کسی محلے میں ایک خاندان آ کر آباد ہوا‘ یہ سادہ سے لوگ تھے‘ ان لوگوں نے ایک دن ہمسائے سے چاول پکانے کے لیے دیگچہ مانگا‘ ہمسایوں نے دیگچہ دے دیا‘ ان لوگوں نے چاول پکائے‘ دیگچہ واپس کیا تو اس کے ساتھ جست کا ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا‘ ہمسایوں نے کہا ’’ یہ پیالہ ہمارا نہیں‘‘ دیگچہ مانگنے والوں نے جواب دیا‘ آپ کے دیگچے نے رات بچہ دیا تھا‘ یہ پیالہ وہ بچہ ہے‘ یہ آپ کا حق ہے‘ ہم آپ کا حق نہیں مار سکتے‘ ہمسائے اس عجیب و غریب لاجک پر حیران رہ گئے لیکن انھوں نے نئے آباد ہونے والوں کو بے وقوف سمجھ کر پیالہ رکھ لیا‘ ان لوگوں نے چند دن بعد دیگچی مانگی‘ یہ دیگچی اگلے دن واپس آئی تو اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی پلیٹ تھی‘ یہ پلیٹ اس دیگچی کی بچی تھی‘ ہمسایوں نے ان لوگوں کی بے وقوفی پر قہقہہ لگایااور یہ پلیٹ بھی رکھ لی‘ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا‘ ہمسائے کوئی نہ کوئی برتن مانگتے اور واپسی پر اس کا کوئی نہ کوئی بچہ پیدا ہو جاتا‘ ہمسائے یہ بچہ خوشی خوشی قبول کر لیتے‘ ان لوگوں کو ایک دن دیگ کی ضرورت پڑ گئی‘ آج سے تیس سال قبل دیگ بڑی لگژری ہوتی تھی‘ یہ چند لوگوں کے پاس ہوتی تھی اور لوگ انھیں رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے‘ لوگ اس زمانے میں اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیگیں بھی دیتے تھے‘ بہوؤں کی دیگوں کی تعداد ان کے میکوں کی خوشحالی کا ثبوت ہوتا تھا.
ان لوگوں نے دیگ مانگی‘ دو دن گزر گئے لیکن دیگ واپس نہ آئی‘ تیسرے دن ہمسائے نے ان کا دروازہ بجایا‘ صاحب خانہ باہر نکلا‘ دیگ کے مالک نے اپنی دیگ کا مطالبہ کیا‘ ہمسائے نے افسوس سے سر جھکایا اور دکھی لہجے میں بولا ’’ کل رات آپ کی دیگ انتقال فرما گئی‘ ہم نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا‘‘ دیگ کے مالک نے خیران ہو کر پوچھا ’’دیگ کیسے مر سکتی ہے‘‘ ہمسائے نے جواب دیا ’’جناب جیسے سارے برتن مرتے ہیں‘‘ ۔دیگ کا مالک معاملے کو پنچایت میں لے گیا‘ پنچایت بیٹھی تو مدعی نے پنچایت کے ارکان سے کہا ’’ یہ شخص کہتا ہے‘ میری دیگ مر گئی‘ کیا دیگ مر سکتی ہے؟‘‘ پنچایت نے ملزم کی طرف دیکھا‘ ملزم نے نہایت ادب سے عرض کیا ’’ میں جب بھی اس سے کوئی برتن لیتا تھا‘ وہ برتن میرے گھر میں بچہ دے دیتا تھا‘ میں اس برتن کے ساتھ وہ بچہ بھی اس کے حوالے کر دیتا تھا‘ آپ اس سے پوچھئے کیا میری بات درست ہے؟‘‘ پنچایت نے مدعی کی طرف دیکھا‘ مدعی نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ ملزم نے مسکرا کر عرض کیا ’’ جناب اگر کوئی برتن بچہ دے سکتا ہے تو وہ مر بھی سکتا ہے اور اس کی دیگ کل رات رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئی‘‘ پنچایت نے قہقہہ لگایا اور کیس ڈس مس کر دیا‘ وہ ہمسایہ بیچارہ اپنے لالچ کے ہاتھوں مارا گیا تھا‘ برتن ادھار لینے والا بنیادی طور پر فراڈیا تھا اور یہ دوسرے فراڈیوں کی طرح ہمسائے کا لالچ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹارگٹ اچیو کر لیا۔
جاوید چوہدری کے کالم " بادام کا درخت" سے ایک اقتباس