھی اور پاکیزہ بات کے ہیں ۔ اس سے مراد کلمۂ توحید ہے جو اسلامی عقیدہ کی بنیاد اور ایمان کی اساس ہے ۔ اس کی مثال ایک اچھے درخت سے دی گئی ہے جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہی خصوصیت کلمۂ توحید کی ہے کہ اس کی جڑ انسانی فطرت کے اندر جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں یعنی کلمۂ توحید کی بنیاد پر عمل کا ایک تناور درخت وجود میں آتا ہے اور اعمال صالح ہونے کی بنا پر بلندی کی طرف چڑھتے ہیں اور خوب نشو و نما پاتے ہیں ۔ پھر یہ مثالی درخت جس طرح ہر وقت پھل دیتا ہے اسی طرح کلمۂ توحید کا فیضان ہر وقت جاری رہتا ہے اور آخرت میں اس کے ثمرات و برکات کا ظہور ہمیشگی کی نعمتوں کی شکل میں ہوگا۔
|
(#3)
![]() |
|
|||
۳۲ یعنی جنت میں اہل ایمان کا خیر مقدم سلامی کی مبارکباد سے ہوگا اور ہرطرف سے ان کے لیے سلامتی کی صدائیں بلند ہوں گی۔ وہاں جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو ان کے آداب ملاقات میں سلام کا کلمہ شامل ہوگا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت میں اہل ایمان کو کیسی پروقار زندگی نصیب ہوگی اور وہاں کا ماحول کتنا پُر امن ہوگا۔ بخلاف اس کے دوزخی ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ان پر ہر طرف سے پھٹکار پڑے گی۔ ۳۳ کلمۂ طیبہ کے معنیٰ اچھی اور پاکیزہ بات کے ہیں ۔ اس سے مراد کلمۂ توحید ہے جو اسلامی عقیدہ کی بنیاد اور ایمان کی اساس ہے ۔ اس کی مثال ایک اچھے درخت سے دی گئی ہے جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہی خصوصیت کلمۂ توحید کی ہے کہ اس کی جڑ انسانی فطرت کے اندر جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں یعنی کلمۂ توحید کی بنیاد پر عمل کا ایک تناور درخت وجود میں آتا ہے اور اعمال صالح ہونے کی بنا پر بلندی کی طرف چڑھتے ہیں اور خوب نشو و نما پاتے ہیں ۔ پھر یہ مثالی درخت جس طرح ہر وقت پھل دیتا ہے اسی طرح کلمۂ توحید کا فیضان ہر وقت جاری رہتا ہے اور آخرت میں اس کے ثمرات و برکات کا ظہور ہمیشگی کی نعمتوں کی شکل میں ہوگا۔
|
(#4)
![]() |
|
|||
۳۴ کلمۂ خبیثہ کے معنیٰ بری اور ناپاک بات کے ہیں ۔مراد باطل کلمہ ہے خواہ وہ شرک ہو‘الحاد ہو یا کفر۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے نکما درخت یعنی جھاڑ جھنکار جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی نہیں ہوتیں ۔ اسی طرح کلمۂ باطل کی جڑ انسانی فطرت کے اندر جمی ہوئی نہیں ہوتی اس لیے اس کو آسانی سے اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک بے فیض کلمہ ہے جو انسان کو اعمال صالحہ سے محروم کر دیتا ہے اور آخرت میں نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ۳۵ قول ثابت(مضبوط قول) سے مراد کلمۂ توحید ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کلمۂ توحید کو قبول کر لیتے ہیں یعنی ایمان لاتے ہیں ان کو ایک مضبوط اساس فراہم ہوتی ہے ۔ اس اساس پر ان کے عقائد میں مضبوطی‘ ان کے خیالات اور ان کے کردار میں استحکام پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس طرح اس کار زارِ حیات میں اللہ تعالیٰ انہیں استحکام اور ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور جب وہ قبر یعنی عالمِ برزخ میں پہنچتے ہیں تو وہاں بھی انہیں استقلال حاصل ہوتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ یہی بات ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے ‘ ے ُثبّتُ اللّٰہ۔۔۔۔۔الخ اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی
|
(#5)
![]() |
|
|||
۳۵ قول ثابت(مضبوط قول) سے مراد کلمۂ توحید ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کلمۂ توحید کو قبول کر لیتے ہیں یعنی ایمان لاتے ہیں ان کو ایک مضبوط اساس فراہم ہوتی ہے ۔ اس اساس پر ان کے عقائد میں مضبوطی‘ ان کے خیالات اور ان کے کردار میں استحکام پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس طرح اس کار زارِ حیات میں اللہ تعالیٰ انہیں استحکام اور ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور جب وہ قبر یعنی عالمِ برزخ میں پہنچتے ہیں تو وہاں بھی انہیں استقلال حاصل ہوتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ یہی بات ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے ‘ ے ُثبّتُ اللّٰہ۔۔۔۔۔الخ اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں بھی مضبوطی عطاء فرماتا ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘(بخاری کتاب التفسیر) اسی طرح قیامت کے دن انہیں موقف کی مضبوطی حاصل ہوگی جس کی بدولت وہ ابدی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے ۔ ۳۶ واضح رہے کہ اللہ کاچاہتا اس کی حکمت کے مطابق اور اس کے تمام فیصلے حکیمانہ ہوتے ہیں ۔ ۳۷ اشارہ قریش کی طرف ہے جنہیں عرب قوم کی قیادت حاصل تھی اور جنہوں نے مشرکانہ طور طریقے رائج کر کے قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔
|
(#6)
![]() |
|
|||
۳۸ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورئہ بقرہ نوٹ ۲۹ اور۲۰۰ ۳۹ مکہ میں جبکہ شریعت کے ابتدائی احکام ہی نازل ہوئے تھے نماز کا اہتمام کرنے اور اللہ کی خاطر خرچ کرنے کا حکم تاکید کے ساتھ دیاگیا جس سے ان دونوں چیزوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے نیز اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو اسے اللہ کی خاطر انفاق کرتے رہنا چاہیے اور یہ انفاق دونوں طریقے سے مطلوب ہے پوشیدگی میں بھی اور علانیہ بھی۔ پوشیدگی میں جو خرچ اللہ کی خاطر کیا جاتا ہے وہ ریا اور نمائش سے پاک ہوتا ہے اور علانیہ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دوسروں کو انفاق کی ترغیب ہوتی ہے لیکن اس صورت میں بھی اسے ریا اور نمائش سے پاک رکھنا ضروری ہے ۔ ۴۰ یہ اللہ کی ربوبیت(پروردگاری) پر استدلال ہے کہ تمہاری پرورش کا یہ سارا کام اسی نے کر رکھا ہے تو تم نے دوسروں کو خدا کس طرح بنالیا۔ پرورش کے اس پورے نظام میں کیا کسی کا کوئی حصہ ہے ۔ اگر نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے تو پھر وہ خدا کہاں سے ہوئے ؟اور عبادت جو سراسر اللہ کا حق ہے اس میں دوسروں کو شریک کرنے کے کیا معنیٰ ؟
|
(#7)
![]() |
|
|||
۴۱ مسخر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ چیزیں انسان کے تابع کر دی گئی ہیں جیسا کہ لوگ عام طور سے سمجھتے ہیں کیونکہ دن اور رات بہر حال انسان کے تابع نہیں ہیں بلکہ مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کی خدمت میں لگادی گئی ہیں اور ان کے ذریعہ انسان کی نفع رسانی کا سامان کر دیا گیا ہے ۔ ۴۲ یعنی انسان کو جو طبعی ضرورتیں تھیں وہ سب پوری کر دیں مثال کے طور پر سانس لینے کے لیے ہوا، پیاس بجھانے کے لیے پانی‘ بھوک مٹانے کے لیے غذا اور جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جوڑے کی ضرورت تھی۔ ان تمام ضرورتوں کو جو انسان کی فطری مانگیں ہیں پورا کرنے کا انتظام اس کے خالق نے کر دیا۔ اسی طرح اس کی فطرت کی اہم ترین مانگ ہدایت ہے اور اس کو پورا کرنے کا انتظام بھی اس کے خالق نے کر دیا۔
