Quran !!!!Quran ki Nazar Sey!!!! |
Advertisement |
![]() ![]() |
|
Thread Tools | Display Modes |
|
(#1)
![]() |
|
|||
۱۴۔اِبْرَاہِیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے نام:۔ آیت ۳۵ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا بیان ہوئی ہے ۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’ ابراہیم‘‘ ہے ۔ زمانۂ نزول:۔ مکی ہے اور مضا مین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ ایمان لانے والوں کو سخت اذیتیں پہنچائی جارہی تھیں ۔ یہ زمانہ ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کا ہے اور اغلب ہے کہ سورئہ رعد کے بعد یہ نازل ہوئی ہوگی۔ مرکزی مضمون:۔ یہ واضح کرتا ہے کہ رسول کو بھیجنے کا مقصد کیا ہے اور اس کے ذریعہ انسانیت پر خدا کی راہ کس طرح روشن ہو رہی ہے ۔ جو لوگ اس عظیم مقصد کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں وہ رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں اور اس کے پیرووں کو اذیتیں پہنچانے کے درپے ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہی ٹوٹ سکتا ہے اور وہ بدترین سزا ہی کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔ نظمِ کلام:۔ آیت ۱ تا ۴ میں رسول اور قرآن کے بھیجنے کے مقصد واضح کیا گیا ہے آیت ۵ تا ۱۷ میں تاریخ انبیاء کے کچھ اوراق پیش کئے گئے ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ رسول کی مخالفت کرنے والے اور ان کی راہ میں کانٹے بچھانے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں جو سزا بھگتنا ہوگی اس کی بھی ایک جھلک پیش کی گئی ہے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے ۔ آیت ۱۸ تا ۲۳ میں ان کی نامرادی کا مزید حال پیش کرتے ہوئے بتایاگیا ہے کہ اہل ایمان کس طرح بامراد ہوں گے ۔ آیت ۲۴ تا ۳۴ میں ایمان اور کفر کے مختلف نتائج کو مثال کے ذریعہ واضح کیاگیا ہے ۔ کافروں کو نعمتِ خداوندی کی ناشکری پر متنبہ کیاگیا ہے اور اہل ایمان کو شکر گزاری کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ آیت ۳۵ تا ۴۱ میں ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا پیش کی گئی ہے جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے ۔ وہ اپنی نسل کو شرک سے محفوظ اور توحید پر قائم رکھنے کے لیے ایک بے تاب دل رکھتے تھے مگر ان کی اولاد (بنی اسمٰعیل) ان کو اپنا پیشوا مانتے ہوئے آج جو کچھ کررہی ہے وہ ان کی آرزو‘ ان کی دعا اور ان کے طرز عمل کے سراسر خلاف ہے ۔آیت ۴۲ تا ۵۲ خاتمہ کلام ہے جس میں قیامت اور اس کے عذاب کا ہولناک نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ ترجمہ: اللہ رحمن و رحیم کے نام سے (۱)الف۔ لام۔ را ۔ ۱ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے (اے پیغمبر!) تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ ۲ اس کی راہ پر جو غالب بھی ہے اور خوبیوں والا بھی۳ (۲) اللہ کہ مالک ہے ان چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور ان چیزوں کا جو زمین میں ہیں ۔ اور تباہی ہے کافروں کے لیے کہ انہیں سخت سزا بھگتنا ہوگی۔ (۳)جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ۴ اور اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔۵ یہ لوگ پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ (۴)ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس کی قوم کی زبان ہی میں ( پیغام دیکر) بھیجا تاکہ وہ( اس پیغام کو) لوگوں پر اچھی طرح واضح کر دے ۔۶ پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ ۷ وہ غالب اور حکمت والا ہے ۔ (۵)ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ اور انہیں اللہ کے یادگار دن۸ یاد دلاؤ۔اس میں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہے بڑی نشانیاں ہیں ۔۹ (۶) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ۱۰ اللہ نے جو فضل تم پر کیا ہے اسے یاد رکھو جب اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمہیں بری طرح تکلیف دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرڈالتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔۱۱ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ (۷) اور جب تمہارے رب نے خبردار کیا تھا کہ اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں مزید دوں گا۱۲ اور اگر نا شکری کرو گے تو ( یاد رکھو) میری سزا بڑی سخت ہے ۱۳ (۸) اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم اور وہ سب جو روئے زمین پر ہیں نا شکری کریں تو اللہ( کو کچھ پروا نہیں ۔ وہ) بے بنیاز اور خوبیوں والا ہے ۔۱۴ (۹) کیا تمہیں ۱۵ ان لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں جو تم سے پہلے گذرچکے ہیں ؟ قوم نوح، عاد، اور ثمود اور وہ قومیں جوان کے بعد ہوئیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۱۶ ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لیکر آئے تھے لیکن انہوں نے اپنے منہ میں اپنے ہاتھ ٹھونس لیے اور کہا جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اس سے ہمیں انکار ہے اور جس بات کی طرف تم بلاتے ہو اس میں ہمیں شک ہے جس نے ہمیں الجھن میں ڈال دیا ہے ۔ (۱۰) ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ۱۸ ہے ؟ وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخشدے اور ایک مقررہ وقت تک مہلت دے ۱۹ انہو ں نے کہا تم تو ہمارے ہی جیسے آدمی ہو۔تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان سے روک دو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ۔ اچھا تو لاؤ کوئی کھلا معجزہ۔ (۱۱)ان کے رسولوں نے کہا واقعی ہم تمہارے ہی جیسے آدمی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے ۲۰ اور یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ لا دکھائیں ۔ ہاں اللہ کے حکم سے یہ بات ہوسکتی ہے اور ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ (۱۲) اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ اس نے ہماری راہیں ہم پر کھول دیں ۔۲۱ ہم ان اذیتوں پر صبر کریں گے جو تم ہمیں دے رہے ہو۔ اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ (۱۳) اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے یا پھر تمہیں ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہوگا۲۲ تو ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے ۔ (۱۴) اور ان کے بعد تمہیں زمین میں بسائیں گے ۔ یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو ڈرا میرے حضور کھڑے ہونے سے اور ڈرا میری تنبیہ سے ۔ (۱۵) اور انہوں نے فیصلہ چاہا اور(فیصلہ اس طرح ہوا کہ) ہر سرکش ضدی نامراد ہوا۔۲۳ (۱۶) اس کے آگے جہنم ہے ۲۴ اور اسے پیپ لہو پلایا جائے گا۔۲۵ (۱۷)جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پئے گا مگر حلق سے آسانی کے ساتھ اُتار نہ سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر آئے گی مگر وہ مر نہ سکے گا۔ اور آگے ایک سخت عذاب کا اسے سامنا کرنا ہوگا۔ (۱۸) جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ کہ آندھی کے دن اسے ہوا تیزی کے ساتھ لے اُڑے ۔۲۶ جو کچھ انہوں نے کمایا اس سے کچھ بھی ان کو حاصل نہ ہوسکے گا۔ یہی ہے پر لے درجہ کی گمراہی۔ (۱۹) کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمانو ں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق لے آئے ۔۲۷ (۲۰)ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ دشوار نہیں ۔ (۲۱) اور( ایسا ہوگا کہ) اللہ کے حضور سب حاضر ہوں گے اس وقت کمزور لوگ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے کہیں گے ہم تو تمہارے تابع تھے ۔ اب کیا تم ہم کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے کچھ کرسکتے ہو؟ وہ کہیں گے اگر اللہ نے ہم کو راہ دکھائی ہوتی تو ہم تم کو ضرور دکھاتے ۔ اب ہمارے لیے یکساں ہے خواہ چیخ پکار کریں خواہ جھیل لیں ۔ ہمارے لیے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔۲۸
|
Sponsored Links |
|
(#2)
![]() |
|
|||
(۲۲)اور جب فیصلہ چکادیا جائے گا تو شیطان بولے گا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تو وعدہ خلافی کی۔۲۹ میرا تم پر کوئی زور نہ تھا البتہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا بلاوا قبول کر لیا۔۳۰ لہٰذا مجھے ملامت نہ کرو۔ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو۔ اس سے پہلے تم نے جو مجھے شریک ٹھہرایا تھا تو میں اس سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں ۔۳۱ ظالموں کے لیے تو دردناک عذاب ہے ۔ (۲۳) اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ ایسے باغوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ اس میں وہ اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے ۔ وہاں ان کی دعائے ملاقات سلام ہوگی۔۳۲ (۲۴)کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ نے کس طرح کلمٔہ طیبہ کی مثال بیان فرمائی ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھا درخت جس کی جڑ جمی ہوئی اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی۔ (۲۵) وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل لاتا ہے ۔۳۳ اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ہوش میں آئیں ۔
