بس اڈے پر رکی، مسافر جلدی جلدی اپنے فطری تقاضے پورے کرنے کیلئے بس سے نیچے اتر گئے ، میں بھی نیچے اُترا ایک چائے کی پیالی لی، اور پینے لگا۔ لیکن میرے ذہن پر جو پریشانی سوار تھی وہ یہ تھی کی میرا موبائل بیٹری چارجنگ ختم ہوجانے کی وجہ سے بند ہوچکا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اکیلا سفر کر رہا تھا اسلئے والدہ ہر دس سے پندرہ منٹ بعد کال کرکے خیریت پوچھ رہی تھیں۔ انکے فون کرنے پر اگر موبائل بند ملتا تو بہت پریشان ہوتیں ۔
سو میں ہوٹل والے کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا کہ کوئی سوئچ بتا دو جہاں میں اپنا موبائل چارج کرسکوں، اپنا موبائل چارجر میں ساتھ ہی لے کر اُترا تھا۔ ہوٹل والے کا شاید دن میں مجھ جیسے 100 لوگوں سے پالا پڑتا تھا اسلئے اُس نے معذرت کرلی۔ اچانک میری نظر سامنے مسجد پر پڑی جس میں ایک سوئچ مجھے نظر آرہا تھا ۔میں نے چائے کا خالی (ڈسپوزبل) کپ کوڑے دان میں ڈالا اور مسجد میں جا کر موبائل چارج پر لگا کر تسبیح میں مشغول ہوگیا۔
جب ڈرائیور نے منزل کی جانب روانگی کا ہارن بجایا تو میں اُٹھا ، چارجر نکالا اور مسجد کا چندہ باکس ڈھونڈنے لگا۔ باوجود تلاش بسیار کے مجھے چندے کا ڈبہ نہ ملا تو میں نے مسجد کے خادم کو دس روپے دیئے اور کہا کہ میں نے ابھی مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کیا تھا اسلئے میری طرف سے یہ دس روپیہ مسجد کے خرچہ میں ڈال دینا۔
خادم یہ بات سُن کر حیرت زدہ ہوگیا ۔ میں نے کہا بھائی ،بات ان دس روپے کی نہیں ہے، بات اس قرض کی ہے جو مجھ سے قیامت کے دن یہ کہہ کر وصول کیا جاسکتا ہے کہ:
"تو نے اس دن مسجد کے سوئچ سے موبائل چارج کیا تھا، مسجد کے سوئچ کا مصرف تیرا موبائل نہ تھا، تو نے کیوں اس سے اپنا موبائل چارج کیا؟ تو میں کیا جواب دونگا؟"
اتنے میں ڈرائیور نے دوسرا ہارن بجایا اور میں مسجد کے خادم کو ہکا بکا چھوڑ کر بس کی جانب بڑھ دیا۔