|
(#8)
![]() |
|
|||
۴۳ انسان اگر غور کرے تو وہ اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہے گا ہ اس کے خالق نے اس کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کے اس پر بے شمار احسانات ہیں ۔ اگر وہ کھانے کے ایک لقمہ ہی پر غور کرے تو شکر کا جذبہ اس کے اندر ابھرنے لگے کہ اس کے رب نے اس لقمہ کو تیار کرنے کے لیے کیسے کیسے اسباب کئے ۔ آسمان و زمین‘ بارش‘ ہواؤں اور سورج کی گرمی وغیرہ کو اس نے کس طرح سازگار بنایا کہ بیج مختلف مرحلوں سے گذر کر غلہ بنا اور غلہ مختلف مرحلوں سے گزر کر لقمہ بن گیا جس کو اب وہ مزے کے ساتھ کھا رہا ہے ۔ انسان کے لیے جب اپنے بالوں کویا آسمان کے تاروں کو گننا ممکن نہیں ہے تو وہ اللہ کی نعمتوں کو کیونکر گن سکتا ہے ؟ ۴۴ یہ عام انسان کا حال بیان ہوا ہے کہ وہ نہ اپنے رب کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور نہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے ۔
|
(#9)
![]() |
|
|||
۴۵ اس شہر سے مراد مکہ ہے اور اس کو امن والا شہر بنانے کی دعا ابراہیم علیہ السلام نے اس لیے کی تھی تاکہ اس کی یہ امتیازی خصوصیت لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی رہے کہ اس کی یہ خصوصیت اس کے مرکز توحید ہونے کی بنا پر ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو شرک اور بت پرستی سے بالکل پاک رکھا جائے ۔ اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مکہ کو حرم ٹھہراکر وہاں لڑائی ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دی۔ ۴۶ اس زمانہ میں بت پرستی کا فتنہ عام تھا اور ماحول کے دباؤ کے تحت انسان اس قسم کے فتنوں کا بہ آسانی شکار ہوجاتا ہے ا س لیے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اس سے بچنے کی دعا کی کہ توفیق الٰہی کے بغیر آدمی اس فتنہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
|
(#10)
![]() |
|
|||
۴۷ یعنی یہ بت بہ کثرت لوگوں کی گمراہ کا باعث بنے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہ بیان ایک تاریخی حقیقت ہے چنانچہ دنیا کی بڑی بڑی قومیں بت پرستی میں مبتلا رہی ہیں اور قوم نوح سے لیکر آج تک یہ سلسلہ برابر جاری ہے ۔ موجودہ دور کے انسان نے اگرچہ زبردست علمی ترقی کی ہے مگر بڑی بڑی متمدن قومیں بت پرستی کے معاملہ میں اسی جہالت میں مبتلا ہیں جس میں ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کی قومیں مبتلا تھیں ۔ بت پرستی کا سراسر نا معقول ہونا بالکل ظاہر ہے لیکن اس کا جادو قوموں پر ایسا چلا کہ وہ اس سے چمٹ کر رہ گئیں اور ہمارے ملک میں تو ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ بت پرست پہلے اپنے ہاتھ سے اپنے خداؤں کو ڈھال لیتے ہیں اور پھر ان کی بارات نکال کر اپنے ہاتھوں ان کو دریا برد کرتے ہیں ۔ یہ عقل کا دیوالیہ پن اور پرلے درجہ کی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ؟
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
دعوت |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
دعوت القرآن/سورۃ 12:يوسف | life | Quran | 155 | 08-13-2012 02:57 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 02:23 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 02:23 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 02:12 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 02:11 AM |