|
(#3)
![]() |
|
|||
(۲۶) اور کلمٔہ خبیثہ کی مثال ایک نکمے درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح ہی سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے ۔ اس کے لیے کوئی جماؤ نہیں ۔۳۴ (۲۷) اللہ اہل ایمان کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں بھی مضبوطی عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔۳۵ اور غلط کار لوگوں کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔۳۶ (۲۸) تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں جا اتارا؟۳۷ (۲۹)(یعنی) جہنم جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔ (۳۰) اور انہوں نے اللہ کے ہم سر۳۸ بنائے تاکہ لوگوں کو اس کے راستہ سے بھٹکائیں ۔ کہو مزے کر لو بالآخر تمہیں جانا دوزخ ہی میں ہے ۔
|
(#4)
![]() |
|
|||
میرے بندوں سے جو ایمان لائے ہیں کہہ دو نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کریں ۳۹ قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی۔ (0) اللہ ہی نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ تمہارے رزق کے لیے پھل پیدا کئے اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے اور تمہارے لیے دریا مسخر کر دئیے ۔۴۰ (1) (۳۳) اور تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا کہ ایک طریقہ پر کاربند ہیں نیز رات اور دن کو بھی مسخر کر دیا۔۴۱ (۳۴) اس نے تمہاری ہر طلب پوری کر دی۴۲ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے ۔۴۳ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی نا انصاف بڑاہی نا شکرا ہے ۔۴۴
|
(#5)
![]() |
|
|||
(۳۵)اور( یاد کرو) جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا۴۵ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا کہ بتوں کی پوجا کرنے لگیں ۔۴۶ (۳۶) اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمرا ہ کر دیا ہے ۴۷ تو جو میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔۴۸ (۳۷)اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض۴۹ کو ایک ایسی وادی میں جہاں کاشت نہیں ہوتی۵۰ تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ۵۱ لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ۵۳ اور پھلوں سے ان کو رزق بہم پہنچا۵۴ تاکہ وہ شکر گزار بنیں ۔ (۳۸) اے ہمارے رب! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ۔ اور اللہ سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۵۵
|
(#6)
![]() |
|
|||
ہوئی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۵۵ (۳۹)شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمعٰیل اور اسحاق عطا فرمائے ۵۶ یقینا میرا رب دعائیں سننے والا ہے ۔ (۴۰) اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔۵۷ (۴۱)اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور مومنوں کو اس دن بخشدے جس دن حساب قائم ہوگا۔۵۸ (۴۲)یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے تم اللہ کو غافل نہ سمجھو۵۹ وہ تو ان کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔۶۰ (۴۳) سرا ٹھائے ہوئے بھاگ رہے ہوں گے ۔۶۱ نگاہیں ہیں کہ لوٹ کر آنے والی نہیں ۶۲ اور دل ہیں کہ اُڑے جاتے ہیں ۔۶۳
|
(#7)
![]() |
|
|||
(۴۴) لوگوں کو اس دن سے خبردار کر دو جبکہ عذاب ان کو آئے گا۶۴ اس وقت ظالم کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی سی مدت کے لیے مہلت دیدے ہم تیری دعوت قبول کریں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے ۔ کیا تم اس سے پہلے قسمیں کھا کھاکر نہیں کہتے تھے کہ ہمیں ( دنیا سے ) منتقل ہونا نہیں ہے ۔۶۵ (۴۵) اور تم ان لوگوں کی بستیوں میں بس گئے تھے جنہوں نے اپنے ہی اوپر ظلم کیا تھا۶۶ اور تم پر واضح ہوا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا اور تمہارے لیے ہم نے مثالیں بھی بیان کر دی تھیں ۔۶۷ (۴۶) اور انہوں نے طرح طرح کی چالیں چلیں اور اللہ کے پاس ان کی ہر چال کا جواب تھا اگرچہ ان کی چالیں ایسی تھیں کہ پہاڑ ٹل جائیں ۔۶۸ (۴۷) پس تم یہ خیال نہ کرو کہ اللہ نے اپنے رسولوں سے جو وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا۔۶۹ اللہ غالب ہے اور سزا دینے والا ہے ۔۷۰
|
(#8)
![]() |
|
|||
(۴۸) وہ دن کہ جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۷۱ اور سب اللہ واحد و قہار ( زبردست) کے حضور حاضر ہوں گے !۷۲ (۴۹) اور تم اس دن مجرموں کو دیکھوگے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ (۵۰) ان کے لباس تارکول کے ہوں گے اور چہروں پر آگ چھائی ہوئی ہوگی۔ (۵۱) یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دے ۔ بلا شبہ وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔ (۵۲) یہ ایک پیغام ہے تمام انسانوں کے لیے ۷۳ اور اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کر دیا جائے اور وہ جان لیں کہ وہی بس ایک خدا ہے اور جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ یاد دہانی حاصل کریں ۔۷۴
|
(#9)
![]() |
|
|||
تفسیر ۱ حروفِ مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھئے سورئہ یونس نوٹ ۱ اور سورئہ بقرہ نوٹ ۱ ۲ یہ وہ اہم ترین مقصد ہے جس کے لیے قرآن کا نزول ہوا ہے یعنی لوگوں کو عقیدہ و عمل کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی میں لے آنا۔ پیغمبر کہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ‘ فہمائش و تذکیر اور تعلیم و ارشاد کے ذریعہ لوگوں کو روشنی میں لانے کی کوشش کرے اور اس روشنی کو قبول کرنے کی توفیق دینا اللہ ہی کا کام ہے ۔ بالفاظ دیگر جو لوگ روشنی میں آئے اللہ کی توفیق ہی سے آئے مگر ذریعہ پیغمبر اور قرآن بنے ۔ ۳ یعنی روشنی میں لانے کا مطلب اللہ کی راہ پر لانا ہے ۔ یہاں اللہ کی دو صفتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اور دوسری یہ کہ وہ حمید یعنی خوبیوں والا ہے ۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ دین جو خدا تک پہنچنے کی واحد راہ ہے انسان اس پر چلکر ایک ایسی ہستی سے اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں پوری کائنات ہے اور جو خوبیوں ہی خوبیوں والا ہے اس لیے اس سے تعلق استوار کر کے انسان نہال ہی ہوسکتا ہے اور اس کی کوئی امید ایسی نہیں ہوسکتی جو بر نہ آئے ۔
|
(#10)
![]() |
|
|||
۴ انسان جس چیز کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کے لیے دوسری چیزوں کو قربان کر نے کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔ جو لوگ دنیا کو عزیز رکھتے ہیں وہ اس کے مفاد کو کسی طرح چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے خواہ آخرت کے مفاد کو انہیں قربان کیوں نہ کرنا پڑے ۔دنیا کی حد سے زیادہ محبت ہی انہیں آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے ۔ اگر وہ کھل کر آخرت کا انکار ہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی انہوں نے آخرت کو اپنا نصب العین بنالیاہوتا تو جو قدم بھی وہ اٹھاتے آخرت کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی اٹھاتے ۔ ۵ اس کی تشریح سورئہ آل عمران نوٹ ۱۲۵ میں گزرچکی۔ ۶ یعنی رسول کو بھیجنے سے مقصود اچنبھے دکھانا نہیں بلکہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچادینا ہے ۔ اس مقصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی سنت(قاعدہ) یہ رہی ہے کہ جس قوم میں بھی اس نے رسول بھیجا اس کی زبان کو وہ جاننے والا تھا تاکہ وہ اللہ کے پیغام کی اچھی طرح وضاحت کرسکے ۔ اسی سنت الٰہی کے مطابق نبی عربی کا ظہور ہوا ہے اور قرآن عربی میں نازل کیاگیا ہے تاکہ وہ عرب قوم کو جو اس کی اولین مخاطب ہے پوری وضاحت کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچاسکے اور اس پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم ہو۔
|
![]() ![]() |
Bookmarks |
Tags |
دعوت |
|
|
![]() |
||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
دعوت القرآن/سورۃ 12:يوسف | life | Quran | 155 | 08-13-2012 02:57 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ | life | Quran | 98 | 08-13-2012 02:23 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ | life | Quran | 7 | 08-13-2012 02:23 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 7:الاعراف | life | Quran | 10 | 08-13-2012 02:12 AM |
دعوت القرآن/سورۃ 9:التوبۃ | life | Quran | 180 | 08-13-2012 02:11 AM |